پنجاب یونیورسٹی سے ایم فِل عربی کا کورس ورک مکمل ہوا، تو تحقیقی مقالے کے موضوع کے لیے اپنے نگران مقالہ استاذ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد ندیم صاحب سے مشاورت کی۔ میں نے اپنی دلچسپی ادب میں ظاہر کی تو استاذ محترم نے مجھ سے مستنصر حسین تارڑ صاحب کے بارے میں پوچھا کہ کیا ان کی تصانیف میں آپ کو عربی آثار ملتے ہیں۔
میرے ذہن میں فوراً تارڑ صاحب کے سفرنامے آئے جو انہوں نے عرب ممالک سیاحت کے حوالے سے تحریر کیے، میں نے جواب دیا کہ جی سر ! تارڑ صاحب کے سفرناموں میں ہمیں عربی اثرات مل جائیں گے۔ موضوع چونکہ دل کو لگا تو یہی ارادہ بنا کہ اردو کے شاندار ادیب کو دنیائے عرب میں متعارف کروانا ہے۔
اردو میں تو تارڑ صاحب پر درجنوں مقالہ جات لکھے جا چکے، ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ ترکی زبان میں بھی لکھا جا رہا ہے جس میں یشار کمال اور مستنصر حسین تارڑ کے ناولوں کے تقابلی جائزے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان دنوں مستنصر حسین تارڑ کے فن پر جامعہ ازہر میں تحقیقی کام ہو رہا ہے۔
اُردو ادب کے قارئین کے لیے مستنصر حسین تارڑ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ،اس لیے ان کے فن کے حوالے سے عربی میں جو پہلا تحقیقی مقالہ لکھا گیا اس کا تعارف پیش خدمت ہے۔ مقالے کا عنوان “التأثير العربي في أدب الرحلات لمستنصر حسين تارر” ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ”مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں عربی اثرات” ہو گا۔
217 صفحات پہ محیط یہ مقالہ چار ابواب پر مشتمل ہے، پہلے اور تیسرے باب کی تین تین فصلیں ہیں جبکہ دوسرا اور چوتھا باب دو دو فصلوں پر مشتمل ہیں۔
ہر باب کو علیحدہ علیحدہ ترتیب سے ایک نظر دیکھتے ہیں۔
پہلے باب کی تین فصلوں میں سے پہلی فصل میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کی ذاتی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوسری فصل میں آپ کی ادبی خدمات کا عمومی جائزہ لیا گیا ہے۔ تیسری فصل میں خاص طور پر مستنصر حسین تارڑ کے تصنیف کردہ سفرناموں کا تعارف کروایا گیا ہے۔
دوسرے باب کی پہلی فصل میں عربی ادب کے نثری اقتباسات کی تخریج کی گئی ہے جن کا تذکرہ تارڑ صاحب کے سفرناموں میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر “اندلس میں اجنبی” سفرنامے میں طارق بن زیاد کا قصہ ہے، اندلس کی خواتین کے اوصاف کا تذکرہ ہے، اسی طرح “خانہ بدوش” میں حضرت خالد بن ولید کی شہادت کے واقعے کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے واقعے کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اسی طرح تارڑ صاحب کے سفرناموں”منہ ول کعبے شریف” اور “غار حرا میں ایک رات” کے اندر جابجا قرآن و احادیث و تاریخی روایات کا تذکرہ ملتا ہے۔ چونکہ یہ تمام مصادر عربی میں ہیں اس لیے ان کی تحقیق و تخریج کی گئی۔
دوسرے باب کی دوسری فصل میں عربی شاعری کی تخریج کی گئی ہے جس کو تارڑ صاحب نے اپنے سفرناموں میں نقل کیا ہے۔ مثال کے طور پر “منہ ول کعبے شریف” کے اندر “طلع البدر علینا” قصیدہ کا ذکر ہے۔ یہ قصیدہ انصاری لڑکیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر پڑھا تھا۔ اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر کی گئی شاعری اس سفرنامے میں شامل ہے۔ “اندلس میں اجنبی” میں معتمد کی شاعری کو نقل کیا گیا ہے۔ ابن حسان کی غرناطہ کے حسن کے بارے میں کی گئی شاعری بھی شامل ہے۔ “خانہ بدوش” میں نزار قبانی کے اشعار شامل ہیں جس میں اس نے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے۔ ایسے ہی “الاسکا ہائی وے” جیسے جدید سفرنامے میں عربی کے قدیم فصیح و بلیغ شاعر امرء القیس کے غزلیہ اشعار کا برمحل استعمال کیا ہے۔
تیسرے باب کی پہلی فصل میں ان عربی مصادر کی تخریج و تحقیق کی گئی ہے جن کا ذکر مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں کیا گیا ہے۔ سیرت ابن ہشام ، سیرت ابن اسحاق ، تاریخ دمشق اور ان کے علاوہ کتابیں شامل ہیں۔
دوسری فصل میں ان عربی اعلام کی تخریج و تحقیق کی گئی ہے جن کا ذکر کسی بھی حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں آیا ہے۔ ان شخصیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے لے کر خلیل جبران اور محمود درویش شامل ہیں۔ “خانہ بدوش” میں اس واقعے کی تفصیل موجود ہے کہ تارڑ صاحب محمود درویش کو ملنے گئے لیکن ملاقات نہ ہو سکی۔
تیسری فصل میں ان عرب مقامات کی تخریج و تحقیق کی گئی ہے جنہیں تارڑ صاحب نے اپنے سفرناموں میں تحریر کیا ہے ۔ ان میں حجاز ، طائف، دمشق، اندلس، تبوک، حنین ، لبنان ، جبل شیخ، بیت المقدس وغیرہ شامل ہیں۔
چوتھے اور آخری باب کی پہلی فصل میں ان عربی مفردات کی تخریج و وضاحت کی گئی ہے جن کا ذکر تارڑ صاحب کے سفرناموں میں ملتا ہے۔ مثلاً “خانہ بدوش” میں ایک عرب سے پانی طلب کرتے ہوئے “عطش” سے اپنے پیاسے ہونے کا اظہار کیا۔ مزید مثالوں میں فنجان (پیالہ) ، میناء (بندرگاہ) مرحبا (خوش آمدید) الحماسة (بہادری) ، بئر (کنواں) سیارة، (گاڑی، کار) اور اسی طرح درجنوں مفردات شامل ہیں۔
دوسری فصل میں عربی تراکیب کی تحقیق کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر باب جبریل، روضہ رسول ، بئر غرس، غار حرا ، جبل نور ، اصحاب کہف ، صراط مستقیم ، ام الکتاب ، سبحان اللہ ، جنة العریف، کن فیکون ، اھرام مصر اور ایسی مزید تراکیب شامل ہیں۔
مقالے کے اختتام پہ جو نتیجہ میں نے اخذ کیا وہ یہ ہے کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے سفرناموں میں عربی اثرات کے حوالے سے بلا مبالغہ اتنا مواد موجود ہے کہ بلاشبہ اس موضوع پر عربی میں پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ ایم فل میں ہونے کے باوجود ایسی عظیم شخصیت کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے اس ذمہ داری سے حتی المقدور عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی ہے۔
مقالے کی تکمیل پہ تکیہ تارڑ حاضری دی اور تارڑ صاحب کی خدمت میں مقالے کی ایک کاپی پیش کی۔ مستنصر حسین تارڑ میرے پسندیدہ ادیب ہیں جن سے ملاقات ایک اعزاز اور ان کے فن پر تحقیق کرنا خوش بختی ہے۔ تارڑ صاحب کے ساٹھ سالہ تحریری سفر کے لیے میری یہ ادنی ٰ سی تحقیقی کاوش چھوٹا سا خراج عقیدت ہے۔ تارڑ صاحب نے مقالہ دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا تو میری محنت وصول ہو گئی۔ فرما رہے تھے کہ مجھے کمال فن ایوارڈ دیا جا رہا تھا جسے وصول کرنے سے میں نے انکار کر دیا، آپ نے جو کام کیا ہے، یہ میرے لیے اصل ایوارڈ ہے۔ ساتھ یہ کہا کہ میری کچھ کتابوں کے اسپیشل ایڈیشن آئے ہیں، میں آپ کو ان میں سے کوئی کتاب بطور تحفہ دوں گا ، چنانچہ اگلی صبح تارڑ صاحب نے اپنی دو کتابیں عنایت کیں اور مزید مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے ان کتابوں پر میری حوصلہ افزائی کے لیے کچھ کلمات لکھے۔ تارڑ صاحب کے تحریر کیے گئے الفاظ ہی میری ڈگری اور سند ہیں۔ تارڑ صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گو ہوں کہ رب تعالیٰ ان کو صحت مندانہ طویل عمر عطا کرے اور وہ اسی طرح اپنے قلم کے جادو سے اپنے چاہنے والوں کو مسحور کرتے رہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں