مغرور۔۔۔روبینہ فیصل/افسانہ

بیس سال بعد جب وہ دوبارہ پیدا ہو ئی ،توڈھٹائی سے پھر اسی جھیل کے کنارے آبیٹھی ،جو محبت کی لاش سالم نگلنے کے بعدمردہ جھیل کے نام سے پکاری جانے لگی تھی،لڑکی کی بیس سال پہلے والی تمام حیرتیں اس کی آ نکھوں سے تو اتر چکی تھیں مگر کائی کی صورت ادھر اُدھر بکھری نظر آتی تھیں ۔ جھیل کنارے سب اکیلے اکیلے گھوم رہے تھے ،یوں لگتا تھا ان بیس سالوں میں کائنات کے تمام جوڑے بکھر چکے تھے۔
لڑکی کی نظر اس چھوٹے سے ریشمی کتے کے بچے پر پڑی ، جو کسی بھی انسان کو دیکھتے ہی اس کے قدموں میں لوٹنے لگتا تھا ، اور جتنا ممکن ہو سکتا تھا ،اتنا اچھل کر پاؤں ،ٹانگ کو چمٹتا   ا ور اگر کوئی اس پر جھک جا تا تو اس کے منہ پر بھی زبان پھیر دیتا تھا ۔گورے اس حرکت سے خوش ہو تے تھے اوروہ دونوں،لڑکی اور اس کا ساتھی، ہچکچاہٹ کے ساتھ اس کے سفید بالوں میں ہاتھ پھیرتے ، اور اپنے پاؤں اس سے چرانے کی کوشش کر تے تھے کیونکہ ان کے مذہب میں کتے کو ناپاک سمجھا جا تا ۔ ننھا کتا ان کی ہچکچا ہٹ کو اپنے سے اکتا ہٹ سمجھ کر اپنی شر مندگی مٹانے کو ادھر اُدھر دیکھنے لگتا یا پھر کسی گلہری کے پیچھے بھاگ جا تا تھا ، اور اس کی بوڑھی گوری مالکن ، جس نے میک اپ کی تہوں سے اپنی تنہائی ڈھکی ہو تی تھی ،ان سے ایکسیکوز کر کے اس کا پٹہ لئے اس کے پیچھے تیز تیز قدم اٹھاتی چلی جا تی تھی ۔اور وہ دونوں ،اس کی تنہائی پر افسوس کرتے ، مگریہ شکرکرتے کہ کم از کم وہ ننھا کتا اور بوڑھی عورت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ۔ لڑکی کی آنکھوں میں اس عورت کے لئے ہمدردی نظر آنے لگتی ۔ اور وہ دعا کرتی خدا کبھی اُس پر یہ وقت نہ لائے جب اسے کسی کتے کا پٹہ پکڑے یوں تنہا گھومنا پڑے اور اس کے ہاتھوں میں اس کے ساتھی کا ہاتھ نہ ہو ۔ پھر وہ اس ڈر کو مٹانے کے لئے اس سے لڑنے لگتی ، یا باتیں کر نے لگتی یا بلاوجہ قہقہے لگانے لگتی ۔۔۔
آج بیس سال بعد کتے کی مالکن کہیں نظر نہیں آرہی تھی، شائد مر گئی تھی۔ اس کے بغیر کتے کا بچہ اب بچہ نہیں ایک مکمل کتا لگ رہا تھا ، جو کسی کے پاؤں چاٹنے پیچھے پیچھے نہیں بھاگ رہا تھا، نہ ہی اس کی آنکھوں میں پیار دینے کی چمک تھی اور نہ لینے کا کوئی سوال ۔بلکہ اکیلاہی انتہائی اعتماد کے ساتھ سر اٹھائے گھوم رہا تھا اور رک رک کر سپاٹ آنکھوں سے جھیل کے ٹھہر ے ، سرد پانی کو گھور رہا تھا۔لڑکی نے سوچا:
“کیا اس کتے لاش بھی جھیل کے سردپانی نے نگل لی تھی ؟ کیا یہ بھی بیس سال بعد دوبارہ پیدا ہوا ہے ۔۔ اپنی جائے موت پر ۔۔”
یہ خیال یونہی نہیں آیا تھا بلکہ اس نے جھیل کی طرف آتے ہو ئے ، داخلے کی جگہ پر ایک وارننگ بورڈ پڑھ لیا تھا جس پر لکھا ہو ا تھا کہ :
“یہ جھیل ہر سال ایک انسان کھا جاتی ہے ، سیکورٹی کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو نے کی وجہ سے ، سب جانیں اپنی حفاظت خود کر یں ، نقصان کی صورت میں انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہو گی ۔ ”
لڑکی نے سوچا ، شائد ،یہ وارننگ ، اس کی موت کے بعد لگا ئی گئی تھی اور شائد اس کے ڈوبنے کے بعد ہی ، اس جھیل کو ہر سال ایک انسانی جسم کھانے کی عادت پڑ گئی ہو گی۔ ورنہ اگربیس سال پہلے ایسا ہی بورڈ لگ جا تا توشائد وہ اس وارننگ کو پڑھ کر اپنی جان بچا پا تی ۔ اور اس جھیل کے آسیب سے بچ جاتی ۔
پاس پڑے پتھروں کو ، ہاتھ میں پکڑا تو وہ بیس سال پہلے کی طرح گرم نہیں تھے ، سرد لہر ، ان کے اندر تک اتری ہو ئی تھی ، اور سب پتھروں نے آپس میں رنگ بدل لئے تھے ۔ سرخ پتھر، نیلے پڑ چکے تھے ، اور نیلے سیاہ ہو چکے تھے ، اور سیاہ میں سفید دھبے تھے اور سفید پتھروں میں سیاہ دھبے۔
بیس سال پہلے جب وہ ان پتھروں کو ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھتی تھی تو وہ مچل کر اس کی آنکھوں سے لگ کر انہیں چومنے کی کوشش کرتے تھے ۔اور اس کے ہاتھ خود بخود مشینی انداز سے آنکھوں تک اٹھ آتے تھے ، اور پتھر ان آنکھوں کو بوسہ دے کر چمک اٹھتے تھے ، اوریوں لگتا تھا ،جیسے دونوں طرف کی عبادت مکمل ہو گئی ہو ۔ وہ،عقیدت سے بھرے ، ان پتھروں کو واپس کنارے پر رکھتی تو ان کا چمکتا ہوا عکس جھیل کے پانی کو بھی روشن کر دیتا تھا ۔مگر اب دھبوں نے وہ روشنی نگل لی تھی ، جیسے اس کا جسم روح سمیت جھیل نے نگل لیا تھا ۔ پانی اور پتھر سب پر سیاہی پھیلی ہو ئی تھی ۔۔۔ گو کہ سورج سوا نیزے پر تھا ، مگر جھیل کے اندر اندھیرا ہی اندھیر اتھا ۔
پاس سے بھاگتے ، قدموں کی جاگنگ کر تی شناسا سی آواز ابھری تو اس نے مڑ کر ، سنہرے بالوں والی لڑکی کو دیکھا ، جس نے بیس سال بعد بھی اسی طرح اپنے بال باندھ رکھے تھے ، اور وہ اسی طرح س کے بھاگنے کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں جھول رہے تھے ، مگر آج ربن سرخ نہیں ،سیاہ تھا ،اور وہ لڑکی ایک مکمل عورت بن چکی تھی ۔ بیس سال پہلے اس کے خواب اس کے ساتھ ساتھ بھاگتے تھے ، اور وہ دونوں اس کے خوابوں کے پورا ہو نے کے غیر یقینی پن سے گھبرا اٹھتے تھے ۔ اورشکرانے کے طور پر ایک دوسرے کا ہاتھ ، دباتے تھے اور ان کی آنکھیں کہتی تھیں،شکر ہے ان دیکھے شخص کے خوابوں کے ساتھ بھاگنے کی بجائے ، وہ ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ رفتار آہستہ ہی سہی مگر ایک دوسرے کاساتھ تو ہے ۔۔۔۔
اب وہ سنہرے بالوں والی لڑکی بھاگ تو رہی تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے کتے کے بچے کی بوڑھی گوری مالکن کی طرح ، اس کے خواب بھی مر چکے ہیں ۔ اسی لئے وہ بھی سپاٹ آنکھوں کے ساتھ، بڑے اعتماد سے سر اٹھائے ، جھیل کے پانی کو گھور تی تھی ۔۔۔اس کے جوگرز نیچے سے پھٹ چکے تھے اور اس کی کمر سے لٹکتی پا نی کی بوتل بالکل خالی تھی ، نہ جانے کب سے اس لڑکی نے اس میں پا نی بھرنا چھوڑ دیا تھا ، کیونکہ پلاسٹک کی اس شفاف بوتل میں ، بیس سالوں کی جمی سبز کائی ، دور سے نظر آرہی تھی ۔سورج اس کے سنہری بالوں تک آتاضرور تھا ، مگر انہیں چمک دینے میں ناکام ہو کر ، سسکتا ہوا جھیل میں اتر جا تا تھا ۔
تو کیاکبھی اس جھیل سے ، سورج کی لاش بھی بر آمد ،کر لی جائے گی ؟
بیس سال بعد دوبارہ پیدا ہو نے والے لڑکی کا، جھیل کنارے کا سب سے دل شکن منظر وہ تھا جب اس کی نظر حنوط کی ہو ئی اس مر غابی پر پڑی ،جو اپنے بچوں کو پروں میں چھپا کر بیٹھی ہو تی تھی ، اور نر ساتھی سینہ پھلائے ، گردن اکڑائے ، منہ دوسری طرف کئے ، بے پرواہی کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا اور وہ دونوں واک کرتے کرتے رک جایا کرتے تھے اور اس پورے گھریلو منظر کے سامنے ایک دوسرے کی تصویریں لیا کرتے تھے ۔ وہ کہتی ،”دیکھو دیکھو اس کو اپنی مردانگی پر کیسا غرور ہے ؟”
وہ کہتا تھا:” نہیں اسے اپنی مادہ کی محبت اور وفا پر غرور ہے ۔۔۔”
اور وہ پو چھتی” کیا اس نر کو اپنی وفا پر غرور نہیں ۔۔۔۔ ؟”
وہ کہتا : “چپ کر کے انہیں دیکھو ، تم بہت سوچتی اور اس سے بھی زیا دہ بولتی ہو ۔۔۔۔”
اور وہ بس چپ چاپ سی انہیں دیکھنے لگتی ، مگر سوچنے سے باز نہ آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بیس سال پہلے ا سی لڑکی کی لاش ، اس جھیل میں پا ئی گئی تھی ، تو سنا ہے کہ اس کا ساتھی کسی اور کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اوربہت سے تماش بینوں کے ساتھ سیاہ لباس پہنے ، افسوس کر نے والوں میں شامل تھا اور ساتھ لائی نئی تازی لڑکی کا ہاتھ کئی دفعہ دہرائے گئے، نہ چھوڑنے والے وعدے اور مشینی چاہت کے ساتھ دبا رہا تھا ، دیکھنے والوں نے یہ منظر اسی حیرت اور خاموشی کے ساتھ دیکھا تھا جیسے آج بیس سال بعد وہ لڑکی تنہا کتے ، تنہا لڑکی ، اور حنوط کی گئی مرغابی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔
مگر حنوط کی گئی مرغابی کی کہانی یہاں ختم نہیں ہو تی ۔۔
بیس سال پہلے ،اِسی جگہ جہاں وہ اپنے بچوں کو پروں کے نیچے دبائے بیٹھی رہتی تھی ، وہیں پر اس کی حنوط شدہ لاش تو نظر آرہی تھی ، مگر دور دور تک اس کا ایک بھی بچہ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔لڑکی نے سوچا جب سنہرے بالوں والی لڑکی کے خواب ،ننھے کتے کی مالکن اور مرغابی کے بچے ، سب ہی ساتھ چھوڑ گئے تو ، اس حنوط کی ہوئی مرغابی کا مغرور اور نک چڑھا ، نر بھی کہیں غائب ہو گیا ہو گا، کسی اور مادہ کے ساتھ ، وہی وعدے دہرا رہاہو گا۔یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں میں پتھروں کے دھبوں کی طرح بار بار دہرائے گئے وعدوں کی تکلیف پھیل گئی ، اور اسے تھوری دیر کے لئے نظر آنا بند ہو گیا ۔ کچھ دیر بعد اس کی بینائی لوٹی تو اس کی نظروں کے سامنے وہ درخت آ کھڑا ہوا ، جس پر لڑکی اور اس کے ساتھی نے ایک دوسرے کا نام کھودا تھا ، گو کہ اس کی میت پر وہ کسی اور کا ہاتھ تھامے افسوس کر نے والوں میں شامل تھا ، مگر حیرت ہے کہ کسی کی نظر ان ساتھ ساتھ لکھے ہو ئے ان کے ناموں پر نہیں پڑی تھی ، اور شائد آج تک کھلے آسمان تلے ، اس بدحال شجر کے بے لباس تنے پر ان کے اکٹھے لکھے گئے ناموں نے عوام سے پردہ کیئے رکھا تھا، نہ صرف یہ بلکہ وہاں ان کے ناموں کے ساتھ ، محبت کر نے والوں کے بے شمار نام کھد چکے تھے ۔ اورتنے پر کوئی ایک بھی جگہ نہ بچی تھی جہاں کوئی نام نہ لکھا ہو ، وہ درخت ،ان کی مری ہو ئی محبت کا مزار بنا کھڑا تھا ، اور وہ بے حسی سے اسے تکے جا رہی تھی ، اوربیس سال کے بعد سپاٹ انداز سے سوچ رہی تھی ،” کیا مری ہوئی محبتیں ، صرف ان کھدے ناموں میں زندہ رہ سکتی ہیں ؟”
جواب ملا : “نہیں ، دیکھا نہیں پو را منظر تنہا ہے ۔ یہاں ایک بھی جوڑا نظر نہیں آرہا ، سب اکیلے اکیلے گھوم رہے ہیں ۔ جو دیکھنے میں جوڑے لگ رہے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہیں ۔”
ان بیس سالوں میں سب جوڑے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ، اس جھیل پر آسیب کا سایہ صاف دیکھا جا سکتا تھا ۔وہ مایوس ہو کر لوٹنے لگی تو اس کے سامنے نر مر غابی آکھڑا ہوا ۔وہی شانِ بے نیازی ، وہی غرور ۔۔ بدلا تھا توصرف بالوں کا رنگ ، جہاں اب سفیدی کی جگہ پیلاہٹ جھلک رہی تھی ۔
ہمم ۔۔۔۔اس نے سوچا تو بڑھا پے کی وجہ سے یہیں پڑا ہے ، ورنہ بدلنے کے موسم میں ، سب سے پہلے تو اسی بدمزاج کو بدلنا تھا ۔۔اور ہجرت کر جانی تھی ۔۔
وہ اسے نظر بھر کر دیکھنے لگی ، اور دیکھتے دیکھتے اسے احساس ہوا کہ پو رے جھیل کے منظر میں ایک وہ ہی ہے جو تنہا نہیں ہے ، وہی مغرور نک چڑا نر مر غابی ۔۔۔جو حنوط شدہ مادہ کی چونچ پر جا کر اپنی چونچ رکھ دیتا ہے ۔ اس کے پو رے بدن کو چومتا ہے او ر پھر ا سکی آنکھوں پر اپنے پنجے رکھ دیتا ہے جیسے جھیل کے آسیب سے ، اس کے بے وفائی کے مناظر سے ، اپنی مادہ کو بچا نا چاہتا ہو ، اور اس کے ایسا کرتے ہی حنوط کی گئی مر غابی کی آنکھیں غرور سے دمکنے لگتی ہیں ، اپنے نر کی وفا اور محبت کے غرور سے ۔ اور نر کی آنکھوں میں اپنی مادہ کی محبت پر یقین کا غرور اسی طرح ہے ، جیسے جانتا ہو کہ وہ کہیں بھی ہجرت کر جائے ، اسکی مادہ جیسی محبت اور وفا ، دنیا میں کہیں اور دستیاب نہیں ۔۔۔۔
لڑکی اس کی پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے ، آج وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہے ، اس سے پو چھتی ہے،تم آج بھی یہیں ہو ۔۔ جب سب مناظر بدل گئے ، جب سب کوچ کر نے والے چلے گئے ۔۔تم اب بھی یہیں ہو ؟
وہ مڑ کر لڑکی کو کہتا ہے:” موسم جتنے بھی بدل جائیں ، وہ یہیں مجاور بنا بیٹھا رہے گا ۔ پیٹ کی خاطر ہجرت کی جاسکتی ہے ، گرم موسم کی خاطر ہجرت کی جاسکتی ہے ، مگر اس کی ضرورت ، محبت ہے جس کی خاطر وہ کبھی بھی ہجرت نہیں کر ے گا ۔جس جھیل کے اندر محبتوں کی لاشیں ملی تھیں ، اسی جھیل کنارے میری مادہ کی وفا حنوط ہے ، انتظامیہ نے اسے جھیل کی attractionبنا دیا ہے ۔ اورجسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں میں اُس وفا کی مورتی کو یہاں مردہ جھیل کے کنارے چھوڑ کر ، محبت کی تلا ش میں ہجرت کر نے کی حماقت نہیں کر سکتا ۔
میں یہاں اکیلا ہی جوڑا بنائے بیٹھا رہوں گا ، اور مرنے کے بعد یہیں حنوط کر دیا جاؤں گا ۔۔ کیونکہ بدلنے کے موسم میں کوئی مرغابی ہی ڈٹ جائے تو ہجرتوں اور بے وفائیوں کے سلسلے رک سکتے ہیں ، یہ انقلاب تم انسانوں کے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔
“دھت تیرے کی ۔۔ مغرور کہیں کا ۔۔۔۔۔۔۔۔”لڑکی بیس سال بعد اور اس کے بھی بیس سال بعد اتنا کھل کر ہنسی ۔۔
خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مغرور۔۔۔روبینہ فیصل/افسانہ

Leave a Reply to روبینہ فیصل Cancel reply