• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وزیراعظم عمران خان کو امریکہ میں ایک کامیاب جلسے کی مبارکباد ۔۔ عارف انیس

وزیراعظم عمران خان کو امریکہ میں ایک کامیاب جلسے کی مبارکباد ۔۔ عارف انیس

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ جون میں ورلڈ کپ کے دوران خان کی برطانیہ آمد کی بات طے ہوچکی تھی، اور لندن میں ویمبلے میں بیس ہزار کے آس پاس کا مجمع برپا کرنے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ میں بھی اس اہم تقریب کا حصہ تھا۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم پچیس ہزار تک بھی پہنچ سکتے ہیں، اگر سیاست کو تھوڑا سا ایک طرف رکھتے ہوئے، ہم خان کی انسپائریشنل کہانی کی بنیاد پر لوگوں کو اکٹھا کریں۔ ہم لوگ موٹیویشنل سپیکر ٹونی رابنز کو ہر سال لندن میں بلا کر 15 ہزار لوگ جمع کرلیتے ہیں تو توقع تھی کہ خان کی کہانی اس سے زیادہ سامعین کو متوجہ کرلے گی۔ اسی طرح کا ایک پروگرام خان کو 2016 میں بھی پیش کیا تھا، جس میں بھرپور دلچسپی ظاہر کی گئی تھی اور دن بھی طے ہوگیا تھا، مگر پھر وہ پاکستانی سیاست کی نظر ہوگیا۔

جون 2019 کا دورہ برطانیہ، سابق وزیر اعظم تھیریسا مے کے منظر عام سے ہٹنے کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا، کیونکہ برطانوی ایوانوں میں کھلبلی کا سماں تھا۔ ویمبلے میں خان کے لیے تقریب کا آئیڈیا، بھارتی وزیراعظم مودی کے استقبال کے حوالے سے تھا جب لگ بھگ ساٹھ ہزار بھارتی وہاں جمع ہوگئے تھے۔ سوچا گیا تھا کہ پاکستان سے باہر اتنی تعداد میں پاکستانیوں کا اکٹھا ہونا، بہت سوں کا لہو گرمائے گا اور برطانوی حکام پر بھی اس کا خاطر خواہ اثر ہوگا۔ خیر، ویمبلے میں نہ سہی، واشنگٹن کے کیپیٹل ایرینا میں ہونے والے اجتماع نے وہی کام کر دکھایا۔

میں نومبر 2015 میں ویمبلے میں وزیراعظم مودی کے جلسے میں موجود تھا۔ یہ تقریب چار گھنٹے سے زیادہ جاری رہی تھی اور خاص بات یہ تھی کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس کی خود میزبانی کی تھی۔ اوپننگ لائن کچھ اس طرح سے تھی ‘وزیراعظم مودی، کیا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر آپ کو نظر آرہا ہے؟ یہ وہ برٹش انڈین ہیں جو گریٹ بریٹن میں گریٹنس واپس لا رہے ہیں’۔

مودی کے آنے سے پہلے جلسے نے انڈین آئیڈل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ گانے، بجانے، رقص کرنے والے اور برطانیہ میں اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچنے والے بھارتی باری باری سٹیج پر آتے رہے اور بھارت کی عظمت کے گن گاتے رہے۔ خاص بات یہ تھی کی بھارتی جنتا پارٹی کی غالب موجودگی کے باوجود جلسے نے بی جے پی کے پارٹی جلسے کا رنگ نہ پکڑا۔ مودی نے بھی کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک فی البدیہہ گفتگو کی اور بھارت کے حوالے سے اپنے منشور اور ویژن کے متعلق آگاہ کیا۔

خان کے جلسے نے، پاکستان سے زیادہ پی ٹی آئی کے جلسے کارنگ اختیار کر لیا۔ گفتگو میں کافی کسر رہ گئی۔ امریکی پاکستانیوں نے وہاں بہت کمال دکھایا ہے، اس زاویے کو نظر انداز کردیا گیا۔ گفتگو میں بھی، گھر کے اندر کے پوتڑے باہر آکر دھوئے گئے۔ کسی حد تک ضرورت تھی اور کافی کچھ ضرورت سے زیادہ بھی تھا۔ گفتگو کا سب سے بہترین حصہ وہ تھا جس میں رائزنگ پاکستان کی بات کی گئی، میرٹ کی بات کی گئی اور سسٹم کے ذریعے پاکستان کو دوبارہ عظیم بنانے کی بات کی گئی۔ یہ تینوں باتیں، اوورسیز پاکستانیوں کی دکھتی رگیں ہیں اور وہاں موجود سامعین نے بھرپور والہانہ طریقے سے رسپانس بھی دیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسا والہانہ اور عاشقانہ مجمع خان کے علاوہ کوئی جمع نہیں کرسکتا تھا۔ وزیراعظم کی ہیٹرک کرنے والے صاحب، پانچ سو بندہ جمع ہونے کے خطرات سے ہی بے حال ہوجایا کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیپیٹل ایرینا کے جلسے کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ عمران خان کی امریکہ میں ‘ہوا’ بندھ گئی ہے۔ حال ہی میں وہاں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، وگرنہ ہم حسب معمول واشنگٹن میں لمبی تان کر سو رہے تھے۔ جلسے کی وجہ سے امریکی میڈیا سے کافی توجہ ملے گی اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں خان کی باڈی لینگویج اس اعتماد سے چھلک رہی ہوگی جو آج کے مجمع سے حاصل ہوئی ہے۔ مائی گارڈ اور مائی لارڈ کی وہاں موجودگی کی وجہ سے، ملاقات کے اختتام پر مزید اچھی خبروں کی توقع ہے کہ اس وقت ٹرمپ کی اگلی صدارت کا ٹرمپ کارڈ کا کچھ حصہ پاکستان کے ہاتھ میں ہے اور امریکی افغان قضیے کے حل اور ایران سے بڑھتی مخاصمت کی وجہ سے ہم پر ایک دفعہ پھر بہت مائل بہ کرم ہیں۔ واشنگٹن کی ہواؤں میں تھپکی لہرا رہی ہے۔ امید واثق ہے کہ ٹرمپ اور خان، نفسیاتی ڈھانچہ ملنے کی وجہ سے آپس میں خوب اچھا گزارہ کر لیں گے۔ اگر ایسا ہوگیا تو وطن عزیز میں ڈالروں کی پھر سے ریل پیل ہوجائے گی اور معیشت کی ٹیڑھی کمر پھر سے سیدھی ہو جائے گی، یعنی سب دی خیر، سب دا بھلا ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آرٹ آف ڈیل کے ماہر ٹرمپ پر خان ان سونگر کیسے مارتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply