پکی پھٹور وں کے درمیان تنگ سُکڑی سڑک :
ایک تنگ سی سڑک پہاڑوں پہ چکر کاٹتی اُوپر کو جارہی تھی۔پہاڑوں نے اِسے زیادہ جگہ دینے سے اِنکار کردیا تھا۔نیچے کہیں کہیں کھائی نما گہرائیاں تھیں۔لِہٰذا یہ سُکڑنے پہ مجبور ہوگئی تھی۔اوراِس سُکڑے راستے پہ ہم آہستگی سے چڑھائی چڑھ رہے تھے۔جیسے جیسے بلندی کی طرف بڑھ رہے تھے وَیسے وَیسے مناظر بھی بدل رہے تھے۔چاروں جانب ہریالی تھی اَور کھیتوں میں اَ بھی گندم کچی تھی۔ماہ اگست کا آغا ز تھا۔راولاکوٹ بھی اگرچہ سرمائی مقام ہے مگر وہاں خُوبانیاں درَختوں سے خالی ہو چکیں تھیں۔لیکن اَستورکی اِن بالائی وادیوں میں سڑک کے اَطراف، درخت خُوبانیوں سے لدے ہوئے تھے۔اَور کھانے کو دعوت دے رہے تھے۔کچی گندم اَبھی کھیتوں میں پکنے کے اِنتظار میں تھی۔شئنا زبان میں خُوبانی کو ”پھٹور“ کہا جاتا ہے۔ کچھ ”پھٹور“ درختوں سے اُتار کر لوگوں نے مکانوں پہ سُکھانے کے لیے رکھی ہوئیں تھیں۔اِس کے دو فائدے ہیں ایک تو بازار میں یہ خشک پھل فروخت کیا جائے گا۔جہاں سے یہ پوری دُنیا میں جائے گا۔دُوسر ا َ ہل اَستور سخت برفانی دِنوں میں اِنھیں اپنے کوٹوں کی جیبوں میں ڈال لیں گے۔سفر و کام کے د َوران اِن سے شُغل کریں گے او ر ساتھ ساتھ بدن کی توانائی بھی بحال کریں گے۔پھٹو ر(خُوبانی)کو خُشک کرکے سردیوں کے لیے جمع کرنا، پورے گلگت بلتستان میں رواج ہے۔یہ رواج اَب صنعت کی شکل اَختیار کر چُکا ہے۔
چلے تھے دِیوسائی ۔۔۔۔جاویدخان /قسط18
اَگرچہ آزاد کشمیر کے ہر گھر میں گلگت کے ہر گھر سے زیادہ خُوبانیاں ہیں اَور باغوں کے باغ لگا نے کی بے پناہ گُنجائش ہے۔مگر یہاں اِس پہ تو جہ نہیں۔گلگت بلتستان کے لوگ گھروں میں پنیر،دہی،مکھن،گھی،سبزیاں اور پھل اپنے استعمال کرتے ہیں۔ہمالیہ و ہندوکُش کی آغوش میں بَسنے والے صدیوں سے خُودکفیلی اَختیار کیے ہوئے ہیں۔اِنھیں قدیم شاہراہ ریشم جو ہن بادشاہ نے بنوائی تھی بھی بعد میں کام آئی ہو گی۔موجودہ اُمید بھرا سی۔پیک تو ابھی دوپہر کی بات بھی نہیں ہوئی۔گلگت بلتستان،لداخ اورتبت ایک ہی تہذیبی کپڑے کے مختلف رنگ رہ چُکے ہیں ۔اَب اِس کپڑے پہ کہیں پیوند لگ چکے ہیں۔اور مزید بدرنگی جاری ہے۔آزاد کشمیر کے علاوہ کشمیر کے باقی حصو ں میں خُو د اِنحصاری کافی حد تک باقی ہے۔آزادکشمیر میں لوگ ماضی میں اپنی ہی زمینوں سے اَناج حاصل کرتے تھے۔خُودکفیلی کی یہ عادت برسوں ہوئے آزادکشمیرکے لوگ بھول چکے ہیں۔گلگت بلتستان میں اکثر خاندان ریوڑوں کے ریوڑ پالتے ہیں۔کم سے کم بکریوں کی تعداد ایک گھر میں چالیس سے پچاس ہوتی ہے۔پاکستان جہاں پنجاب کبھی اَناج کاگھر تھا۔ اَب ساری زرخیز زمینوں پہ بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیاں کھڑی ہوتی جارہی ہیں۔قابل کاشت زمین یا تو تھور و سیم کا شکار ہو رہی ہے یا کنکریٹ تلے دَب کر رہ گئی ہے۔وہاں سے آنے والے اپنی زرخیز زمینوں کا حشر کرنے کے بعد اِن خُوبصورت وادیوں میں تصویریں بنوانے پہ لگے ہیں۔جو اُنھیں فلمی ہیرو،ہیروئن نہ سہی”فیس بکی“ہیرو بنا دیتی ہیں۔
ہم مسلسل چکر کاٹتے ہوئے اُوپر جارہے تھے۔برف کے پَس ِمنظرمیں سبزے سے لدی وادی کے مناظر ہر چکر کے بعد نئے رنگ میں سامنے آرہے تھے۔کِسی دُور جگہ سے آئے سیاح پورا فوٹو سٹوڈیو اُٹھا کر لائے تھے۔اور برفانی پہاڑوں کے پَس منظر میں پُھول دار گھاس میں کھڑے ہو کر اپنی تصاویر اُتروا رہے تھے۔اَستور بازار اَب بہت نیچے رہ گیا تھا۔اِس کے عقب میں اور سامنے دو پہاڑ آسمان کوچھوتے لگ رہے تھے۔ہم عقب والے پہاڑ پہ چکرکاٹتے اُوپر چڑھ رہے تھے۔بازار اِن دو پہاڑوں کے قدموں میں ڈھلوان پہ پڑ ا لگ رہا تھا۔بلندی سے یوں لگتا ہے کہ اَبھی یہ پہاڑ ٹوٹ کرگریں گے اَو ر اَستور بازار اِن میں دَب کر رہ جائے گا۔
بلند ی پہ پھیلے کھیتوں کے درمیان ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ َاچانک دیودار اَور بیاڑ کا گھنا جنگل ہمارے سامنے آگیا۔اِس کے پیچھے سے ایک برفانی چوٹی کے مناظر نمودار ہوئے۔اَیساہی ایک منظر بازار کے سامنے والے مِٹیالے پہاڑ کے پیچھے ایک اَور پہاڑ کا تھا۔جہاں برف موجود تھی۔ایک برساتی تالاب کے ساتھ ایک سرکاری ڈاک بنگلہ تھا۔ لکڑی کے ستونوں سے ایک ڈوری باندھ کر رکاوٹ لگائی گئی تھی۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دیوسائی۔۔ جاویدخان/قسط19“