مجھے میرا بچپن نہیں چاہیے۔۔۔ابصار فاطمہ

میرا بس چلے تو میں اسے تکلیفیں دے دے کر ماروں”
بھنچی ہوئی مٹھیاں اور جذبات سے سرخ چہرا لئے یہ بات کہنے والا کوئی عادی مجرم نہیں۔ یہ جذبات ہمارے معصوم بچوں کے ہیں جنہیں ان کی معصومیت اور کمزوری کا فائدہ اٹھا کر روز کچلا جاتا ہے اپنی مکروہ خواہشات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ ڈرے سہمے کانپتے جسموں کے اندر ان کے دل نفرت اور تکلیف سے بھرے ہوتے ہیں۔ راتیں نیند سے بےگانہ اور دن بےفکری کی مزے سے عاری۔ ان کی نیندیں ہمیشہ کے لیئے اس ظلم کے حصار میں آجاتی ہیں جس نے ان کا بچپن اجاڑا ہوتا ہے۔

آپ کو وہ بچی یاد ہے جسے زیادتی کے بعد ذبح کرکے کراچی کی سنسان سڑک پہ پھینک دیا گیا تھا اور معجزاتی طور پہ وہ بچی بچ گئی؟ یا قصور کے وہ 300 سے زائد بچے جن کی فحش وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پہ بیچی گئیں؟ یا کندھ کوٹ کی وہ بچی جسے اس کے مالکان نے زیادتی کا نشانہ بنایا؟ یہ وہ چند کیسز ہیں جو میڈیا کی مہربانی سے فرنٹ پیج پہ آکر عوام کی نظر میں آ ہی جاتے ہیں مگر کیا آپ کو پتا ہے ہمارے ملک کے اخباروں کی اندرونی صفحات روز ایسے کئی دلخراش واقعات سے “مزین” ہوتے ہیں؟

“ساحل” نون پرافٹ آرگنائزیشن ہے جو کہ 1997 سے پاکستان میں بچوں پہ ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف سر گرم عمل ہے۔ ساحل ہر سال “ظالم اعداد Cruel numbers” کے نام سے ایک رپورٹ شائع کرتا ہے جس میں پاکستان میں ہر سال 0 سال سے 18 سال تک بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تعداد اور تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ یہ تفصیلات اخبار میں چھپنے والے واقعات، پولیس اسٹیشنز میں رپورٹ ہونے والے کیسز اور براہ راست ساحل سے رابطہ کرنے والے کیسز سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ہم بہت پیچھے نہ  جائیں بلکہ اگر صرف 2010 کی رپورٹ سے ہی ابتداء کریں تو اس سال مجموعی طور پہ بچوں سے جنسی زیادتی کے2252 کیسز رپورٹ ہوئے، سال 2011 میں یہ تعداد بڑھ کر 2303 ہوگئی ، سال 2012 میں 2788، سال 2013 میں 3002 ، سال 2014 میں 3508، سال 2015 میں 3768 جبکہ گزشتہ سال یعنی 2016 میں مجموعی طور پہ 4139 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس مسئلےکا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اصل کیسز اس سے کہیں زیادہ ہیں جو لوگ برادری اور معاشرے کے خوف سے چھپا لیتے ہیں اور متاثرہ فرد اور خاندان کبھی انصاف حاصل نہیں کرپاتے۔

ہر سال شائع ہونے والی یہ رپورٹ کچھ ایسے تلخ حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے جو ہماری بہت سی خطرناک خوش فہمیوں کو چند لمحوں میں ختم کر دیتی ہے۔ ہماری سب سے بڑی خوش فہمی یا غلط فہمی یہ کہ صرف لڑکیاں اور وہ بھی جوان لڑکیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوسکتی ہیں جبکہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق 4139 کیسز میں سے 1729 کیسز لڑکوں کے ہیں۔ یعنی کوئی 40% سے زیادہ ۔ بد فعلی یا زیادتی کے بعد تقریبا 53 بچے قتل کر دیئے گئے جن میں سے 28 لڑکے تھے۔ عمر کے حوالے سے دیکھا جائے تو لگ بھگ 1000 بچے 0 سے 10 سال کی عمر کے ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اگر ہم 15 سال تک اس عمر کے دائرے کو بڑھا دیں تو تعداد 2000 سے تجاوز کر جاتی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں روز 11 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔

اب آتے ہیں ایک اور خطرناک حقیقت کی طرف اور وہ ہے “مجرم”۔ ہم بچوں کو اجنبیوں سے بچنا سکھاتے رہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بچے اپنے گھر میں سب سے زیادہ محفوظ ہیں جبکہ ہمارے بہت قریبی لوگ انہیں اپنے ہی گھر میں نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے کیسز میں 1765 مجرم واقف کار تھے یعنی بچے کسی نہ کسی حوالے سے انہیں جانتےتھے۔ 594 کیسز میں بچے کو بچے کے اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ زیادتی کرنے والوں میں رشتہ دار، محلے دار، اساتذہ، مولوی، دکاندار وغیرہ بھی شامل ہیں۔ تقریبا 65 مجرم بچوں کے محرم تھے جن میں سگا باپ بھی شامل ہے۔

ان واقعات میں زیادہ تر واقعات کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے یعنی تقریبا 76% بچوں کا تعلق گاؤں  سے ہوتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شہروں میں بچے گاؤں کے بچوں سے زیادہ محفوظ ہیں۔ آیئے اعداد و شمار کے بعد اب ذرا پاکستان میں جنسی زیادتی کے قوانین، جرم کی وجوہات اور اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔

بچوں سے جنسی زیادتی بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے (UNCRC) کے مطابق جرم ہے اور پاکستان اس معاہدے کا حصہ ہے۔ اس معاہدے کے آرٹیکل نمبر 34 کے مطابق ہر قسم کی بدسلوکی اور بے حرمتی سے بچاؤ  بچے کا حق ہے۔ اس کے باوجود پچھلے سال تک بچوں سے جنسی زیادتی کے بارے میں کوئی واضح قانون موجود نہیں تھا۔ قصور کے ایک دیہی علاقے حسین خان والا میں ہونے والے واقعے نے اصولا پوری قوم کو ہلا کر رکھ دینا چاہیے  تھا جہاں 300 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کی فحش وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پہ بیچی گئیں۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ اس کے بعد بھی بچوں کے لیئے حالات یہی ہیں۔

پاکستانی قانون کے مطابق انہیں صرف جنسی زیادتی کی سزا مل سکتی تھی جو کہ زیادہ سے زیادہ 7 سال قید ہے۔ اس کیس کو مد نظر رکھتے ہوئے 2016 میں نیا قانون بنایا گیا جس کے مطابق بچوں کو جنسی طور پہ حراساں کرنا انہیں کسی بھی قسم کی فحش نگاری کے لیئے استعمال کرنا یا انہیں عریانیت دکھانا جرم ہے جس کی سزا 7 سال قید اور 70 ہزار تک کا جرمانہ قرار دی گئی۔ دیکھنے میں یہ قدم خوش آئیند لگتا ہے مگر ہمارے ملک کے مسائل اس سے کہیں پیچیدہ ہیں۔

ہم عمومی طور پہ یہ سمجھتے ہیں کہ عادی مجرم، جنسی طور پہ فرسٹریشن کا شکار ، کسی قسم کی ذہنی مسئلے کا شکار یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے والے عموما ایسے قبیح عوامل میں ملوث ہوتے ہیں جبکہ اصل وجہ اس کے علاوہ ہے۔ بچوں کو کے ساتھ زیادتی کرنے والے کسی بھی قسم سے تعلق رکھ سکتے ہیں جن میں اوپر بیان کی گئی اقسام کے لوگ بھی شامل ہیں مگر ان سب واقعات میں ایک بات یکساں ہوتی ہے وہ یہ کہ بچے سب کے لیے سب سے آسان شکار ہیں۔

مختلف ماحول سے تعلق رکھنے والے بچوں کا تعلق مختلف قسم کے افراد سے پڑتا ہے مگر نقصان میں ہمیشہ بچہ رہتا ہے کیونکہ وہ کمزور اور آسان شکار ہے۔ شہروں میں موجود بچے جو کہ اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں مضبوط معاشی گھرانوں سے تعلق ہونے کی بنا پہ محفوظ سمجھے جاتے ہیں مگر انہیں جنسی طور پہ چھونے سے لیکر باقاعدہ جنسی عمل میں شامل کرنے تک استعمال کیا جاتا ہے یہاں عموما جنسی طور پہ فرسٹریٹڈ افراد کی ان تک رسائی ہوتی ہے جو کہ انہی کے رشتہ دار یا جان پہچان کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی رشتے کاچچا ماموں یا بلوغت میں قدم رکھتا / رکھتی کوئی نوعمر کزن یا محلے والا جسے والدین سے کسی قسم کی مناسب رہنمائی فراہم نہیں کی گئی۔یہ بچے ان کے لئے مناسب حل ہوتے ہیں۔

اس بعد آجاتے ہیں گاؤں  میں رہنے والے بچوں کی انہیں جن وجوہات کی بنا پہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس میں یا تو جنسی فرسٹریشن یا پھر بدلا اور انتقام۔ اس انتقام میں اس بچے اور والدین کو اپنی طاقت دکھانا اہم مقصد ہوتا ہے۔ یا پھر وڈیرے کی گستاخی کی سزا کے طور پہ بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر اس کی ویڈیو   استعمال کی جاتی ہے۔ سب سے آخری قسم میں مزدور بچے آتے ہیں جنہیں معاوضہ یا بغیر معاوضہ کے باقاعدہ پروسٹیٹیوشن میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیس ان کے لئے کچھ نہیں کرتی کیونکہ انہیں عادی سمجھا جاتا ہے۔ انہیں ہر طرح کے لوگ بے دریغ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ بچوں میں بھی سب سے کمزور ہوتے ہیں۔ وہ گھر میں ماں اور باپ کی آغوش میں چھپ نہیں سکتے۔

پاکستان میں ہونے والے جنسی زیادتی کے کیسز میں سے شاید صرف 10 فیصد کورٹ تک پہنچتے ہیں اور شاید ان دس فیصد کے بھی دس فیصد کا فیصلہ ہو پاتا ہے جبکہ زیادہ تر کا فیصلہ جرگہ میں کیا جاتا ہے والدین کی رضامندی سے یا دھمکیاں دے کر رضامند کروا کر۔ ایک بچے کی عزت اور زندگی کا فیصلہ عموماً  ایک یا دو من گندم یا چند لاکھ روپے پہ کر دیا جاتا ہے۔ یا پھر عوض میں متاثرہ گھرانے کو مجرم کے گھر کی کوئی بچی دے دی جاتی ہے۔ بہت سے افراد بہت کھلے الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ اگر ان کے بچے کے ساتھ کسی نے زیادتی کی تو وہ نہ زیادتی کرنے والے کو چھوڑیں گے نا زیادتی سہنے والے کو۔ یہی ان کا انصاف ہے۔

قصور والے واقعے کے بعد سے اب مجرم انتقام کا یہ طریقہ اپناتے ہیں کہ متاثرہ بچے کی فحش تصاویر اور وڈیو بنا کر پہلے اس کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے پھر انٹرنیٹ پہ بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں۔ اور یہ ہمارے معاشرے کا ایک اور قبیح چہرہ ہے جہاں جسمانی طور پہ ایک بندہ بچے کو نقصان پہنچاتا ہے اور پھر ہزاروں بار بار انٹرنیٹ پہ اس کی تکلیف سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ لوگ معاشرے کی برائی سامنے لانے کا کہہ کر بار بار ایسی وڈیوزکو شئیر کرتے ہیں جس سے مجرم کا کوئی نقصان نہیں ہوتا مگروہ بچہ بار بار اذیت سے گزرتا ہے۔ جب جب اس کے سامنے سے وہ وڈیو گزرتی ہے۔

ہمارے لئے یہ صرف ایک واقعہ ہے مگر دراصل یہ ایک نا ختم ہونے والا چکر ہے ایک آسیب ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتا چلا جاتا ہے۔ آج اگر ایک متاثرہ بچے کو اس تکلیف سے نہ  نکالا گیا تو وہی آنے والے دنوں میں جنسی جرائم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر بچہ جو زیادتی کا شکار ہوا وہ مجرم ہی ہوگا۔ نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کئی ایسے لوگ جو کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئیر کوئی استاد یا استانی ہے کوئی گھریلو خاتون کوئی مولوی اور کوئی وکیل اور ان کے اندر ایک زخمی ڈرا سہما بچہ موجود ہے جس کے زخم روز رستے ہیں۔

اگر واضح اور نفسیاتی اصطلاح میں بات کی جائے تو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے عموماً  افراد پوسٹ ٹرامیٹک  سٹریس ڈس اورڈر PTSD کا شکار ہوجاتے ہیں احساس کمتری ڈپریشن بے خوابی یہ وہ چند یکساں علامات ہیں جو کہ جنسی زیادتی کا شکار بچے عموما ساری زندگی جھیلتے ہیں ان کا اعتماد بالکل ختم ہوجاتا ہے انہیں اپنے جسم سے نفرت ہوجاتی ہے مسلسل احساس گناہ انہیں غیر منطقی حد تک مذہبی یا مذہب سے دور کر سکتا ہے۔ اور وہ بھی ایسا گناہ جس میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ خود کو اکیلا کر لیتے ہیں کیونکہ ان سے بار بار ہونے والے حادثے کا پوچھا جاتا ہے ان پہ اس حادثے کی چھاپ لگا دی جاتی ہے۔ انہیں بار بار جتایا جاتا ہے کہ اب ان کی زندگی ختم ہوگئی ہے اور اسی بنیاد پہ وہ کسی کامیاب مضبوط حیثیت پہ پہنچ کر بھی خود کو کمزور سمجھتے رہتے ہیں۔

بچپن ہر ایک کے لیئے سب سے بے فکری کا زمانہ ہوتا ہے مگر آپ اگر کبھی بھی کسی ایسے شخص سے بات کریں گے جو بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار ہوچکا ہے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے اس کمزور بچپن سے کس قدر نفرت کرتے ہیں اسے کمزور بنانے والی اقدار سے کس قدر نفرت ہے۔

اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات ہمیں یہ سمجھنی چاہیے  کہ بچے کی زندگی اس واقعے سے خراب نہیں ہوتی بلکہ اس سے منسلک ہماری منفی سوچ بچے کو مسلسل احساس گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔ اگر ہر شخص بچے کو احساس دلائے کہ غلطی مجرم کی ہے تو ہم بہت جلد بچے کو ذہنی صدمے سے نکال سکتے ہیں۔ دوسری بات بچوں کو اتنا اعتماد دیں کہ اگر کوئی شخص بچوں کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرے تو بچہ فوراً  اپنے بڑوں کو بلا جھجھک بتا سکے۔ بچہ یا بچی کسی بھی مرحلے پہ آپ کو مسئلہ بتا رہے ہیں تو انہیں سب سے پہلے یہ بات کہیں کہ آپ نے یہ سب بتا کر بہت بہادری کا کام کیا ہے اور اگر کوئی آپ کو تنگ کر رہا ہے تو وہ غلط ہے آپ نہیں ہم آپ کا مکمل ساتھ دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچے جسمانی طور پہ کمزور ہیں اور آسان شکار ہیں مگر ہم انہیں جذباتی طور پہ زیادہ کمزور کر دیتے ہیں خود سے الگ کر کے اوران پہ اعتبارنہ کر کے۔ یاد رکھیں بچے جنسی نوعیت کی کہانی کبھی بھی جھوٹی نہیں بنا سکتے اگر آپ کا بچہ یا بچی کوئی فحش بات کررہا ہے تو یقیناً  کوئی بڑا اسے یہ سب کچھ بتا رہا ہے۔ کسی غیر کے لیے  اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پہ نہ  لگائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply