خدارا اب مری نہیں جانا۔۔۔حارث عباسی

مری والوں نے جہاں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا برملا اعتراف کیا وہیں انتہائی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر گالی دینے والے کو سینے سے بھی لگایا۔۔۔۔
لیکن حضورِ والا!
گالی کا جواب محبت اور خاموشی کی صورت میں ملنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ اوقات پر ہی اُتر آئیں. جتنا اِس ایشو کو اہلیان کہسار کی طرف سے احتیاط اور لب بستگی کی صورت میں حل کرنے کی کوشش  کی گئی اُتنا ہی چند عناصر کی طرف سے ہذیان اور یاوہ گوئی کی صورت میں اسے مزید بھڑکانے کیلئے بھی کوئی کسر باقی نہ رکھی گئی.

یہ بات تمام اہلِ وطن پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مری کی عام عوام کا دس فیصد روزگار بھی سیاحت پر منحصر نہیں تاہم مری کی سو فیصد عوام ایک سیاح کی سہولت کی خاطر جو تلخیاں جھیلتی ہے اُس پر یقیناً کوئی نظر نہیں رُکتی۔مری پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سے فقط چند منٹ کی مسافت پر ہونے کی وجہ سے اِس وقت مُلک کا مصروف ترین سیاحتی مرکز ہے. 2014 کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق فقط عید الفطر کے پہلے دِن ترانوے ہزار گاڑیاں مری شہر میں داخل ہوئیں . جبکہ آنے والے  برسوں میں یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے. اب ایک ایسا قلیل الوسائل شہر جہاں فقط ایک دن میں دو سے تین لاکھ سیاح سیر کو آئے وہاں لاء اینڈ آرڈر کے مسائل کسی اچنبھے کی بات نہیں. عام پبلک سے لیکر انتظامیہ اور اداروں تک کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا امکان ایک قطعی بات ہے.

گزشتہ چند  برسوں  میں سیاحت کے بے پناہ اور ‘اَن کنٹرولڈ’ فروغ نے اِس شہر کو جِس قدر نقصان پہنچایا وہ یقیناً ہر حوالے سے ناقابلِ تلافی ہے. آج نہ صرف مری شہر بلکہ اسکے نواح میں موجود گلیات کا ہر پکنک پوائنٹ کوڑے کے ڈھیر کی صورت اختیار کر چُکا ہے. یقیناً شہر کی صفائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے لیکن کیا مری سے نتھیاگلی تک کے رستے میں موجود ہر شیشم اور دیار کی چھاؤں میں پڑا جوس اور فاسٹ فوڈ کا ڈبہ بھی انتظامیہ پر ہی ڈال دِیا جائے؟

پچھلے کئی سال  سے سیاحوں کی بے پناہ آمد نے مری کے ایک عام شہری کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی. جہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گاڑیوں کے قافلے سوئے کہسار روانہ ہوں وہاں ہمارے مریض ہسپتال پہنچنے کی حسرت دِل میں لئے رستوں ہی میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں. سیاحوں کے چند انبوہِ مخصوصہ نے نہ صرف عزت دار گھرانوں کی خواتین بلکہ مرد حضرات تک کو بھی بازاروں سے دور گھروں تک مفلوج کر کے رکھ دیا ہے. معاشرتی خرابیاں روز بروز پروان چڑھتی جا رہی ہیں. شہر کے نواح میں موجود سکول کالجز کے طلباء کو نہ صرف تعلیمی میدان میں بے حد نقصان پہنچا بلکہ انکی اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہ رکھی گئی. گاڑیوں اور سیاحوں کے بے پناہ رش نے نہ صرف شہر کے قدرتی حسن کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ گلوبل وارمنگ جیسی خطرناک ماحولیاتی بیماری کو بھی اِس شہر کا حصہ بنا دیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکہ کوہسار آج بھی پنڈی اسلام آباد کے ایک باسی کیلئے فقط تین سے پانچ سو روپے میں مکمل ٹور پیکج ہے تاہم ‘ملکہ عالیہ’ اگر یوں ہی ہر آنے والے کو کھلے دِل سے اپنے ٹھنڈے آنچل میں جگہ دیتی رہیں تو کچھ عرصے تک اِنکے اپنے ہاتھ کچھ نہیں بچنا. محض چند لوگوں کی خاطر آج سارے کوہسار نے جو برداشت کیا وہ یقیناً ایک سنہری مثال ہے تاہم جاتے جاتے یہ پتھر ہمیں اِتنا ضرور سکھا گئے کہ ہر کم ظرف لائقِ خاطر نہیں ہوتا. مری آج بھی اپنے آنے والوں کو اُسی وسعتِ قلبی سے قبول کرے گا جسکی مثال گزشتہ کئی دہائیوں پر ثبت ہے تاہم وہ جو گلبرگ اور لبرٹی میں بیٹھ کر مسلسل اہلیان کہسار کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اُن سے اتنی درخواست ضرور ہے کہ
خدارا! اب مری نہیں جانا
اُنہیں تھوڑا قبول ہے مگر صاف ستھرا!

Facebook Comments

Hariss Abbassi
نام کافی است

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply