عرب بہار کا پس منظر

حال ہی میں سائنس، انجینئرنگ اور معاشیات جیسے مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان طلبہ کا دہشتگرد تنظیموں کا شکار ہو جانا بہت سے افراد کے لئے ایک جھٹکا ہے۔ داعش، جسے کچھ عرصہ پہلے تک ایک کالم نگار صاحب پیار سے اسلامی ریاست کہا کرتے تھے، میں کئی انجنیئر اور ڈاکٹر شامل ہیں۔ ہم آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ مسلمان معاشروں کی پسماندگی کی وجہ سائنس سے دوری ہے لیکن اس طرح ہم دوسرے علوم کی نسبت غفلت برتتے رہے ہیں۔ جہاں معاشرے کی مادی ضرورتوں کو سائنس نے پورا کیا ہے وہاں معاشرے کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخ کے صحیح شعور کی کمی نے ہم سے بہت غلطیاں کروائی ہیں۔ تاریخ کی تعلیم اور اس کا تجزیہ ہی ہمیں اپنےسے پہلے گزرنے والے انسانوں کے تجربات سے سیکھنے اور ان کی غلطیاں نہ دھرانے کے قابل بناتا ہے۔ فلسفے کی ایک تعریف یہ ہے کہ فلسفہ تاریخ کو سمجھنے کا علم ہے۔ تاریخ سے نابلد انسان دراصل ذہنی طور پر ما قبل از تاریخ زمانے میں رہتا ہے۔ ایسے انسان کیلئے جدید سائنس سے آشنائی صرف نئے اوزار اور نیا لباس فراہم کرنے کے کام آتی ہے۔ وہ وحشی انسانوں کی طرح لڑتا جھگڑتا، خوف اور لالچ کی دیواروں کے بیچ قید رہتا ہے۔
یہی وہ صورت حال ہے جو ہمارے جدید سائنس اور معاشیات جیسے علوم کی تعلیم میں مشغول طلبہ کو درپیش ہے۔ نہ اسکول کے زمانے میں انہیں تاریخ کا علم دیا جاتا ہے نہ میڈیا پر تاریخ کے حوالے سے کوئی سلسلہ میسر ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ تاریخ نظریات کی تجربہ گاہ ہونے کی وجہ سے اکثر غیر عملی اور حقیقت سے دور نظریات کے پجاریوں کی جانب سے لعنت ملامت کا شکار بھی ہے۔ مذہبی تنظیموں کے مبلغ تعلیمی اداروں میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے ان نظریات میں بہت کچھ خرچ کیا ہے،اپنا وقت، اپنی امیدیں، اپنا مستقبل۔ ان کے لئے تاریخ کا سامنا کرنا ایک نہایت خوفناک تجربہ ہے، ان کے خوابوں کا شیش محل پاش پاش ہو سکتا ہے۔ ان کے نظریات تاریخ کی تجربہ گاہ میں پہلے سے رد ہو چکے ہیں۔ وہ تاریخ کا علم حاصل کرنے سے ان حسین خوابوں کو کھو دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے جنہیں وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں میں اتنی جرات نہیں ہے کہ اتنے بڑے نفسیاتی بحران کا سامنا کر سکیں۔ یہ لوگ تاریخ کے علم اور تاریخ دانوں کے خلاف سائنس سے زیادہ مزاحمت کرتے ہیں۔ اگرچہ اپنے نظریات کیلئے چیدہ چیدہ مثالیں اور جواز بھی اسی تاریخ سے ہی ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ یہ لوگ تعلیمی اداروں میں حقائق کے منافی تبلیغ کر کے سائنس اور معاشیات جیسے مضامین کے طلبہ کو غیر حقیقی جنت کی طرف راغب کرتے ہیں جس کی حقیقت جیل کی کال کوٹھڑی میں جا کر ہی پوری طرح آشکار ہوتی ہے۔ ایسی ہی صورت حال کمیونسٹ طلبہ تنظیموں کو بھی درپیش ہے۔ ان کے لئے بھی تاریخ کا صرف وہی حصہ قابل قبول ہے جس کی تشریح طبقات کے اقتصادی تصادم کی روشنی میں ممکن ہو۔ تاریخ کے پاس ایسے لوگوں کیلئے ایک بہت بڑا کوڑے دان ہے۔ جو تاریخ کی درسگاہ میں نہیں آتے وہ لوگ ہمیشہ کے لئے ناکام اور گمنام ہو جاتے ہیں۔ ان کے نظریات انہی عملی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جن کی تاریخ کی تجربہ گاہ نے پیش گوئی کی تھی۔ ہمارے ملک میں قیمتی انسانی سرمائے کا اس کوڑے دان میں چلے جانا ایک المیہ ہے جس کی طرف آج نہیں تو کل توجہ کرنی پڑے گی۔
عرب بہار کا آغاز تیونس کے ایک جوان کی خود سوزی سے ہوا، لیکن اس کے بعد اس نے جو رخ اختیار کیا وہ دنیا کی حالیہ تاریخ نے متعین کیا۔ ماضی قریب میں مشرق وسطیٰ بہت سے بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ اس علاقے کا اہم ترین سیاسی مسئلہ یورپ میں نسلی و مذہبی نفرت کے شکار روسی نسل کے یہودیوں کا فلسطین کے قدیم مسلمان اور مسیحی باشندوں کو نکال کر اسرائیل کا قیام رہا ہے۔ مغرب میں زیادتیوں کے شکار یہودیوں نے خدا اور مذہب کو ترک کر کے اپنی مدد آپ کے تحت ایک یہودی جمہوریہ کے قیام کیلئے صیہونی تحریک چلائی تھی جس نے بہت محنت کے بعد یہ علاقہ حاصل کیا۔ جنگ عظیم دوم میں جب ہٹلر یہودیوں کو مار رہا تھا تو باقی ممالک نے اس بات پر کوئی زیادہ توجہ نہ دی، یہ مغرب میں یہودیوں کو کم تر انسان سمجھے جانے کے ایک بہت گہرے رجحان کی عکاسی تھی۔ یورپ کی تاریخ اور ادب میں یہودیوں سے نفرت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی روشن خیالی کی تحریک کے بڑے بڑے علمبرداروں کی تحریروں میں جہاں بڑے جدید اور روشن تصورات پائے جاتے ہیں وہیں یہودیوں سے تعصب جیسا کھلا تضاد بھی دکھائی دیتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے باشندوں کے بارے میں بھی ان حضرات کے خیالات دوہرے معیار پر مبنی رہے ہیں، جن کا احاطہ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ امن، مساوات اور انسان دوستی کی باتوں میں انسان سے مراد یورپی نسل کا انسان لیا جاتا رہا ہے۔ اس وجہ سے جہاں صیہونی تحریک کے یہودی جمہوریہ کے تصور کو یہودی عوام میں پذیرائی ملی وہیں اسرائیل کے قیام کے بعد یورپی ممالک میں اسرائیل کے تحفظ کو یہودیوں کے واپس نہ آنے کی ضمانت سمجھا گیا۔
جنگ عظیم دوم کے بعد ہولو کاسٹ میں ساٹھ لاکھ انسانوں کے قتل عام پر بہنے والے اکثر آنسو مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ جب یہ قتل عام ہو رہا تھا تو اس کو میڈیا میں اور جنگ کے فیصلوں میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا جنگ عظیم اول میں ترکی کی طرف سے پندرہ لاکھ آرمینی باشندوں کے قتل عام کے معاملے میں کیا گیا، کیونکہ وہ خون یورپی خون نہیں تھا۔ ہالوکاسٹ پر بعد میں بہنے والے آنسوؤں کا ایک مقصد اسرائیل کو عالمی قوانین سے استثنیٰ دینا بھی رہا ہے۔ اس استثنیٰ کی وجوہات تہہ در تہہ ہیں۔ ایک تو اسرائیل یہودیوں کے یورپ سے نکلنے اور واپس نہ آنے کو یقینی بناتا ہے۔ دوسرے یہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر موجود تجارتی راستوں کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے جو یورپ کی کاروباری ضرورت ہے۔ اس کی ایک اور وجہ مسیحی صیہونیت ہے۔ بہت سے مذہبی مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح اس وقت تک دوبارہ ظہور نہیں کریں گے جب تک سب یہودی فلسطین میں اکٹھے نہیں ہو جاتے۔ حضرت مسیح کے آنے پر ان یہودیوں کو عیسائیت اختیار کرنے اور موت میں سے ایک چیز کے انتخاب کا حق دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ سوچ بھی بنیادی طور پر یہودیوں کے بارے میں نفرت پر مبنی ہے لیکن نسل پرستی والے عنصر کی طرح اس عنصر نے بھی اسرائیل کےلئے مغربی معاشروں میں بہت حمایت پیدا کی ہے۔ اسرائیل کو حاصل تحفظ کی ایک وجہ اسلامو فوبیا بھی ہے۔ یورپ کا اسلام سے واسطہ بہت پرانا ہے اور ہر مذہبی اختلاف کی طرح مسلم مسیحی اختلاف نے بھی نفرت کو جنم دے رکھا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہو تو اس کو برا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان سب عوامل کو ذہن میں رکھے بغیر یا ان میں سے کسی ایک کا سادہ دلی یا جلد بازی کی وجہ سے انکار کر کے مشرق وسطیٰ کے حالات کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
شام اسرائیل میں فلسطینی مہاجرین کی واپسی اور اس زمین پر قدیم باشندوں اور یہودی مہاجرین کے درمیان انسانی برابری کی بنیاد پر نئے عمرانی معاہدے اور امن کے قیام کا وکیل رہا ہے۔ شام خود اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو کر جولان جیسے اہم پہاڑی سلسلے سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ شام میں بعث پارٹی کی حکومت ہے جو قومی اور سوشلسٹ رجحانات کی مالک ہے۔ شام اور عراق بہت پرانے پڑوسی ہیں اور کم و بیش ان کا جغرافیہ یہی رہا ہے۔ ان دونوں ممالک کے حالات ہمیشہ ایک دوسرے سے اثر لیتے رہے ہیں۔ عراق میں صدام کی حکومت بھی بعث پارٹی کی حکومت تھی، لیکن شام کی بعث پارٹی کے عراقی بعث پارٹی سے دشمنی کی حد تک اختلافات رہے ہیں۔ اس اختلاف کی بڑی وجہ صدام حسین کا رویہ اور ماضی ہے۔ شامی بعث پارٹی کے برعکس عراقی بعث پارٹی کی حکومت امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بنی تھی۔ عراق کی جنگ آزادی کا ہیرو جنرل قاسم روس نواز کمیونسٹ تھا۔ سی آئی اے نے 1963 میں ایک بغاوت کے ذریعے اسے قتل کروا کر جنرل عارف کو مسند اقتدار پر بٹھایا تھا۔ بعد کے سالوں میں عراق محلاتی سازشوں کی زد میں رہا اور آخر کار سن 1968 میں حکومت احمد حسن البکر کے ہاتھ میں آ گئی۔ صدام، جو بغاوت سے پہلے قاہرہ میں امریکیوں سے رابطے بنا چکا تھا، احمد حسن البکر کا دست راست تھا۔ 1976 میں صدام نے احمد حسن البکر کو بے دخل کر کے زمام حکومت خود سنبھال لی۔ تین سال بعد ایران سے امریکہ نواز شاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ خطے کی باقی امریکہ نواز حکومتوں کو بھی عوامی انقلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب امریکہ کے لئے اس لہر کو روکنا ضروری تھا اور اس کا حل ایک طرف اس انقلابی لہر کو سیاسی کے بجائے شیعہ سنی فرقہ واریت کا رنگ دینا تھا تو دوسری طرف امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عراقی بعث پارٹی کی ضرورت تھی۔ عراق نے امریکی آشیر باد سے ایران پر حملہ کر دیا۔ ادھر شام میں ہنری کسنجر کی شٹل ڈپلومیسی ناکام رہی تھی، حافظ الاسد فلسطینی مسلمانوں کو برابر کے شہری حقوق ملے بغیر اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے سے انکاری تھا۔ حافظ الاسد نے ایران میں امریکہ مخالف تبدیلی کی شکل میں ایک اہم اتحادی دیکھ لیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی بصیرت کی بدولت علاقے کے حالات کے آپس میں تعلق کا گہرا شعور رکھتا تھا۔ یہاں سے اسد خاندان اور صدام میں مخالفت کا آغاز ہوا۔
ادھر ایران جلد ہی جنگ میں غالب ہونے لگا۔ ایرانی حکومت نے عوام کو مسلح کر دیا تھا اور اب اس کا مقصد عراق میں کمبوڈیا کے پول پاٹ کے ساتھ ویتنام کی فوج کے سلوک کو دہرا کر عراق میں ایک امریکہ مخالف حکومت کا قیام تھا۔ صدام کو بچانے کیلئے امریکہ ، ہالینڈ اور جرمنی نے صدام کو کیمیائی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی منتقل کی۔ محاذ جنگ پر شکست سے بچنے کیلئے صدام نے 1983 سے 1988 تک متعدد مرتبہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جن کے خلاف عالمی اداروں میں کوئی رد عمل دیکھنے کو نہیں آیا۔ یہ ہتھیار بنیادی طور پر زہریلی گیس کے سلنڈر پر مشتمل ہوتے ہیں جو بھاری ہونے کی وجہ سے سطح زمین کے قریب رہتی ہے،متاثرہ مقام کے قریب سانس لینے والے افراد فوری موت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن وہ افراد جو تھوڑے دور ہوتے ہیں یا حملے کے بعد مردہ جسموں کو مخصوص دستانوں اور ماسک کے بغیر چھوتے ہیں، وہ معذور ہو جاتے ہیں۔ کیمیائی بم عام بارودی بم جیسا نہیں ہوتا جس کے ٹکڑے بکھرنے کے بعد خطرہ ٹل جائے ، بلکہ اس سے نکلنے والی کثیف گیس کا زہر کئی دنوں تک فضا میں رہتا ہے اور قریب و جوار کے لوگوں کے پھیپھڑے ناکارہ کرتا رہتا ہے۔ اگر کسی مقام پر کیمیائی حملے کی خبر آئے مگر وہاں سے لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا نہ کہا جائے اور متاثرین کو اٹھانے والے لوگوں نے حفاظتی لباس نہ پہنا ہو تو یہ خبر جعلی ہے اور ویڈیو اداکاری سے زیادہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ ایسی بے احتیاطی کے بعد ہزاروں اموات ہونا یقینی ہوتا ہے۔ صدام کے کیمیائی حملوں کی وجہ سے تقریباً پچاس ہزار ایرانی جان بحق اور ایک لاکھ کے قریب مختلف بیماریوں کا شکار ہوئے ۔ ایک ہزار کے لگ بھگ افراد شدید معذوری کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ہسپتال میں منتقل ہوئے ۔ صدام نے بعد میں حلبجہ میں کرد سنی عوام کی بغاوت کو کچلنے کے لئے بھی اسی گیس کو استعمال کیا جس کے نتیجے میں پانچ ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے اور وہ قصبہ کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگا۔
یہ سب جنونی اقدامات صدام حسین کی کوتاہ نظری اور تشدد پسند نفسیات کا اظہار تھے۔ ڈکٹیٹر ہمیشہ طاقتور کے سامنے بھیگی بلی اور کمزور پر شیر ہوتا ہے۔ ایران کے انقلاب کے اثرات کو صدام اور فرقہ پرست تنظیموں کی مدد سے روکنے کے بعد امریکہ نے علاقے کے جغرافیے کو بدلنے کے منصوبے تیار کرنے شروع کر دئیے تاکہ متعدد چھوٹے چھوٹے ممالک کی تشکیل سے علاقے کی صورت حال کو چند مضبوط حکومتوں کے بجائے متعدد کمزور حکومتوں کے حوالے کیا جا سکے۔ صدام نے ایران کے بعد امریکی آشیر باد سے کویت پر حملہ کر دیا۔ کویت کی حکومت بھی صدام کی طرح امریکہ نواز تھی۔ امریکہ نے صدام کو آسانی سے پھندے میں پھانس لیا تھا۔ میڈیا پر مشہور کیا گیا کہ عراقی فوجیوں نے کویت کے ایک ہسپتال میں آکسیجن پر لگے نومولود بچوں کو نکال پھینکا ہے۔ یہ بات امریکی حملے کو جواز بخشنے کے لئے کافی تھی۔ اس جھوٹی خبر کو میڈیا پر بیان کرنے کے لئے جس پندرہ سالہ لڑکی نيره الصباح کو عینی گواہ بنا کر پیش کیا گیا تھا وہ کئی سال بعد امریکہ میں موجود کویتی سفیر کی بیٹی نکلی۔ تمام عرب ممالک نے امریکی حملے کی حمایت کی۔ اس حملے میں امریکہ نے عراقی فوج کو کمزور کیا اور صدام کو مجبور کیا کہ وہ 1991 میں کیمیائی ہتھیار عالمی اداروں کے حوالے کرے۔ ظاہر ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا مقصد پورا ہو جانے کے بعد اس کے عراق کے پاس رہنے دینے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ ویتنام کی جنگ سے امریکی انتظامیہ نے یہ سبق سیکھا ہے کہ امریکی عوام ایسی جنگ کے خلاف ہوتی ہے جس میں امریکی جانوں کا بہت زیادہ ضیاع ہوتا ہو۔ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہونے کی صورت میں علاقے کا نقشہ بدلنے کے لئے کی جانی والی کسی بھی فوجی مداخلت کو بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا لہٰذا آٹھ سال قبل دی جانے والی ٹیکنالوجی کو ختم کرنے کی کوشش شروع کر دی گئی۔
عراق کی طرف سے کیمیائی ہتھیار عالمی اداروں کے حوالے کیے جانے اور ایران و کویت پر حملوں کے بعد عراقی فوجی قوت میں کمی کے باوجود امریکہ نے عراق میں فوجی مداخلت کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیا۔ عراق پر شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اس کی طاقت کا آخری قطرہ نچوڑا گیا۔ امریکی وزیر داخلہ میڈلین البرائٹ سے جب کہا گیا کہ آپ کی پابندیوں کی وجہ سے عراق میں لاکھوں بچے ادویات کی عدم دستیابی کا شکار ہو کر فوت ہو چکے ہیں تو انہوں نے اسے کسی عظیم مقصد کیلئے ادا ہونے والی جائز قیمت قرار دیا۔ سن 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے پہلے عرب لیگ کا ایک اجلاس ہوا جس کا مقصد عراق پر ممکنہ حملے کے حوالے سے فیصلے کرنا تھا۔ شامی صدر بشار الاسد صدام کے مخالف تھے لیکن ان کی تقریر عراق پر حملے کی مخالفت پر مبنی تھی۔ اس تقریر کا ایک اہم اقتباس درج ذیل ہے:
“آج ہم سب عراق کو درپیش خطرے کو دیکھ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم اس خطرے کی گہرائی کو پوری طرح بھانپ نہیں رہے۔ آج عراق میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے یہ 1917 کے اعلان اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کی طرح کا اہم واقعہ ہے۔ آج کا ہمارا مل بیٹھنا اس حوالے سے بہت خاص ہے، یہ وقت بہت خاص ہے اور غیر معمولی فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں بہادری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ذاتی میلانات اور اختلافات سے دور ہونا ہو گا۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ 1990 میں صدام کے کویت پر حملے کا تسلسل ہے۔ عرب ممالک کو ہدف بنانے والا وہ منصوبہ جاری و ساری ہے۔ آج کے حالات اور اس وقت کے حالات میں فرق یہ ہے کہ اس وقت کویت پر قبضہ کیا گیا تھا جبکہ آج عراق نے کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا ہے۔ میں صدام حسین کو ذاتی طور پر نہیں جانتا نہ کبھی اس سے میری بات ہوئی ہے۔ ماضی میں شام اور عراق کی حکومتوں میں بہت اختلاف بھی رہا ہے۔ یہ بتانا اس لیے ضروری ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں جو کچھ کہنے جا رہا ہوں یہ کسی ذاتی قربت کی وجہ سے ہے۔ ایسا نہیں ہے، میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ از روئے بصیرت کہہ رہا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسئلہ عراق کی حکومت یا کسی شخص کا نہیں ہے۔ شروع میں امریکیوں نے اعتراض کیا کہ عراقی حکومت نے ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی انسپکٹروں کو نکال دیا ہے، عراق نے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ان انسپکٹروں کی واپسی پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اس کے بعد بات سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ پر آ گئی۔ پھر کیمیائی ہتھیاروں کی تباہی کا راگ الاپا گیا (جو 1991 میں ہی تباہ کئے جا چکے تھے)۔ پھر جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات آ گئی۔ اور آج کل وہاں عراق پر حملے کے بعد تعمیر نو کے منصوبوں (سے مال بنانے) کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ سب چیزیں حقیقت پر پردہ ڈالنے کیلئے تیار کئے گئے نقاب ہیں۔ حقیقت میں یہ علاقے کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ اس علاقے کے جغرافیے کو اپنے مفادات کے تناظر میں بدلنے کا منصوبہ ہے۔ وہ ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے بارے میں بات کرنے کے بجائے عراق کی تعمیر نو کے بارے میں بحث کر رہے ہیں، منصوبہ موجودہ عراق کو تباہ کر کے دوبارہ اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرنا ہے۔ وہ ایسی قوم بنانا چاہتے ہیں جن کا جسم زندہ ہو مگر ان کا دماغ کسی اور کے ہاتھوں میں ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق کے ہتھیاروں سے عرب اقوام کو خطرہ ہے، اگر وہ ہمارے بارے میں اتنے ہی فکر مند ہیں تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے کم رفتار سے جاری سلسلہء قتل سے کیوں نہیں روکتے؟ وہ ہمارے ہتھیار اس لیے لینا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل ہمارے علاقے میں من مانی کر سکے۔ جہاں تک جمہوریت کی بات ہے تو ہمارے علاقے میں اگر کوئی شخص امریکی پالیسی سے اختلاف کرے تو وہ ڈکٹیٹر ہے لیکن اسرائیل اگر فلسطینیوں کے شہری و انسانی حقوق غصب کرے اور معمولی سے احتجاج پر ہزاروں کو جیل میں پھینک دے تو وہ پھر بھی جمہوری ملک ہے۔ ۔۔
عراق کے موجودہ حالات کا مسئلہ فلسطین سے گہرا تعلق ہے۔ اگر ہم یہاں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا اثر فلسطین پر بھی پڑے گا۔ یہ حملہ اسرئیلیوں کے جرائم کو پردہ فراہم کرے گا۔ انہیں یہ موقع ملے گا کہ وہ مزاحمت کی تحریکوں (حماس اور حزب الله) کا محاصرہ کر سکیں۔ یہ چیز آخر میں ان کے دیرینہ مقصد کی طرف بڑھے گی جو کہ ہم پر اسرائیلی منشا سے مطابقت رکھنے والا امن معاہدہ تھوپنا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ عراق کی (کمزور اور چھوٹے ٹکڑوں میں) تقسیم بھی ہو سکتا ہے۔ جغرافیے کی تبدیلی کے اس عمل کے دوران اسرائیل اپنے وجود کا جواز حاصل کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ جب اسرائیل کے نواح میں متعدد چھوٹے چھوٹے ممالک ہوں گے تو وہ بھی (اپنے نسلی امتیاز کی بنیاد پر قائم وجود کیلئے) سیاسی اور معاشرتی جواز حاصل کر لے گا۔ لہٰذا جب ہم عراق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں شام، فلسطین اور لبنان کے عوام کو بھی یاد رکھنا ہو گا جو اس سازش کا نشانہ بننے جا رہے ہیں۔ ہمیں فلسطینی عوام کے حقوق کے سلسلے میں منظور کی جانے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی پردے کے پیچھے جانے سے روکنا ہے۔ ہمیں مزاحمت کی قوتوں کو ا ن کی منشا کے مطابق مدد بھی فراہم کرنی ہے اور فلسطینی مہاجرین کی اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کو بھی نہیں بھولنا ہے۔ ہمیں اس موقف پر بھی باقی رہنا ہے کہ جب تک انصاف پر مبنی امن معاہدہ نہیں ہوتا، ہم اسرائیل سے کسی قسم کا سیاسی یا اقتصادی رابطہ نہیں رکھیں گے۔ ہمیں اس جنگ کو روکنا ہے اور ہم مل کر ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہماری آنے والی نسلیں یہ کہیں گی کہ جب عربوں پر حملہ ہوا تو انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آج کسی ایک قوم پر حملہ نہیں ہو رہا بلکہ یہ حملہ سب پر ہو رہا ہے”۔
بشار الاسد کی اس تقریر کی اہمیت اس وقت واضح ہوئی جب سن 2013 میں مغربی دنیا کی جانب سے عراق کو شیعہ، سنی اور کرد حصوں میں تقسیم کرنے اور شام کو علوی، دوروز، سنی، اور کرد حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگا۔ اسی دوران یو کرین کے مشرقی حصے میں روسی نسل کے باشندوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اسی یورپ اور امریکا نے کمال منافقت سے یوکرین کی حکومت کو یوکرین کے روسی باغیوں کو کچلنے کا اشارہ دے دیا۔ ان دنوں امریکہ پر سیاہ فام صدر اوبامہ کی حکومت تھی۔ عراق اور شام کی حکومت کی نسلی اور مذہبی وابستگیوں پر اعتراض کرنے والے حضرات نے اوبامہ کے اقلیتی نسل سے تعلق پر اعتراض نہیں کیا۔ عراق اور شام میں مختلف مذہب اور نسلوں کے لوگ صدیوں سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں اور وہاں حکمران کی نسلی یا مذہبی وابستگی کبھی سوالیہ نشان نہیں بنی ہے۔ یہ علاقے امریکہ کی تاریخ کے آغاز سے ہزاروں سال پہلے سے تہذیب اور ریاست کے تصور سے آشنا ہیں۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply