• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسلام آباد میں تعینات امریکی سفارتی عملہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

اسلام آباد میں تعینات امریکی سفارتی عملہ۔۔۔طاہر یاسین طاہر

فاتح قوموں کا رویہ بڑا ہی جارحانہ ہوتا ہے۔جب جنگیں گھوڑوں،ہاتھیوں اور پیادہ فوجوں کی مدد لڑی جاتی تھیں، اس وقت فاتحین جس شہر میں داخل ہوتے اس میں لوٹ مار، قتل و غارت گری کرنے کے بعد شہر کوآگ لگا دیتے۔سائنسی ترقی کی بدولت جنگی سامان اور جنگ کے طریقہ ہائے کار تبدیل ہو گئے۔رویہ مگر وہی ہے۔جارحیت چھلک رہی ہوتی ہے۔سفارتی استثنیٰ حوصلوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔کیا امریکہ فاتح عالم ہے؟کیا پاکستان امریکی کالونی ہے؟کیا جدید تہذیب یا عالمی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ امریکی سفارت کار جب چاہیں ایک آزاد ملک کے شہریوں کو اپنی گاڑیوں تلے روندتے چلے جائیں؟پوری دنیا پر انسانی حقوق کے نام پر چڑھائی کرنے والے امریکہ کے سفارت کار جب لاہور یا اسلام آباد کی سڑکوں پر پاکستانی شہریوں کو اپنی گاڑی کی ٹکر مارتے ہیں تو ،اس “دانستہ واردات” کے بعد خود کو گاڑی میں بند کر لیتے ہیں ۔طاقت کا یہ اظہار کسی بھی طرح انسانی تہذیب کے اعلیٰ رویوں کا عکاس نہیں۔
عہد قدیم میں بھی ایک ریاست دوسری ریاست کے سفیروں کا احترام کیا کرتی۔لیکن اس احترام کا قطعاًیہ مطلب نہیں ہوتاکہ سفیروں کا سفارتی استثنیٰ انھیں قتل ِ عام کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ ملکوں کے تعلقات باہمی مفادات پہ ہوتے ہیں۔دوست ممالک، جو کسی بھی طرح ،اور کہیں بھی ایک دوسرے کے اتحادی ہوں، وہ ایک دوسرے کے سفرا کا زیادہ لحاظ اور احترام کرتے ہیں۔ امریکہ کا رویہ مگر پاکستان کے باب میں ہمیشہ معاندانہ رہا۔ اگرچہ دونوں ملک ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔طاقت وروں کے سر میں ہمیشہ سودا سمایا رہتا ہے۔صبحدم اس خبر نے پھر سے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر کار امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کو پاکستان میں موٹر سائیکل سواروں کو کچلنے کا شوق کیوں ہے؟انھیں سرِ راہ چلتے لوگوں سے خطرہ کیا ہے؟ کیا اسلام آباد میں تعینات امریکی سفارت کار کسی نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہو چکے ہیں؟یا یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں پاکستانی شہریوں کا قتل کر کے پاکستانیوں کی غیرت ِ قومی کا اندازہ لگایا جاتا رہے۔کیا ہر موٹر سائیکل سوار کو امریکی سفارت کار” دہشت گر”د سمجھنے لگے ہیں؟ کیا ہر موٹر سائیکل سوار امریکیوں کو سراغرساں لگتا ہے؟کیا پاکستانی ٹریفک قوانین کی پابندی سے بھی امریکی سفارت کار مستثنیٰ ہیں؟
اسلام آبادمیں اتوار اور پیر کی درمیانی شب امریکی سفارت خانے چاڈ ریکس نامی اہلکار نے موٹرسائیکل پر سوار دو افراد کو ٹکر ماری جنھیں زخمی حالت میں پمز ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ تا دم ِ تحریر دونوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔واقعہ اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ کی حدود میں پیش آیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ امریکی اہلکار تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہے تھے جس کے باعث حادثہ پیش آیا جبکہ وہ گاڑی سے اترنے سے انکار کرر ہے تھے۔مگر بعد ازا ں پولیس نے سفارت کار کی گاڑی اور سفارت کار کو تھانے منتقل کردیا۔ اسلام آباد پولیس حکام نے میڈیا کو بتایا کہ اس واقعے پرٹریفک پولیس کی رپورٹ ملنے کے بعد ہی مزید کاروائی ہوگی۔امریکی سفارتی اہلکار کی جانب سے پاکستانی شہری کو ٹکر مارنے کا رواں ماہ میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔قبل ازیں 7 اپریل کو اسلام آباد ہی میں تھانہ کوہسار کے علاقے میں امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف ایمانوئیل نے ٹریفک اشارہ توڑ کر ایک پاکستانی موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری تھی،جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ اس کا ساتھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔ امریکی کرنل کی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونےوالے نوجوان عتیق بیگ کے والد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کرنل جوزف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست دائر کی ہوئی تھی۔اسلام آْباد ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت جاری ہے جبکہ وزارتِ داخلہ نے عدالت کو بتایا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار کو کچلنے کے واقعے میں ملوث امریکی سفارتکار کرنل جوزف امینوئل ہال کو بلیک لسٹ کر دیا ہے جس کے بعد وہ متعلقہ حکام یا عدالت کی اجازت کے بعد ہی ملک چھوڑ سکتے ہیں۔یاد رہے پاکستانی حکام نے امریکی سفارت کار کی گاڑی سے ٹکرانے کے نتیجے میں طالب علم کی ہلاکت کے واقعے پر امریکی سفیر دفترِ خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔اس سے قبل 2011 میں ایک امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جبکہ بعد میں انھیں لینے کے لیے آنے والی گاڑی نے سڑک کی رانگ سائیڈ پر چلتے ہوئے ایک شخص کو ٹکر مار کر ہلاک کر دیا تھا۔مگر بعد ازاں معاملات کو طے کر کے ریمنڈ ڈیوس کو رہائی دلائی گئی تھی۔
کیا اب بھی کرنل جوزف امینوئل اور امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری کا انجام ریمنڈ ڈیوس جیسا ہی ہو گا؟یقیناً ایسا ہی ہو گا،کیونکہ ایسے واقعات میں بالعموم سفارت کاروں کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ امریکیوں کے حوالے سے پاکستانی عوام زیادہ حساس بھی ہیں اور ایسے واقعات پہ شدید عوامی ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔لیکن بین الاقوامی معاملات میں حکومتوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔مذکورہ واقعات کا انجام بھی ریمنڈ ڈیوس جیسا ہی ہوگا۔لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ امریکیوں کے سامنے صدائے احتجاج بھی نہ بلند کی جائے۔اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔ہر احتجاج پہ امریکی اپنا ردعمل بھی دیتے ہیں، جیسا کہ اسی ماہ امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی تھی۔حکومتیں باہمی معاملات کو یکساں کرنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل سوال مگر یہ ہے کہ کیا خطے میں نئے بنتے معاشی و عسکری اتحاد پر امریکہ پاکستانیوں سے نالاں ہے؟اور اس کا بدلہ کسی اور طرح لے رہا ہے؟سانحات افسوس ناک اور شرمناک ہیں، لیکن مفتوح قومیں سوائے رونے دھونے اور چیخینے چلانے کے اور کر بھی کیا سکتی ہیں؟ زمینی حقائق بہر حال نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔دفتر خارجہ کو البتہ امریکیوں کو یہ باور بہر حال کرانا ہو گا کہ ہر پاکستانی شہری کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور امریکی پاکستانی ریاست کی اس ذمہ داری کو نظر انداز مت کریں۔ پاکستانی موٹر سائیکل سواروں کی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ قیمتی گاڑیوں میں سوار امریکیوں کی۔امریکی رویہ دنیا میں امریکیوں سے نفرت کو رواج دیتا ہے۔طاقت وروں کا غرور البتہ ایک نہ ایک دن ضرور خاک ہوتا ہے۔ تاریخ یہی ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply