امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت

طاہر یاسین طاہر
امریکی صدارتی انتخابات کا اعصاب شکن مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔دونوں صدارتی امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم بڑے جارحانہ انداز میں چلائی۔ایک ٹی وی اینکر،ایک بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران میں اپنے جارحانہ اور متنازعہ بیانات کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنے رہے۔دنیا کے بیشتر افراد اور تجزیہ کاروں کے لیے ٹرمپ ایک نیا نام تھا جبکہ ہیلری کلنٹن سابق امریکی صدر کی بیوی اور اہم امریکی سیاستدان ہونے کے ناطے دنیا میں اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں جو پالیسی بیانات دیے ان کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک حتی کہ یورپی ممالک تک کے سربراہان نے ڈونلڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا ،جبکہ امریکی صدر باراک اوباما ،بہ نفس نفیس ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں حصہ بنے اور یہ بیان دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ اور دنیا بھر کے لیے ایک خطرہ ہیں، مگر امریکی الیکٹورل کالج کے فیصلہ کن ووٹ کا انتخاب ڈونلڈ ٹرمپ ہی رہا۔ایک غیر ملکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہلیری کلنٹن کے خلاف صدارتی مہم یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ سنہ 1999 میں انھوں نے ریفورم پارٹی کے امیدوار بننے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اوپرا ونفری ان کی بہترین نائب صدارتی امیدوار ہوں گی۔ اس وقت ان کی پالیسیاں تھیں کہ وفاقی بجٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لیے انتہائی امیر افراد پر ایک دفعہ 14.25 فیصد ٹیکس لگایا جائے، 1964 سول رائٹس ایکٹ میں تبدیلی کر کے ہم جنس پرستوں کے خلاف امتیازی سلوک ممنوع کیا جائے اور کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس لگا کر صحت عامہ کے حکومتی پروگرامز کو فنڈ کیا جائے۔ تاہم فروری 2000 میں انھوں نے ریفورم پارٹی میں اندرونی کھینچا تانی کے باعث یہ کوشش ترک کر دی۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران میں ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اپنی صدارتی مہم پر خرچہ وہ اپنی جیب سے کریں گے تاکہ وہ عطیات دینے والوں کے زیرِ اثر نہ رہیں ۔جو اہم بیانات انھوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران میں دیے تھے ،ان میں انھوں نے کہا تھا کہ میکسیکو سے امریکہ آنے والے تارکینِ وطن میں سے بہت سے ریپسٹ اور منشیات فروش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں امریکی آئین کی دوسری ترمیم (عام شہریوں کے ہتھیار رکھنے کا حق) کو محفوظ رکھوں گا، ہمسایہ ملک میکسیکو کی سرحد پر دیوار بناؤں گا، اوباما کیئر کو منسوخ کر دوں گا، مسلمانوں کی امیگریشن پر پابندی لگاؤں گا اور امریکہ کے بین الاقوامی تجارتی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کروں گا۔اب امریکہ میں رپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ایک تاریخی انتخابی مہم کے بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں اپنی مخالف امیدوار ہلیری کلنٹن کو شکست دے کر ملک کے 45ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔کئی ماہ تک رائے شماری کے جائزوں میں ہلیری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل تھی تاہم الیکشن کے دن متعدد اہم سوئنگ ریاستوں میں کامیابی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فتح سے ہمکنار کر دیا۔ٹرمپ نے الیکشن میں فلوریڈا، اوہایو، پینسلوینیا اور شمالی کیرولائنا جیسی متذبذب ریاستوں میں کامیابی حاصل کی اور وائٹ ہاؤس میں آئندہ چار برس کے لیے اپنی جگہ پکی کر لی۔ٹرمپ نے وسکونسن میں فتح کے نتیجے میں 270 الیکٹورل ووٹوں کا وہ ہدف پار کیا جو امریکی صدر بننے کے لیے لازمی ہے۔
فتح کے بعد نیویارک میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ابھی ابھی ہلیری کلنٹن نے فون کر کے ہمیں، ہم سب کو مبارکباد دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک متحد قوم بن جائیں۔امریکہ کے نومنتخب صدر نے ہلیری کو ایک سخت مخالف امیدوار تسلیم کیا اور کہا کہ ہلیری کلنٹن نے بہت سخت مقابلہ کیا اور میں امریکہ کے لیے ان کی کوششوں کی قدر کرتا ہوں۔انھوں نے مزید کہا کہ میں نے شروع ہی سے کہا تھا کہ یہ صرف ایک انتخابی مہم نہیں بلکہ تحریک تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا جو چاہتے تھے کہ حکومت لوگوں کی خدمت کرے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ،ہم مل کر کام کریں گے اور امریکہ کو عظیم بنائیں گے۔میں نے زندگی بھر بزنس کیا ہے اور میں نے امریکہ میں زبردست پوٹینشل دیکھا ہے۔ ہر امریکی توجہ کا مرکز ہو گا۔ ہم اپنے اندرونِ شہروں اور شاہراہوں، ہسپتالوں اور انفراسٹرکچر میں بہتری لائیں گے اور لاکھوں لوگوں کو روزگار کا موقع فراہم کریں گے۔انھوں نے اس موقعے پر انتخابی مہم کے دوران دوسرے ملکوں کے بارے میں اپنے رائے میں اعتدال لاتے ہوئے کہا کہ ہم سب ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے جو ہم سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم سب ملکوں کے ساتھ شراکت کریں گے نہ کہ مقابلہ بازی۔ٹرمپ نے 28 ریاستوں میں کامیابی حاصل کی جن میں پینسلوینیا اور وسکونسن جیسی ریاستیں بھی ہیں جہاں سے بالترتیب 1988 اور 1984 سے کوئی رپبلکن امیدوار نہیں جیتا تھا۔ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ساتھ رپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں بھی اکثریت برقرار رکھی ہے۔ادھر 69 سالہ ہلیری کلنٹن کی نظر امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے پر تھی مگر اس الیکشن میں ناکامی کے بعد انھوں نے اپنے حامیوں سے خطاب کرنے سے بھی انکار کر دیا۔اب تک کے نتائج کے مطابق ہلیری کلنٹن 50 میں سے صرف 18 ریاستوں میں کامیاب ہو سکیں۔
وہ ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی انتخابی مہم کے دوران میں دوسرے ممالک ،تارکین وطن اور عورتوں کےحوالے سے سخت اور متنازعہ بیانات دیا کرتے تھےصدارتی انتخاب جیتنے کے بعد اپنے حامیوں سے اپنے پہلے ہی خطاب میں اعتدال کی طرف قدم رنجہ فرماتے نظر آئے۔یہ بات یاد رہے کہ امریکی انتخابات میں ہیلری کلنٹن کی شکست اوباما کی پالیسیوں کی بھی شکست ہے کیونکہ اوباما ہیلری کی زبردست حمایت کر رہے تھے۔اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نئے امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں تو امریکی معاشرےمیں جوش و جذبہ کے ساتھ ساتھ خوف بھی پایا جاتا ہے۔اس کی وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ شخصیت ہے۔ٹرمپ کی برتری کی خبریں آنے کے ساتھ ہی امریکیوں کی قابل ذکر تعداد نے کینیڈا کی طرف رخ کیا جس کے باعث کینیڈین امیگریشن سائٹ کریش کر گئی، ان باتوں کے باوجود ہم نہیں سمجھتے کہ دنیا کو ٹرمپ سے خوف زدہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ امریکہ کو اکیلےٹرمپ نہیں چلائیں گے نہ ہی اکیلے ٹرمپ دنیا کے ساتھ معاملات طے کریں گے۔ امریکی ادارے مضبوط ہیں اور کئی ایک ادارے اور تھینک ٹینکس مل کر پالیسی ترتیب دیتے ہیں اور صدر اس پالیسی پر عمل درآمد کرتا ہے۔ہاں البتہ یہ طے ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد دنیا میں کچھ جارحانہ تبدیلیاں بھی ضرور آئیں گی۔اگلے دنوں میں واضح ہونا شروع ہوجائے گا کہ ٹرمپ مسلم دنیا اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرنے والے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت

Leave a Reply