• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ کوٹ مومن ، براہمن افسر، شودر عوام اور بے بس اساتذہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سانحہ کوٹ مومن ، براہمن افسر، شودر عوام اور بے بس اساتذہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور پھر وہی ہوا کہ جو ہوتا چلا آرہا ہے ، اے سی کوٹ مومن عفت النساء کے حق میں دلائل آنے شروع ہو گئے ، اور یہ دلائل براہمن دے رہے ہیں یعنی وہ آفیسر کہ جو سی ایس ایس کر کے آئے ہیں ، مختلف جگہوں پر بیورو کریسی کا حصہ ہیں ، اور اپنے آپ کو اصل حاکم سمجھتے ہیں، جب میں نے سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھایا تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اے سی کوٹ مومن عفت النساء کی ایک پروفیسر کے ساتھ ناروا رویے اور بعد ازاں حوالات میں بند کرانے کی مذمت کی ۔
اب معاملہ آگے بڑھا ہے ، خبر الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن چکی ہے ، اور پنجاب حکومت بھی اس میں دلچسپی لینے لگی ہے ، لیکچرررز ایسوسی ایشن پنجاب نے ہڑتال کی دھمکی دی ہے ، اور عفت النساء کے تبادلے کا مطالبہ کیا ہے ، یہ معاملہ یہاں تک پہنچا ہے اب ذرا اس سے بھی آگے چلتے ہیں ۔
اے سی کوٹ مومن نے ایک کہانی گھڑی ہے، جو انہوں نے ڈی سی سرگودھا کو اپنی لکھی چٹھی میں بیان کی ہے ، جس کے مطابق کالج میں پروفیسرز کی جانب سے ان کا گھیراو کیا گیا تھا ،جناب یہ بات میری سمجھ سے تو بالا تر ہے کہ علم و ادب کی تعلیم دینے والے بھلا ایک خاتون آفیسر کا گھیراو کیوں کریں گے ، جب کہ چشم دید گواہ اس حوالے سے کچھ اور کہہ رہے ہیں ،یہاں تک بتایا گیا ہے کہ محترمہ جب بہت زیادہ غصے میں تھیں تو انہوں نے ایک پروفیسر کو کہا کہ تم جیسے تو میرے تلوے چاٹتے ہیں۔جب کہ محترمہ نے جو چٹھی ڈی سی سرگودھا کو بھیجی ہے اس میں لکھا ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر طارق کلیم” بک “رہا تھا ، تو جناب جو آفیسر یہ الفاظ اپنے اعلیٰ آفیسرز کو لکھ کر بھیج رہی ہے اور وہ بھی ایک استاد کے متعلق تو سوچیں اس وقت محترمہ نے کیا نہیں کیا ہو گا۔اے سی کوٹ مومن نے دل کی بھڑاس وہاں پر موجود لیکچررز اور پروفیسرز پر خوب نکالی تھی کہ جس کے گواہ بھی موجود ہیں ، اب کچھ سرکاری آفیسر سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر اس عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں ، لگتا ہے ان کے دل میں بھی استاد کی قدر اتنی ہی ہے کہ جتنی عفت النساء کے ذہن میں ہے، شاید سی ایس ایس کرنے کے بعد یہ لوگ خود کر براہمن ، عوام کو شودر اور اساتذہ کو بے بس گردانتے ہیں۔
محترمہ عفت النساء صاحبہ آپ بہت بڑی افسر سہی ، لیکن آپ کو اس مقام پر پہنچانے میں بھی ا ساتذہ کا ہی ہاتھ ہے ، جب آپ پرائمری میں تھیں تو کسی استاد سے پڑھا ہو گا ، مڈل کی کامیابی بھی کسی روحانی باپ کی مرہون منت ہو گی ، میٹرک ، ایف اے اور بی اے کے امتحانات کیلئے آپ کو علم کی روشنی بخشنے والے بھی اساتذہ ہی تھے ، جب آپ نے مقابلے کا امتحان یعنی سی ایس ایس پاس کیا تو جتنی محنت آپ کی تھی اتنی ہی محنت آپ کے اساتذہ کی تھی کہ اب جب آپ ایک تنا آور درخت بن گئیں تو انہی اساتذہ کی تذلیل کرنے چل پڑی ہیں ،۔افسر آپ سے پہلے بھی بہت تھے اور آپ کے بعد بھی بہت آئیں گے۔ لیکن یاد اسے ہی رکھا جاتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہو ، یہ کرسی ہے اور کرسی کسی کی بھی نہیں ہوتی، اساتذہ کا احترام سیکھیں ،کیونکہ یہ ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں ۔
اگر آپ نے اپنے تعلیمی دور میں ،مولا علی کا یہ فرمان نہیں پڑھا تھا تو میرا خیال ہے کہ سی ایس ایس میں ضرور پڑھا ہو گا۔
کہ” جس نے مجھے ایک حرف پڑھایا اسے حق ہے کہ مجھے بیچ سکتا ہے”

Facebook Comments

سید عون شیرازی
سید عون شیرازی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے مشہور صحافی اور مصنف ہیں ، 20 لفظوں کی کہانی لکھتے ہیں جو اب ایک مقبول صنف بن چکی ہے،اردو ادب میں مختصر ترین کہانی لکحنے کا اعزاز حاصل ہے جس کا ذکر متعدد اخبارات اور جرائد کر چکے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply