گراؤنڈ ہوسٹس

چونکیں نہیں اگر ایئر ہوسٹس کے نام پر کوئی اعتراض نہیں تو اس اصطلاح پر حیرانگی کیسی۔ ہوائی میزبان اگر ائیر ہوسٹس ہے تو میری لغت میں زمینی مہمان گراؤنڈ ہوسٹس۔
جس طرح پنجابی میں ہر لفظ ذو معانی ہوتا ہے اسی طرح ان میزبانوں کے ساتھ اپنے حسن سلوک کی وجہ سے کبھی کبھی تو واقعی ہم گراؤنڈ ہو جاتے ہیں یا پھر بس میں گراؤنڈ سا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔آپ نے سفر تو بارہا کیا ہو گا ایک شہر سے دوسرے شہرجاتے ہوئے مختلف اے سی بس سروسزکا استعمال بھی کیا ہو گا۔ عموماَّ ہمارے مزاج بھی کچھ اس طرح کے ہیں کہ جب کوئی کنڈیکٹر کی بجائے خاتون ہوسٹ ہو تو جہاں ہمارے مزاج میں شگفتگی آ جاتئ ہے اور چھیڑ چھاڑ کرتے، کن انکھیوں سے اور کبھی گھور کر دیکھتے ہوئے اور اشاروں میں اشارے کرتے ہوئے سفر بہت عمدگی سے گزر جاتا ہے۔
کبھی آپ نے اس عام سی شکل کی لڑکی کی آنکھوں میں جھانک کر درد محسوس کرنے کی بھی کوشش کی ہے ؟ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھ کرہوس بھری نگا ہوں سے دیکھتے ہوئے کبھی آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ یہ بھی اسی معاشرے کی بہن بیٹیاں ہیں۔ یقیناًگھریلو حالات سے مجبورہوکرانہیں روزگار کے لئےچار دیواری سے باہر نکلنا پڑا ہو گا۔ اگر کل کلاں آپ کے گھر کے حالات بھی دگرگوں ہو جائیں اور آپکی گھر کی بیٹیاں بھی انہی نگاہوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائیں تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟
حیف ہے ان ثروت مندوں اور کاروباری حضرات کی سوچ پر جنہوں نے مجبور خواتین کو روزگار کا موقع تو فراہم کیا لیکن صورتحال ایسی پیدا کردی کہ بھوکے بھیڑیوں کے ریوڑ میں ایک لاچار بکری کوانکے رحم و ستم پر چھوڑ دیا۔ مغربی اقدار کی پیروی کرتے ہوئے عورت کو ایک شو پیس کی طرح پیش کردیا کہ گاہک بڑھیں اور کاروبار خوب چمکے،اور ان گاہکوں (مسافروں) کو بھی سات سلام جو اگر ایسی سروسز کا خیر مقدم صرف اس لئے کریں کہ دوران سفر آنکھوں کو ٹھنڈک (حقیقت میں جلن) ملتی رہے۔اس خاتون کے چہرے کی بے بسی پر ایک نظر تو ڈالئے جب کبھی وہ کھانے کے ڈبے یا مائیک تقسیم کررہی ہوتی ہے۔ پچاس مسافروں کے کندھوں، بازوؤں اور گھٹنوں سے ٹکراتی ہوئی سہمی سہمی جب وہ اپنی سیٹ پر واپس پہنچتی ہے تو آپ کی بے حسی اور غیرت پر کتنے انگنت سوال اسکے ذہن میں اٹھتے ہوں گے؟
کبھی الودائیہ اعلان بھی غور سے سنا ہے؟ لرزتی آواز میں آپ سے جان چھوٹ جانے پر وہ کتنی شکر گزار ہوتی ہے لیکن لہجے میں ڈر اسی طرح چھپا ہی رہتا ہے کیونکہ یہ سفر صرف ایک دن کا تو نہیں تھا 8 ہزار تنخواہ کیلئے اسے مزید 29 دن بھی اسی کیفیت میں گزارنے ہوں گے۔ ہمارے مشرقی اقدار اتنے گئے گزرے تو نہیں تھے کہ حسن کی نیلامی پر ہوس کی سوداگری ہوتئ۔ میں قطعا ً عورت کی نوکری کے خلاف نہیں اور نہ ہی میرا مقصد یہ ہے کہ عورت کو گھر میں باندی بنا کر قید کردیا جائے ۔لیکن کم از کم مردوں کے معاشرے میں عورت کو ایسا روزگار کا وسیلہ تو فراہم کیا جاسکتا ہے جو اس کے لئے طمانیت کا سبب بنے۔ایسا روزگار جس کے لئے اگر آپ کی اپنی بہو بیٹی بہنیں بھی گھر سے قدم اٹھائے تو ذہن کے کسی نہاں خانے میں بھی کوئی خدشہ ، اندیشہ یا بار ذلت کا خیال تک نہیں ہو۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply