• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان قومی زبان تحریک(جناب اظہار الحق کی توجہ کے لئے )۔۔فاطمہ قمر

پاکستان قومی زبان تحریک(جناب اظہار الحق کی توجہ کے لئے )۔۔فاطمہ قمر

پاکستان کے سینئر کالم نویس ادیب ریٹائرڈ بیوروکریٹ جناب اظہار الحق صاحب نفاذ اردو سے متعلق اپنے کالم ” تلخ نوائی” میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان میں نفاذ اردو کا عمل بتدریج کیا جائے۔مقابلے کے امتحان میں انگریزی کی طرح اردو کو بھی لازمی کیا جائے۔ اور تین سال کے بعد طلباء کو اختیار دیا جائے کہ وہ انگریزی یا اردو میں پرچہ حل کرے لیکن انگریزی کی بطور لازمی مضمون کی حیثیت برقرار رہے۔
سوال یہ ہے کہ جب انگریزوں نے ایک غلام ملک میں اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے اور غلاموں کی کھیپ تیار کرنے کے لئے ایک سمندر پار ملک کی اجنبی زبان کو یہاں اعلی مقابلے کی زبان بنایا تو کیا انہوں نے اس زبان کو مسلط کرتے وقت بھی اس تدریج کا خیال رکھا۔ بس انہوں نے تو راتوں رات فیصلہ کیا کہ ان کو اپنی حکومت چلانے کےلئے غلام چاہئیں تو انہوں نے برصغیر میں مقابلے کا امتحان ایک اجنبی زبان میں متعارف کرایا۔۔ اس امتحان کا بنیادی مقصد آپنے آقاؤں کے لئے غلاموں کی ایسی کھیپ تیار کرنا تھا۔ جو اپنے دماغ اور عقل کا استعمال کئے بغیر بلاچون و چراء ان کے حکم کی بجا آوری کرے۔

اب ہوناتو یہ چاہیے تھا۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی ایک آزاد مملکت کے تقاضوں اور امنگوں کے مطابق مقابلے کا امتحان فوری طور پر ” لارڈمیکالین “تعلیمی فلسفے کے مطابق راتوں رات اردو میں لینے کے احکامات اور اقدامات کیے جاتے۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔پاکستان کے تینوں دستور میں اردو کو قومی زبان قراردیا گیا۔ مگر افسوس ہمیشہ پاکستان کی اس آئینی شق کی سرکاری طور پر آئین شکنی ہوتی رہی۔یہ آئین شکنی یہاں تک بڑھی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2009 میں تمام سرکاری تعلیمی اداروں کو راتوں رات ایک سرکاری فرمان کے تحت انگریزی میڈیم کردیا۔ اس انگریزی میڈیم کرنے کے نتیجے میں جب پہلا نتیجہ پانچویں اور آٹھویں کاآیا تو بیس لاکھ میں سے اٹھارہ لاکھ بچے تعلیم کو خیرباد کہہ گئے۔یہ نونہالوں کا وہ قتل عام تھا۔جس کا کسی مہذب دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دستور کی اس خلاف ورزی کے ردعمل میں پاکستان قومی زبان تحریک نے جنم لیا۔ جس نے عدالتوں میں میڈیا پر سڑکوں’ عوام الناس میں ہر جگہ نفاذ اردو کا مقدمہ لڑا،اسے جیتا، اب اس کے نفاذ کے لئے بھر پور کوشش کررہے ہیں۔

ہم محترم اظہار الحق صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسے اور کتنے ترقی یافتہ خوشحال ممالک ہیں ، جہاں ایک غیر ملکی زبان اعلی ملازمت میں پہنچنے کا ذریعہ ہے؟
دوسرا سوال ان سے یہ ہے کہ پاکستان کی افسر شاہی کی واحد قابلیت غلط ملط انگریزی کے علاوہ کچھ اور ہو تو بتادیں۔ آپ ہی کے ساتھی بیوروکریٹ کہتے ہیں کہ ” دنیا پاکستان کی افسر شاہی کی انگریزی پر ہنستی ہے” ایسا ہی کچھ ملتا جلتا بیان قدرت اللہ شہاب کا بھی ہے۔۔جنہوں نے خود یہ تسلیم کیا کہ انگریزی سے میرا تعلق غلامی کا ہے۔

پاکستان کی انگریزی کی غلام بیورو کریسی دنیا کی نمبر ایک کام چور’ حیلہ ساز’ بد عنوان ‘ بد انتظام’ راشی’ اپنی اقدار کو روندنے والی’ جعلساز بیورو کریسی ہے۔ اگر ہماری بیورو کریسی بھی دنیا کی ترقی یافتہ ‘ تعلیم یافتہ خوشحال اقوام کی طرح اپنی قومی زبان میں مقابلے کا اعلیٰ امتحان دیتی تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ انتہائی قابل ‘ پاکستانی سوچ کی حامل اور مخلص بھی ہوتی۔ مگر افسوس اس نے انگریزی غلامی کو اپنے اوپر طاری کر کے لارڈ میکالے کے اس قول کی تصدیق کی ہے ” برصغیر جیسی تہذیب یافتہ زرخیز قوم کو پسماندہ کرنے کا صرف ایک ہی زریعہ ہے کہ ان پر ایک ایسی زبان لاد دی جائے جو رنگ ونسل میں تو ہندوستانی ہو مگر فکر میں برطانوی ہوگی”۔

ایک بات اور ہم کالم نویس کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں،ہم لوگ محض جذباتی ہی نہیں ہیں ہم لوگ عملی ہیں اور کام کرنے والے لوگ ہیں۔۔ پاکستان قومی زبان تحریک کے بانی سائنسدان اور ماہر تعلیم ہیں۔ ڈاکٹر شریف نظامی ‘ پروفیسر سلیم ہاشمی ‘ پروفیسر اشتیاق احمد ‘ ڈاکٹر مبین اختر ہیں۔ پروفیسر اشتیاق اپنے شوق اور جذبے سے بغیر سرکاری اعانت کے گریجویشن کی سطح تک اردو سائنس لغت آسان فہم الفاظ میں تیار کر چکے ہیں۔ اگر سرکار ہماری اعانت کرے تو ہم چند ماہ میں انگریزی ذریعہ تعلیم کی پیداکردہ ستر سال کی تباہیاں اور خامیاں دور کرسکتےہیں۔ کیونکہ قوموں کی تعمیر کے لئے وسائل سے زیادہ نیک جذبات اور خلوص کی ضرورت ہے اور اللہ کا شکر ہے پاکستان قومی زبان تحریک ان جذبوں سے سرشار اور مالا مال ہے۔

آخر میں محسن اردو :’ نفاذ اردو کیس کا تاریخ ساز فیصلہ سنانے والے درویش صفت ایچی سونین چیف جسٹس جواد ایس اعلی عدلیہ کے منصفین کی انگریز دانی کا پول کچھ ان الفاظ میں کھول رہے ہیں:
” میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان کے وکلاء اور جج دونوں ہی کو انگریزی نہیں آتی۔ پاکستان میں انگریزی کا ڈھونگ صرف اپنی نالائقی کو چھپانے کےلئے رچاہا جاتا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply