عرفات میں تنازعات ۔۔محمود چوہدری

منٰی  میں حاجیوں کے درمیان ایثار ومحبت کااظہار واقعی دیدنی تھا۔ حج کا فلسفہ شاید ہے ہی یہی کہ انسان کو انسان سے جوڑنا  ۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو کھانا کھلانے ، پانی پلانے  میں سبقت لئے جا رہے تھے۔ کوئی پانی کی ٹھنڈی بوتلیں لا رہا تھا تو کوئی جوس پیش کر رہا تھا کوئی پھل دے رہا تھا تو کوئی چائے بنا کر لا رہا تھا۔ لگتا تھا یہ انسان نہیں بلکہ آسمان سے فرشتے اُتر آئے ہیں ایک دوسرے سے اخلاق اور تمیز کا وہ نظارہ جس کا نقشہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

آج نو ذوالحج ہو چکی تھی۔ آج بڑا دن تھا ۔ حج کے مشکل مناسک شروع ہوگئے تھے ۔ہم میدان عرفات پہنچے۔وہاں پر بھی لوگ مختلف خیموں میں قیام کرتے ہیں حج کی عبادت عجیب ہے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا ہے لیکن عبادت ظاہرا ً ایسی کوئی بھی نہیں جومشترکہ کرنی ہو۔ اجتماعیت میں انفرادیت کی  یہ اپنی ہی مثال ہے یعنی آپ ہجوم کاحصہ بھی ہیں لیکن آپ خدا کو پکارتے وقت تنہا بھی ہیں۔آپ جلوتوں میں موجود ہیں لیکن دل کی خلوتوں میں معبود سے تنہا ہم کلام ہیں ۔ بھیڑ میں ہیں لیکن تخّیل میں اکیلے ہیں ۔ محفل میں تنہائی اور مجلس میں تخلیہ ہے ۔ لوگ مختلف گروپوں میں باجماعت نماز بھی ادا کرلیتے ہیں ۔ لیکن کوئی مخصوص امام بھی نہیں ہے ۔ میدان عرفات میں مسجد نمرہ تک پہنچنے کا موقع بہت کم لوگوں کوملتا ہے ۔امام کا خطبہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی پرحاجیوں سے بہتر سن سکتے ہیں ۔

میں‌اپنے خیمے سے باہر نکا تو میدان میں عجیب ہی منظر تھا لوگ کھڑے ہوکر خدا سے ہمکلام تھے ان کی آنکھوں‌ سے آنسوؤں کی جھڑیا ں جاری تھیں کیونکہ آج کے دن وقوف کرنے کا کہا گیا ہے یعنی کھڑے ہو کر خدا سے ہمکلام ہواجائے ،آج کے  دن کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ آج کے دن حاجیوں کی دعاؤں کے باعث انہیں جہنم سے آزاد کیا جاتا ہے ۔ آج کے دن کو گناہوں سے پاک ہوجانے کا دن قرار دیا گیا ہے ۔

دل کے داغ تو دھل رہے تھے لیکن جہاں مسلمان اکٹھے ہوں وہاں  اختلا ف نہ ہو ،یہ بھلا کیسے ممکن ہوتا، وہی ہوا، ہمارے خیمے میں اختلاف ہوگیا ۔

ظہر کا وقت آیا ، ایک شخص نے امامت کرائی، امام نے نماز ظہر ختم کی تو کچھ مقتدیوں نے کہااب عصرپڑھائیں۔ امام صاحب کہنے لگے  کہ عصر کی نماز عصر کے وقت میں پڑھی جائے گی۔تنازع  کھڑا ہو گیا۔ وہی حاجی جوکچھ دیر پہلے تک ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر تھے اور ایک دوسروں کو محبت و الفت سے دیکھ رہے تھے ان کی آوازیں اونچی ہوگئیں  اوران کے جملوں میں غصہ کا عنصرنمایاں ہونا شروع ہو گیا۔ وہ جو کچھ لمحے پہلے باہم التفات تھے ان کے نتھنے پھولنے لگے۔ ایک نمازی اٹھ کھڑا ہوگیا کہ میں تو عصرپڑھوں گا۔شفیق لہجے والوں کے لہجے سے تمیز رخصت ہوئی اور ”ایہنوں کرن دیو جو کردا اے “ والا لہجہ آگیا۔

اس کے حمایتیوں کے لہجے میں بھی اسی امام کے خلاف بدتہذیبی آنا شروع ہو گئی جو کچھ دیر پہلے اس کے پیچھے نماز پڑھ چکے تھے۔کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ حج کے دنوں میں  چونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے دونوں نمازیں ملا کر پڑھی ہیں اس لئے ہمیں ویسے ہی پڑھنی چاہیے  ،جیسا کہ پڑھی گئی ہیں جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ حضور نبی کریمﷺ نے نمازیں ہمیشہ وقت پر پڑھی ہیں۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا کہ آپ ﷺجب میدان عرفات میں پہنچے تو ظہر کی نماز کے بعد فوراً عصر کا وقت ہو گیا ہو گا اور آپ نے اس دن بھی دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھی ہیں۔

دو تین صلح جو حاجیوں نے بیچ بچاؤ کرایا کہ جو پڑھنا چاہتا ہے وہ پڑھ لے جو نہیں پڑھنا چاہتا نہ پڑھے ایساہی ہوا تقسیم ہو چکی تھی ،لہجوں میں سختی آچکی تھی اور طنزو تشنیع صاف دکھائی دیتی تھی۔ ہر حاجی کے ہاتھ میں مختلف کتابیں تھیں اور وہ انہی کتابوں کو صحیفہ آسمانی سمجھ کر اسی کی پیروی کرنا چاہتا تھا۔

میرے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔فنانس کی ڈگری کر رہا تھا۔ اس سے مختلف موضوعات پر بات ہوئی تھی۔ پوچھنے لگا کہ ان دونوں گروپس میں کون صحیح ہے اور کون غلط ہے اور مجھے کس کی پیروی کرنی چاہیے؟۔میں نے کہا دونوں صحیح ہیں کسی کی بھی پیروی کر لوتمہاری نمازیں ہو جائیں گے ۔ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا ایسا کیسے ممکن ہے؟۔ میں نے کہا ایسا ممکن ہے اس لئے کہ دونوں کے پاس معقول دلائل ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہی اللہ کی منشا ءہے کہ  نماز دونوں طریقوں سے پڑھی جائے۔ اللہ چاہتاہے کہ میرے نبی مکرم ﷺ کے پیروکار اس کی ایک ایک ادا کی پیروی کریں ،جو آج کے دن ان کی نمازیں ملاکر پڑھنے والے کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اسی نبی محترم کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اور جو آج کے دن اس اصول کو اپنانا چاہتے ہیں کہ ان کے نبیﷺ نے ہمیشہ وقت پر نماز پڑھی وہ بھی انہی کی محبت میں ایسا کر رہے ہیں دونوں کی محبت میں شک نہیں کیا جا سکتا۔

کہنے لگا لیکن آپ کی باتیں جذباتی بھی تو ہو سکتی ہیں، کوئی حوالہ ؟ میں نے کہا۔۔جنگِ ’احزاب‘ کے موقعے پرپیارے نبی ﷺنے کچھ صحابہ کرام سے کہا کہ وہ فوراً ’بنی قریظہ‘ پہنچ جائیں او ر وہیں عصر کی نماز پڑھیں۔ یہ لوگ راستے ہی میں تھے کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمارے حضورﷺکا مطلب یہ تھا کہ ہم ’بنو قریظہ‘ پہنچنے میں جلدی کریں۔یہ منشا ءنہیں تھا کہ اس کی وجہ سے نمازِ عصر میں تاخیر کر دی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں نے وقت پر نماز پڑھ لی، لیکن کچھ صحابہ نے اس سے اختلاف کیا۔ ان کے نزدیک آپﷺنے عصر کی نماز ’بنو قریظہ‘میں پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اس لیے وہیں پہنچ کر رات میں انھوں نے نماز پڑھی، پہلے گروہ نے آپﷺ کی منشا ءکو سمجھنے کی کوشش کی اور دوسرے گروہ نے آپﷺ کے الفاظ کو سامنے رکھا، جب آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی، تو آپ ﷺنے کسی بھی گروہ کو ملامت نہیں کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ حیران ہو گیا۔ کہنے لگا علما  ہمیں ایسی باتیں کیوں نہیں بتاتے ۔میں نے کہا جو علما  ہوتے ہیں ،وہ ضرور بتاتے ہیں البتہ دوکاندار کبھی بھی نہیں بتاتا کہ دوسری دوکان کا سودابھی خالص ہے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply