سوشل میڈیا پر لکھاری ہی مدیر اور ناشر ہے: زاہد امروز

گزشتہ پندرہ سالوں میں اظہار کے نئے ذرائع مثلاً ادبی ویب سائٹس، بلاگز، آن لائن صفحات ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ نے نئے ادبی اور سماجی رجحانات کو جنم دیا ہے۔ ان سے قاری، مدیر اور لکھاری کے رشتے میں ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ خصوصاً اردو شاعروں اور ادیبو ں میں سوشل میڈیا کا حد درجہ استعمال کیا اثرات مرتب کر رہا ہے ، اس پر شائد ہی بات ہوئی ہے۔ کیا یہ اردو شعر و ادب کی ترویج کے لیے مثبت رجحان ہے اور اس سے ادب کا دائرہ صحیح معنوں میں وسیع ہو رہا ہے؟ کیا سوشل میڈیا اور سماجی ویب سائٹس پرنٹ میڈیا کا نعم البدل ہو سکتی ہیں؟ عالمی اد ب میں ان ٹیکنالوجیکل رجحانات کو کیسے دیکھا جا رہا ہے ۔مزید یہ کہ سوشل میڈیا کا صارف لامحالہ کارپوریٹ سرمایہ داری نظام کا آلہ کار بن جاتا ہے ۔ اردو ادیب اس عمل کو کیسے دیکھتا ہے ؟ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے زاہد امروز سے ایک گفتگو ہم یہاں شائع کر رہے ہیں۔

س: آپ سوشل میڈیا کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ ایک سنجیدہ ادبی فورم ہے اورکسی لکھنے والے کا ادبی معیار متعین کر سکتا ہے؟

میں ان سوالوں کے روایتی جوابات دینے کی بجائے (جن میں کسی جج سا فیصلہ کن انداز شامل ہوتا ہے) محض اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔ ان میں کہیں کہیں میری خود کلامی بھی در آئے گی اور کہیں کہیں نئے سوالات بھی کیونکہ ابھی اس بارے میں کوئی تاریخی اورحتمی رائے قایم کرنا قبل از وقت ہے۔ سوشل میڈیا کا بطور ایک متبادل یا متوازی عوامی فورم ، کم و پیش ایک دہائی کا قصہ ہے۔اگرچہ سوشل میڈیاایک دہائی میں ہی ہماری زندگیوں کا اہم حصہ بن چکا ہے ۔ہم ایک زندگی حقیقت میں جیتے ہیں اور دوسری سوشل میڈیا پر۔ اظہار کے (ادبی اور زیادہ تر غیر ادبی ) اس نئے فورم کے ہمہ وقت وجود سے ہماری زندگیوں میں کیا تبدیلی آرہی ہے۔ اس کو سمجھنا ضروری ہے۔آپ کے سوال کے تناظر میں ہم سوشل میڈیا کے استعمال کو دودرجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک بطور متبادل ادبی فورم اور دوسرا بطور تفریحی فورم۔ ہم ان دونوں پہلوؤں پر بات کریں گے۔اردو میں سوشل میڈیا کا مطلب ہوا سماجی مواصلاتی ذریعہ۔ یعنی ایک ایسا نظام جو سماجی اور عوامی استعمال میں ہو اور انہیں کے کنٹرول میں ہو۔ اور جب ایک بڑی عوامی تعداداسے استعمال کرنے لگے، تو اشتہاروں کے ذریعے پیسہ کمایا جائے۔ مواصلاتی ٹیکنالوجی کے عوامی دسترس میں آنے سے رابطوں کا جو نیا رستہ قایم ہوا اس کاابتدائی کاروباری مقصد یہ تھا کہ عوام بطور صارف اسے استعمال کرے ۔یعنی یہ اخبار اور ٹی وی کا نعم البدل بن جائے۔ اسے ہر صارف اپنی دلچسپی کے مطابق استعمال کرے۔ اپنی پسند ،نا پسند کی بنیاد پر اپنی ترجیحات کے مواد تک رسائی حاصل کرے ، اپنے دوستوں اور ہم خیال لوگوں تک پہنچ سکے اور مشترکہ دلچسپیوں کی گروہ بندی کرے جس میں عموماً عام فہم تفریحی قسم کی عوامی دلچسپیاں، انٹرٹینمنٹ اور سماجی مشاہدات جیسا مواد ہو۔ کیونکہ اکثریت اسی طرح کی زندگی گزارتی ہے۔ اور اسی سے حظ اٹھاتی ہے۔

س: اظہار کے اس نئے ذرائع سے ادبی اور علمی عمل میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟

ایک بڑی تبدیلی تو یہی پیدا ہوئی کہ بطور متوازی ذریعہِ اظہار ادبی عمل کی ریاضیاتی مساوات بدل گئی ۔یعنی سوشل میڈیا پر لکھاری خود مدیر ہے اور خود ہی ناشر ہے ۔ وہ قاری تک رسائی میں اب کسی کا محتاج نہیں۔ لیکن اس وصال کی عمر محدود ہے۔ میرے نزدیک سوشل میڈیا ایک چوک ہے جہاں ہر کسی کے پاس ایک سی رسائی ہے۔ ہر کوئی بات کر رہا ہے۔ ہر کوئی سن رہا ہے اور ہر کوئی بول رہا ہے۔ ایک جمہوریت ہے جس میں لکھاری اور قاری ایک ہو گئے ہیں۔ آپ بیک وقت لکھاری بھی ہیں اور قاری بھی ۔یعنی آپ خود ہی مداری ہیں۔خود تماش بین بھی ہیں اورخود ہی تماشہ بھی۔ یہ عمل اب دو طرفہ ہے جس میں خیال ، اس کے اظہار اور اشاعت میں وقت کی تاخیر اور انتظار نہیں۔

سوشل میڈیا سے دوسری اہم تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ اس (ورچوئل ورلڈ)میں مرکز اور مضافات کی تفریق ختم ہو گئی۔ آ پ لندن میں رہتے ہوں، چیچہ وطنی میں بیٹھے ہوں، یاتھر پارکر کے کسی دور افتادہ گاؤں میں، آپ یہاں سٹلائٹ کے آ فاقی چشم و گوش کے ذریعے ہمہ وقت دیکھے سنے جا سکتے ہیں۔ یہ کثیر مرکزیت اپنی ظاہریت میں جمہوری ہے۔اپنی تصویر و تحریر کی ترسیل کے لیے آپ کوکسی اخبار کی ضرورت نہیں، کسی ادبی رسالے کے مدیر سے رسمی تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد کے ’’لکی ایرانی لٹریری فیسٹول‘‘ کے منتظمین کی عدم توجہ پر کڑھنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی فیس بک وال، آپ کا ٹویٹ اور انسٹاگرام سپیس آپ کا اخبار بن گیا ہے جس میں آپ جو چاہیں نشر کرتے ہیں اورہمہ وقت اپنے قارئین کی پسند و ناپسند پر آنکھ رکھے ہوئے ہیں۔

س: لیکن اس مکمل خود مختاری سے کچھ سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہمہ وقت موجودگی کیا واقعی حقیقت کا نعم البدل ہے اور بظاہراظہار و ترسیل کی اس انقلابی نوعیت کی تبدیلی کیا بڑا ادیب پیدا کر سکتی ہے؟ کیا سوشل میڈیا ادبی سرگرمی کے کوئی منفی پہلو بھی ہیں ؟

یہ ہمارا اردو ادیب ابھی نہیں سوچ رہا۔اکثر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا کس نوعیت کا میڈیم ہے۔ میں اب تک یہ سمجھا ہوں کہ سوشل میڈیا اگرچہ ایک ورچوئل ورلڈ ہے، لیکن یہ اسی مادی ، حقیقی دنیا کا ایک پرتو ہے۔ جس طرح سایہ اپنا وجود نہیں رکھتا ۔ یہ کسی مادی شے کا روشنی کے راستے میں آجانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا حقیقی زندگی کی پرچھائیں ہے۔ جس طرح کسی شے کا سایہ محض سیاہ رنگ کا بے خال و خد حاشیہ ہوتا ہے اسی طرح آپ کا سوشل میڈیا پروفائیل آپ کی اصل شخصیت کا بے خال و خد سایہ ہوتا ہے۔ اس میں آپ اپنی تمام کمزوریاں، خرابیاں ، محرومیاں اور بے بسیاں چھپا لیتے ہیں۔جس طرح سب کے سائے ایک جیسے ہوتے ہیں، اسی طرح آپ اپنی’ سوشل میڈیا شخصیت ‘کچھ بھی پیش کر سکتے ہیں۔جس طرح آپ کو ادبی حلقوں میں، گلیوں بازاروں میں تماشہ گر قسم کے لوگ ملتے ہیں ، سوشل میڈیا پر بھی ایسے ہی لوگ موجود ہیں۔فرق محض میڈیم کا ہے۔ہر شخص اپنا اظہار چاہتا ہے۔ ہر گلی محلے میں لکھنے والے ہوتے ہیں ۔پرنٹ میڈیا میں قاری اور لکھاری کے درمیان مدیر، ناشراور مارکیٹ بطور فلٹر کام کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ فلٹر ہٹ جاتا ہے۔ کسی نظر انداز کیے گئے اچھے لکھاری کے لیے یہ ایک نعمت ہے ۔ یہاں وہ دوسروں تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے بغیر بھی اچھا لکھنے والا زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔سوشل میڈیا کا منفی پہلو یہ ہے اس سے وہ سارا کچرا قاری تک پہنچتا ہے جو ادبی اشاعتی عمل میں فلٹر ہوتا ہے۔

س: اگر یہ حقیقت کا پرتو ہے توپھر روایتی ادبی فورم اورسوشل میڈیا بطور ادبی فورم میں کیا فرق ہے؟

ہر میڈیم یا فورم کی ایک نفسیات اورایک مزاج ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیاصحافت کی ایک شاخ ہے۔ لیکن اس میں اور روایتی صحافت میں فرق یہ ہے کہ اس میں ہر صارف صحافی و مدیر خود ہے۔ تحریر اور قاری کے اس برا ہ راست تعامل سے کچھ نئے پہلو نمایا ں ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لکھاری خود ہی کاتب ، خود پروف ریڈر، خود مدیر اور خود ہی ناشر بن گیا۔ وہ جو بھی خیال حرف کرے، سونا بنائے یا مٹی، اس کا انحصار کسی’ دوسرے ‘پر نہیں رہا۔ وہ اپنے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے قاری تک رسائی میں خود مختار ہو گیاہے۔ یوں کہئے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا عوامی تھڑا ہے جس میں لکھاری اور قاری کے وصال میں کوئی رابطہ کار نہیں،کوئی مدیر نہیں، کوئی ناشر نہیں، معیار کا کوئی معروضی پیمانہ نہیں۔ اس سے لکھنے والے کو مفت اور مکمل آزادی مل گئی ۔ایسی آزادی جس میں وقت کی بھی قید نہیں۔

س:ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کا شاعر و ادیب طبقہ فیس بک یا سماجی رابطے کی دوسری ویب سائٹس پر ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ اس سے ادب کی عوام تک فوری رسائی ہو رہی ہے۔اور آپ کے کلام کی زیادہ پذیرائی ہو سکتی ہے؟

دیکھو، جس طرح گوئیّے کو سنوئیّاچاہئے ہوتا ہے اور مداری کوتماش بین ، اسی طرح لکھاری کو قاری چاہیے ہوتا ہے ۔ آپ صدر، وزیراعظم (بادشاہ) کے دربار میں گائیں ، صوفی کے دربار پر، کوکا کولا کے دربار میں یا گھر کی بیٹھک میں موبائل پراپنا گانا بمعہ وڈیو ریکارڈ کر کے آن لائن ( فیس بک چوک ) میں رکھ دیں، سب اظہار کے راستے ہیں۔لوگ آپ کو دیکھیں گے ، سنیں گے، ایک دوسرے کی نقالی کریں گے اور داد دیں گے۔ اسی طرح، شاعر ادیب لوگ خواہ ایوانِ صدر میں مشاعرے پڑھیں ، ٹی وی چینلوں کے عید شوز میں کلام آزمائی کریں ، سنجیدہ ادبی رسائل میں تحریریں چھپوائیں یا فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام پر لکھاری بمعہ مدیری بمعہ اشتہاری کی سہ جہتی ڈیوٹی کریں۔ سب اظہار کے راستے ہیں۔ (یہاں اشتہاری سے مراد وہ شخص ہے جو اپنی تشہیر آ پ کرے) ۔ویسے تو اخباروں اور ادبی رسائل میں بھی روزانہ ڈھیروں کچرا شائع ہوتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر لکھاری کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ (اپنی فیس بک وال پر بطور سٹیٹس ) بیک وقت لکھ بھی رہا ہے اور شائع بھی رہا ہے۔ یعنی لکھاری کے لیے اپنی تحریر کی نظرِثانی بھی بے معنی بات ہے اور بلا وجہ کی تاخیر اور رکاوٹ ہے۔لکھار ی اور قاری کے درمیان یہ نیا تعلق مثبت ہے یا منفی؟ میرے نزدیک یہ مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔اس کا انحصار تحریر کے تناظر (context) پر ہے۔

جہاں تک ادب کی ترسیل اور پذیرائی کی بات ہے، کم سہی لیکن سنجیدہ پڑھنے والے آپ کو کتابیں پڑھتے ہی نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا پر بھی آپ کو پڑھنے والے (کچھ سنجیدہ اورزیادہ تر غیر سنجیدہ)،آپ کی یک حرفی تعریف کرنے والے ا ور فوراً فین بن جانے والے لوگ مل جائیں گے۔آپ سوشل میڈیا پر بے حد مشہور ہیں یا بالکل مشہور نہیں ہیں، آپ کو ہزاروں لائک ملتے ہیں یا سو پچاس، ایک بات طے ہے کہ اس سے آپ کی ادبی و علمی قد و قامت اور معیارِ تحریر متعین نہیں ہو سکتیں۔ادب کے لیے سنجیدہ فورم کون سا ہے اور غیر سنجیدہ کون سا، اس کا فیصلہ ہم ابھی نہیں کرتے۔البتہ میرے نزدیک ایک سنجیدہ لکھنے والے کو جن باتوں اور حرکات سے دور رہنا چاہئے ، سوشل میڈیا انہیں حرکات کے بدولت چلتا ہے۔

س: ان حرکات سے آپ کی کیا مراد ہے؟ کیا معروف ادب اور سنجیدہ ادب دو مختلف چیزیں ہیں؟کتنے ہی اچھے شاعرا ور فنکار سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئے ہیں؟

یہ اس اختیار و رسائی کا مثبت پہلو ہے کہ کثیر مرکزیت سے کئی نئے در کھلے ہیں۔ لیکن یہاں ہم سوشل میڈیا بطور متبادل ادبی فورم کی بات کر رہے ہیں۔نئے شاعر ادیب تو سوشل میڈیا سے پہلے بھی متعارف ہوتے رہے ہیں اور اس کے لیے سوشل میڈیا کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ بڑا ادب ہے اور یہ بڑا ادب نہیں ہے اس کا پیمانہ یہ ہرگز نہیں کہ کسی تحریر یا وڈیو یا فلم کو کتنے لائکس ملے ہیں یا اسے کتنے لوگوں نے دیکھا ہے۔ تخلیقی عمل اس کے بالکل بر عکس ہے۔ کسی بھی تحریر (یہاں تحریر سے مراد textہے جو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر حسی تجربہ ایک تحریر/ textہے)کے راتوں رات مشہور ہو جانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ عام فہم یعنی familiarہو، پہلے سے آپ کے مشاہدے میں ہو اور اُس میں کوئی اجنبیت نہ ہو۔ آپ اسے سرسری دیکھیں اور سوچے بغیر اسے سمجھ لیں۔ ایسی تحریر جو آپ کے تصوارت اور عقائد کو چیلنج نہ کرے اور کسی الجھن میں نہ ڈالے ۔ ایسی ادبی تحریریں کلیشے سے بھری ہوتی ہیں۔ اور کلیشے ادبی تحریر کی موت ہے۔ بڑا ادب کسی نئے تجربے کے بیان میں آنے سے یا کسی عام تجربے سے نیابیانیہ تشکیل دینے سے پیدا ہوتاہے ۔ اس میں ایک پر اسراریت، ایک اجنبیت ہوتی ہے۔ وہ آپ کو چیلنچ کرتا ہے اور مروّجہ نقطہ نظر کو بدل دیتا ہے۔سوشل میڈیا اس کا متحمل نہیں۔ بڑے ادب کی اس اجنبیت اور غیر مانوسیت ) (Unfamiliarity کوسمجھنے کے لیے وقت درکا ر ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر کسی تحریر یا پوسٹ کی عمر کچھ لمحے یا زیادہ سے زیادہ کچھ گھنٹے ہوتی ہے ۔اس کے بعد آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل ۔ آپ کو کچھ سنجیدہ قارئین ضرور مل جائیں گے۔سو پچاس اچھے پڑھنے والے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ آپ خود دیکھیں۔ جن ادبی تحریروں کو سوشل میڈیا پرہزاروں لاکھوں لوگ لائک کرتے ہیں ان میں شاز و نادر ہی کوئی اچھی تحریر ہوتی ہے ورنہ وہی ادبی جگالی ۔ چونکہ یہاں آپ خود ہی سارے شعبوں پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ آپ جتنی خود تشہیری کر یں گے اتنے مشہور ہو جائیں گے۔ یہ جستجو تخلیق کا ر کو تماشہ گر بنا دیتی ہے۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ تخلیقی عمل کے لیے جو بے فکری درکار ہوتی ہے وہ آلودہ ہو جاتی ہے۔ آپ ہمہ وقت لائکس اور کمنٹس گنتے رہتے ہیں۔ یہ گویا ہوا کے گولے جمع کرنے کے مترادف ہے۔

س: یعنی آپ کے نزدیک سوشل میڈیا پر تحریر شائع کرنا برانہیں ،اس سے اپنا ادبی قد متعین کرنا خام خیالی ہے؟

ہاں ، آپ کہہ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک نئی طرز کا شاعر ،ادیب پیدا کیا ہے ۔ یہ جھٹ لکھی، پٹ اپ لوڈ کی ، قسم کی عام فہم، مختصر، جذباتی نوعیت کی تحریریں جو انسٹاگرام، فیس بک، ٹویٹر پر وائرل ہو جاتی ہیں ،خیال اور کرافٹ کی سطح پر اکثر کوئی نیا تجربہ پیش نہیں کرتیں۔ یہ اردو شاعروں ادیبو ں کی تحریریں ہوں یا دوسری زبانوں میں لکھنے والوں کی، اس کے اصول و قوائدایک سے ہیں۔ قاری مصروف ہے۔ وہ میٹرو میں سفر کر رہا ہے،اسٹیشن پر بس کا انتظار کر رہا ہے، ٹائلٹ میں بیٹھا ہے، وہ دماغ سے نہیں پڑھ رہا اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر رکھے انگوٹھے سے پڑھ رہا ہے۔ اس کا انگوٹھا اس کے دماغ سے زیادہ تیز چلتا ہے۔ بوریت کے خلا کو وہ کسی غزل یا مختصر نظم پڑھ کر پُر تو کر رہا ہے اور ممکن ہے یہ اس پر اثر انداز بھی ہو، لیکن اس دورانیے میں وہ ادبی تحریر سے ، کسی وڈیو یا تصویر سے لمحاتی تفریح سے زیادہ توقع نہیں رکھتا ۔ آپ سوشل میڈیا مواد کا تجزیہ کریں تو لاکھوں، کروڑوں لائکس حاصل کرنے والی پوسٹ عموماً موبائل سے بنائی گئی کسی ڈکیتی، کسی ظلم ، زیادتی، یا کسی راہ گیر سے پیش آئے واقع کی کوئی سنسی خیزوڈیو ہو گی۔کسی ایکٹر، ایکٹرس کا کوئی پرائیویٹ بیڈ روم منظر یا کسی عام لڑکی کا سطحی جنسی اشتہا دیتا ڈانس کلپ ہو گا۔ سماجی میڈیا اپنی فطرت میں ایک ورچوئل بازار ہے جو ہماری حقیقی زندگی کی نفسیات کی پرچھائیں ہے۔ اس ورچوئل بازار میں لوگ تفریح کے لیے نکلتے ہیں۔ ان کے پاس سنجیدہ مواد پڑھنے کا وقت نہیں۔ سنجیدہ ادب کے لیے آپ مخصوص ادبی ویب سائٹس پر جاناہو گا۔مثلاًآن لائن اردو میڈیا میں ریختہ، ادبی دنیا ، لالٹین یا عالمی سطح پر معروف ادبی رسالوں کی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں کسی تحریر کو مخصوص ادبی تناظر میں پیش کیاجاتا ہے۔سوشل میڈیا چونکہ ایک صحافیانہ فورم ہے اسے پروپیگنڈے کے لیے ، سیاسی اور تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، سنجیدہ ادبی سرگرمی کے لیے یہ غیر مناسب ہے۔

س: اگر آپ کسی بڑے شاعر ادیب کی شاعری یا فن پارے سوشل میڈیا پر پیش کریں تو آپ کے مطابق لوگ اسے کس طرح پڑھتے ہیں؟

مثلاً آپ بابا فریدیا غالب کو آج زندہ کر لیجئے اور ان کے سوشل میڈیا پروفائل بنادیں ۔ جہاں وہ فیس بکی ادیبوں شاعروں کی طرح روزانہ صبح شام اپنی تحریریں اپ لوڈکریں۔ ہر صبح ناشتے کے بعد اپنا ایک شعر یا اشلوک زنانہ تصویر کا پس منظر لگا کر انسٹاگرام یا فیس بک پر اپ لوڈ کریں،اس کی تشہر کریں ۔ لوگوں کواپنی تحریروں پر کمنٹس کرنے کے لیے اِن باکس میں ذاتی پیغامات اور سفارشیں بھیجیں ، تو کیا لوگ ان کے اشلوک یا اشعار ایک سرسری پڑھت میں سمجھ لیں گے؟ سمجھیں گے نہیں ، مروتاً لائک کر کے گزر جائیں گے۔ کسی تحریراور اس کے لکھاری کا عظیم ہونااس کی شہرت میں نہیں اس کے باطن میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ دراصل کوئی بھی شے /تحریر بذاتِ خود مکمل معنی نہیں رکھتی اس کا تنا ظر اسے معنی و مفہوم فراہم کرتا ہے۔ اگر اس سوال کو ایک اور طرح سے دیکھیں تو میں کہوں گا کہ تحریر کا ایک تناظر اس کاذریعہِ اشاعت بھی ہے۔ آپ ایک تحریر اخبار میں شائع کریں، اسی کو ایک معیاری ادبی جریدے میں شائع کریں (جس کی مقبولیت مخصوص اور سخت ادبی معیار کے تحت ہو) ۔اسی تحریر کو بطور آن لائن بلاگ کے شائع کریں اور پھر اسی تحریر کو فیس بک پروفائل دیوار پربطور سٹیٹس لگا دیں۔ ایک ہی تحریر کے مختلف ذریعہِ اشاعت کے باعث اس کا تناظر بدل جائے گا اور پڑھنے والااس اشاعتی ذرائع/ میڈیم سے منسلک اپنی پیش بین جانب دار ی (Pre-conceived bias) یا میڈیم کے مزاج کے اثرکے تحت مختلف رائے قائم کرے گا۔ ہر تحریر اپنے مناسب ذریعہِ اشاعت کی محتاج ہے تاکہ وہ صحیح تناظر میں اصل قارئین تک پہنچ سکے۔اس کا مطلب ہوا کہ کسی تحریر کا کوئی حتمی تناظر نہیں ہوتا۔قاری اور تحریر ہر تعامل میں اپنی قدر اور معنی خود متعین کرتے ہیں۔ تحریر اور قاری کے درمیان رابطہ کسی بھی ذریعے سے ہواس کی کوئی معروضی اور حتمی شکل طے کرنا مشکل ہے۔

س: سوشل میڈیا کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ لامحالہ ادیب کو سرمایہ داری نظام کا صارف بنا دیتا ہے ، یہ کیسے کام کرتا ہے ۔ اگر یہ ادب کی خدمت نہیں کر رہا تو کیا اس سے کنارہ کشی ممکن ہے؟

آپ دیکھیں تو ان سماجی میڈیا ویب سائٹس کے خالقین اور منتظمین کے ذاتی پروفائل اکاونٹ قدرے غیر متحرک ہیں۔ وہ صبح شام فیس بک کے عادی اردو شاعروں ،ادیبوں کی طرح آن لائن نہیں رہتے۔ وجہ جاننے کے لیے اس وِرچوئل بازار کی نفسیات اور کاروباری حکمتِ عملی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیاکے امیر ترین سرمایہ دارلوگ انہیں ورچوئل بازاروں مثلاً فیس بک، ٹویٹر ، انسٹاگرام کے مالکان ہیں۔ کروڑوں، اربوں صارفین کے مفت استعمال کے لیے دستیاب ویب سائٹس اتنا پیسہ کہاں سے کماتی ہیں؟در اصل یہ منافع آپ سے دوہری شکل میں وصول کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس کے نفسیاتی پہلو پر بات کرتے ہیں۔مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹس بنانے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی شعور اور نفسیات کیسے کام کرتی ہے۔ انسانی دماغ میں ایک مرکب ڈوپامائن (Dopamine)پایا جاتا ہے جس کے ذریعے نیوران کے درمیان عصبی ترسیل ہوتی ہے۔ ڈوپامائن مرکب ہمیں کسی چیز کے عادی ہوجانے میں ، لذت دینے والی اشیا کی طرف بار بار مائل ہونے میں ، کسی نشے سے لطف حاصل کرنے میں بنیادی محرک کاکردار ادا کرتا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی چیز کا عادی ہوتا ہے۔ کسی عادت کا پیدا ہونا اصل میں تو کسی ایسے کام کو شعوری یا غیر شعوری طور پر بار بار کرنے کا نام ہے جو آپ کو لطیف احساس دے اور آپ مزہ محسوس کریں، یہ کوئی بھی فعل ہو سکتا ہو۔ خواہ کسی نشے کی لت ہو، کوئی گیم ہو ،جنسی فعل ہو، سسپنس ڈائجسٹ ہوں یا کوئی اور عادت،آپ کے دماغ میں اس عمل سے ڈوپامائن لیول کا بڑھنا ایک لطیف احساس دیتا ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی ایسے اصولوں پر ڈیزائن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس ویب سائٹ کے استعمال کے دوران صارف کے دماغ میں ڈوپامائن لیول کو اشتہا ملے۔نفسیاتی سطح پر ٹیکنالوجی کی لت بھی نشے کی لت جیسا اثر کرتی ہے۔ اسی لیے پچھلے پندرہ سالوں میں موبائل فون میسجنگ، سوشل میڈیا پر اجنبی روابط، ٹنڈر، فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام جیسی ویب سائٹس استعمال کرتے ہوئے آپ کو بہت سا دلچسپی کا سامان ملتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی شیئر کی ہوئی معلومات کے اس سمندر میں آپ بے سمت تیراکی (surfing)کرتے ہوئے دوستوں کی تصاویر دیکھتے ہیں۔ان کے روز مرہ کی سرگرمیوں سے واقف ہوتے ہیں، اجنبیوں کی پروفائل ٹٹولتے ہیں، کوئی ہنسی مزاق کی وڈیو دیکھتے ہیں۔ یہاں وہاں سے کوئی شعر، کوئی غزل ، نظم پڑ ھتے ہیں، لائکس ، کمنٹ کرتے جاتے ہیں۔اسی طرح گھنٹوں گزر جائیں گے اور آپ لطف لیں گے۔ لیکن اس وقت گزاری کے بعد آپ کا ذہن ایک خالی پن محسوس کرے گا۔آپ کئی لوگوں کے شیئر کیے ہوئے تجربات کو سکرین پر دیکھیں گے لیکن خود کسی تجربے سے نہیں گزریں گے۔آپ اس مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں کہ آپ سکرین پر ہونے والی سرگرمی کا حصہ ہیں۔ لیکن حقیقت اور آپ کے درمیان ایک متحرک سکرین حائل ہے اورآپ اپنے کمرے میں بند محض ساکن تماش بین بنے بیٹھے ہیں۔ آپ لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں لیکن کچھ نیا نہیں سیکھتے۔یہی لطیف کیفیت کسی نشے کے بعد ہوتی ہے۔ ان عادتوں اور تجربوں کی مماثلت کے پیچھے ڈوپامائن کام کر رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آپ کی اس وقت گزاری (یا آپ کی محدود ادبی سرگرمیوں کا) کا سوشل میڈیا مالکان کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ جب آپ سوشل میڈیا پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں ۔آپ اس سرمایہ داری منڈی میں ایک صارف بن جاتے ہیں۔ آپ اس بازار میں آجاتے ہیں جہاں ہر نوع کی اجناس موجود ہیں۔ سب کی طرح آپ بھی کچھ اپ لوڈ، کچھ شیئر کرتے ہیں۔ اور آپ کے پاس بھی اوروں کی طرح اپنی تصاویر، روز مرّہ سرگرمیوں کا حال، کچھ چبائے ہوئے سطحی سے خیالات اور دن بھر ارد گرد سے سنے ہوئے سیاسی تجزیئے وغیرہ ہوتے ہیں جو آپ اپنی آواز، اپنی شناخت پیدا کرنے کے لیے، اپنے وجود کی تصدیق کے لیے اور دوسروں کی نظر میں نمایاں ہونے کے لیے شیئر کرتے ہیں۔ یہ سب اس ورچوئل منڈی کا مال بن جاتا ہے۔جسے آپ کے جاننے والے ، دوست احباب اور’ اجنبی دوست ‘ صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ دوسروں کا لایا ہوا ما ل/ مواد صرف کرتے ہیں۔ آپ جتنے کلک کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر اتنا ٹریفک بڑھتا ہے ۔ کروڑوں، اربوں کی تعداد میں جمع شدہ عالمی بھیڑکو سرمایہ داری کمپنیاں اشتہارات کی صورت میں اپنی مصنوعات متعارف کرواتی ہیں۔ ان اشتہاروں سے سوشل میڈیا مالکان پیسہ کماتے ہیں۔ آپ اپنی ساری نقل و حرکت، پسند ناپسند، اچھائی برائی، سوشل میڈیا پربراہ راست یا بلاواسطہ شیئر کرتے ہیں جسے کمپیوٹرز کے مصنوعی ذہانت پر مبنی حسابی کلیے (Algorithms) مسلسل جمع کرتے ہیں اور آپ کی نفسیات کا تجزیہ کرکے آپ کی دلچسپی کی خبریں اور صارفی مصنوعات کے اشتہارات آپ کے سامنے بار بار پیش کرتے ہیں۔یعنی ایک طرف توآپ صارف بن گئے۔ دوسرا آپ سوشل میڈیا پر جتتا زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان صارفی ویب سائٹس کے لیے مفت ملازمت کرتے ہیں۔اس سے بڑھ کر آپ ان ویب سائٹس کے استعمال کے عادی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اب وہاں آپ کی ایک شخصیت بن چکی ہے۔ آپ کے احباب ہیں، سننے ، پڑھنے والے ہیں ۔ اجنبی دوست آپ کے سٹیٹس لائک کرتے ہیں۔ کمنٹ کرتے ہیں۔ گو یا آپ ایک مشہور شخصیت celebrity) (بن جاتے ہیں۔حقیقی زندگی میں کوئی آپ کی رائے، آپ کی بات کو اہمیت نہ بھی دیتا ہو، یہاں آپ کو سو پچاس لائک مل جاتے ہیں اور آپ کی انا کی تسکین ہوتی ہے۔ یہی احساس آپ کا ڈوپامائن لیول بڑھاتا ہے جو نشے کی لت کی ایک صورت ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارا اردوشاعر ادیب ، دانش ور طبقہ ہمہ وقت فیس بک پر موجود رہتا ہے۔ یا تو وہ اس کے منفی اثرات سے غافل ہے یا اس لت کا شکار ہوچکا ہے جو اُسے سوائے وقتی لذت کے اور کچھ پیش نہیں کر رہی۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے میںیہی کہوں گا کہ سوچنے سمجھنے والے شاعروں ادیبوں کو سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔دوستوں سے رابطے ، ادبی سرگرمیوں کی معلومات اور سیاسی اور سماجی پروپیگنڈے کی حد تک تو درست ہے لیکن ہر روز اپنی صبحیں اور شامیں اس لت کی نذر کرنا مناسب نہیں۔ بڑا ادب پیدا کرنے کے لیے گہرا تفکر اور بے فکری درکارہوتی ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا کے شور سے دور خاموشی کو محسوس کرنا ضروری ہے تاکہ آپ اپنے باطن کی جنبشوں کو محسوس کر سکیں جو گہری اور خوبصورت ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ لالٹین

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply