اصلاحِ خواص اور ہماری بدگمانیاں!

ہم کس قدر جلدی کسی سے بدگمان ہو جاتے ہیں، جنید جمشید بھائی کی شہادت کے بعد مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم کے وسیم بادامی کو دئیے گئےایک انٹرویو میں (جس میں انہوں نے جنید بھائی کے دین کی جانب رجو ع کرنے کا قصہ بیان کیا تھا) ہمارے لئے اس حوالے سے بہترین سبق موجود ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جنید بھائی نے جب میوزک کو خیرباد کہنے کا ارادہ کیا تو کس قدر تذبذب اور مشکلات کا شکار ہوئے۔ اردگرد بہکانے بھٹکانے والے بھی خوب منڈلائے ۔ خیر یہ بات زمانے کے شور میں کہیں دب کر رہ گئی اور لوگ جنید جمشید، اس کے فیصلے اور اس کے تذبذب کو بھول کر اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہو گئے۔ پھر یکایک افواہ پھیلی کہ جنید بھائی نے داڑھی منڈھوا لی ہے! افواہ خبر تبدیل ہوئی اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پھر کیا تھا، ایک بار پھر شور و غوغا بلند ہوا۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے ان پر مذہب سے کھلواڑ کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے۔ ایک طوفانِ بدتمیزی بلند ہوا ، اور سب نے بقدر استطاعت اس طوفان میں اپنا حصہ ڈالا۔ میں خود جنید جمشید سے خاصہ دلبرداشتہ ہوگیا اور ان کے بارے میں وہی کچھ سوچتا اور بولتا جو اس وقت پاپولر سینٹیمنٹ تھا (تاہم زندگی میں جب پہلی بار جنید بھائی سے ملاقات ہوئی ، تو ان کے اعلیٰ اخلاق نے ایسا گرویدہ بنایا کہ پھر تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد جنیدبھائی سے کبھی بدگمانی نہیں کروں گا)۔ بہت سے تبلیغی بھائی تو اپنے بزرگوں سے بھی برگشتہ ہوگئے کہ آخر یہ جنید جمشید کو جماعت سے نکال کیوں نہیں دیتے۔ یہ بہت بعد میں سمجھ آیا ممبر بنانا یا جماعت سے نکالنا تو ان حضرات کا مزاج ہی نہیں۔ جماعت تو اسے مجازاً کہا جاتا ہے، اصل میں تو یہ محض ایک جوڑ ہے ، اللہ اور اس کے بندوں کا۔ اب کسی انسان کو کیسے یہ اختیار حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ بندے کو رب سے جوڑنے کے بجائے توڑنا شروع کر دے۔ خیر، اسی وجہ سے بہت سے لوگ خود جماعت سے ہی برگشتہ ہو گئے۔ اس سارے قضیے میں، جب جنید جمشید کے دینی بھائی اس کا ساتھ چھوڑ رہے تھے اور اسے دوبارہ گمراہی و ضلالت کی گہرائیوں میں لیجانے والے اپنی کاروائیوں کے لیے پر تول رہے تھے ، ایک شخص ایسا تھا جس نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔۔۔ اور وہ شخص مولانا طارق جمیل صاحب ہیں۔ اس سارے قصے میں جنید جمشید کے بعد سب سے زیادہ لعن طعن جس شخصیت پر کی گئی وہ مولانا طارق جمیل صاحب کی ہے۔ تاہم آج ہم کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اگر اس وقت مولانا نے صحابیانہ سنت پر عمل نہ کیا ہوتا اور اپنے دوست کو، جس پر وہ سات سال محنت کر نے کے بعد اسے اللہ سے جوڑ چکے تھے،گمراہی کی دلدل میں چھوڑ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ مولانا جنید بھائی کے قریبی دوست تھے اور اصل حقیقت سے واقف تھے کہ ان کا دوست گمراہ نہیں ہوا، اس کا فقر اسے ضلالت کی جانب کھینچ رہا تھا۔ وہ فقر کہ جس کی بابت سید الکونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے پناہ مانگو، یہ انسان کو کفر تک لے جاتا ہے (مفہوم)۔ یہ دوست ہی تھا جو دوست کی مالی تنگدستی سے واقف تھا کہ اب گھر میں سو روپیہ بھی نہیں بچا تھا۔ ہم تو اس سے ناواقف ہی رہتے اگر مولانا خود اس بات کو بیان نہ کرتے۔ ہم ناواقف تھے اور جذباتی بھی۔ مولانا واقف تھے ، اور صاحب فراست بھی۔ سو ہم غیبت اور بدگمانی کا گناہ کمائے بیٹھے ہیں اور وہ اپنے دوست کو گمراہی کی دلدل سے نکال کر اسے دنیا میں بھی کامیاب کروا گئے (اللہ کے راستے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی) اور اس کی اخروی کامیابی کا بھی انتظام کرکے گئے، اور یوں خود اپنی آخرت کا بھی سامان کر خوب کرلیا۔ یہاں تو ایک شخص کا ایمان بچانا کامیابی کی کنجی ہے، مولانا تو نجانے کتنوں کو اللہ سے جوڑ چکے۔ میرے خیال میں جو لوگ مولانا طارق جمیل صاحب سے بدگمان ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں بدگمانیاں پھیلاتے ہیں، یہ بھی اللہ کی طرف سے ان کے لئے ایک خاص انتظام ہے۔ آخر وہ بھی انسان ہیں جن سے خطائیں سرزد ہوتی ہوں گی۔ سو اللہ پاک نےان کے سر سے خطاؤں کا بار جھاڑنے کا یہ بندوبست فرما دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جس کو تبلیغ والوں کا مزاج سمجھ آجائے، اس کو یہ اشکال ہوتا ہی نہیں کہ آخر یہ تبلیغ والے ان گناہگاروں کو نکال کیوں نہیں دیتے؟ ارے بھائی! اس دنیا میں انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کون ہے جو گناہگار نہیں؟ اگرتبلیغ والے گناہگاروں کو نکالنا شروع کردیتے تو کیا آج اس محنت سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدلی ہوتیں؟ کیا اس تمام ترتیب کا مقصد ہی فوت نہ ہوجائے اگر گناہوں اور بدنامی کے ڈر سے لوگوں کو نکالنا شروع کردیا جائے۔ تبلیغ میں لگ کر سب سے اہم بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ دین پر چلنے اور دین پر استقامت کے لئے صحبت اور ماحول سب سے اہم ہیں۔ اللہ والوں سے مسلسل تعلق اور قال اللہ و قال الرسول ﷺ والا ماحول ہی انسان کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ جنید جمشید پر مولانا نے سات سال محنت کی، سات سال اسے تبلیغ سے جوڑےرکھا، جبکہ ابھی اس نے موسیقی کا سفر چھوڑا نہیں تھا۔ اگر وہ دوسری تیسری ملاقات میں ہی اس کو کہہ دیتے کہ بھائی تو میوزک چھوڑ نہیں تو تیرے میرے راستے الگ، تو کیا وہ دنیا سے اس قدر کامیابی سے رخصت ہو پاتا ؟ اللہ کی شان کہ اس کو تو قبر بھی ایسی جگہ نصیب ہوئی کہ اس پر شجرسایہ دار تن کر کھڑا ہے کہ اللہ کے اس ولی کو قبر میں بھی راحت رہے۔ اصل میں ہم کنفیوز اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ ہم تبلیغ والوں کو بھی عام دنیاوی اور دینی جماعتوں پر قیاس کرتے ہیں، جہاں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہوئی نہیں کہ ممبرشپ منسوخ۔ میرے بھائی ! تبلیغ تو ہے ہی گناہگاروں کی اصلاح کی اکیڈمی، یہاں سے اگر انہیں کو نکال دیا جائے گا تو پھر باقی کیا بچے گا؟ جن کو اصلاح کی ضرورت ہے، انہیں کو ماحول سے کاٹ دیں، صحبت سے الگ کردیں گے تو ساری محنت کس کام کی؟ پھر یہ رویہ خو د انسان میں تکبر پیدا کر سکتا ہے جبکہ تبلیغ والوں کا مقصد کسی سے بھی پہلے خود اپنی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت کسی عام دنیاوی جماعت کی طرز پر نہ منظم ہے نہ کام کرتی۔ آپ کا م کا پھیلاؤ دیکھیں تو 7میں سے 6براعظموں پر پھیلا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے لئے جماعتیں نکلتی ہیں، لیکن ان کی نصرت کے لئے کوئی مرکزی فنڈ نہیں ہے، کسی قسم کا کوئی چندہ نہیں کیا جاتا۔ جماعت کا ہر رکن اپنے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوتا ہے اور جو یہ بار نہیں اٹھا سکتا تو اسی تشکیل کےدیگر ساتھی اپنے بھائی کی مدد کرتے ہیں۔ ایسی اپروچ کے ساتھ جماعت عالمگیر سطح پر کام کر رہی ہے کہ نہ کوئی چندہ نہ اشتہار، درحقیقت یہ ترتیب اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو اس ذات باری تعالیٰ نے بطور کرامت مولانا الیاس کاندھلوی صاحب کے دست مبارک سے جاری کیا۔ جب مولانا الیاس صاحب نظام الدین کا مرکز تعمیر کروا رہے تھے تو ایک بار احباب سے فرمایا کہ اوپر کی منزل پر دو کمرے بنوانا، جب ٹھنڈے ممالک سے لوگ آئیں گے تو ان کو آسانی ہوگی۔ احباب زیر لب مسکرا دیئے کہ کہاں تو میوات میں لوگ بات نہیں سنتے اور بڑے میاں ٹھنڈے ملکوں کی بات کر رہے ہیں۔ اب یہ ان کا کشف تھا یا فراست، تاہم چشم فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ اس کام کی برکت سے ان جگہوں پر بھی اذان و نماز ہوئی جہاں روئے زمین کے وجود میں آنے کے بعد شاید پہ کہیں اللہ کا ذکر ہو ا ہو۔
میرے بھائیوں، ہمارے ایک عالم کہتے ہیں جب شیطان کسی کو دین سے بیزار کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے علما ء سے بدگمان کرتا ہے اور ان کی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، مگر مولا نا کے معاملے میں تو ہمیں کوئی لغزش بھی شاذ ہی نظر آتی ہے۔ یہ محض بدقسمتی ہے کہ لوگ مولانا طارق جمیل صاحب سے بدگمان ہوتے ہیں کہ ہر وقت خواص کے پیچھے لگے رہتے ، عام لوگوں کی فکر نہیں کرتے۔ میرے بھائیوں، قطع نظر اس بات سے کہ مولانا سال کے بارہ میں8یا 9مہینے اللہ کے راستے میں نکلے ہوتے ہیں اورکیا بادشاہ کیا گدا، نجانے کس کس کو دعوت دیتے ہیں، کہاں کہاں کی خاک چھانتے ہیں، کیا خواص کی اصلاح کی تمنا کوئی جرم ہے؟ کوئی گناہ ہے؟ کیا خواص کے ایمان کی فکر کسی پر لازم نہیں؟ ارےبھائی یہ تو سنت نبوی ﷺ ہے۔ کیا آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے نام لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں مانگا تھا؟ کیا ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے سے مسلمانوں کی کتنی نصرت ہوئی تھی، ہم میں سے کسی کو یاد نہیں؟ رسول اللہ ﷺ تو ایک تھے ، انہیں ﷺ کو ہر امیر غریب، آقا غلام کی فکر کرنا تھی، سو ان کے لیے اللہ نے اگر کوئی خاص احکام نازل فرمائے تھے تو خدارا بغیر سوچے سمجھے انہیں اپنی بدگمانی کے زیر اثر دوسروں پر منطبق نہ کریں۔ مولانا پوری امت کا درد دل میں رکھتے ہیں، نجانے کتنے عامیوں کو اللہ کی راہ پر لگا چکے ہیں، اپنی جوانی اس کام میں لگا دی اب اپنا بڑھاپا اس کام میں لگا رہے ہیں۔ اگر انہیں اللہ نے خواص سے بات کرنے کا ملکہ دیا ہے، اور ان کی بات خواص پر اثر کرتی ہے، اور وہ اپنی اس صلاحیت کے پیش نظر خواص کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں تو خدارا ان سے بدگمان ہونے کے بجائے ان کے حق میں دعا کریں کہ اللہ ان وسیلے سے ایسے لوگوں کی کایا پلٹ دے جو آگے چل کر دس مزید لوگوں کی آخرت سنوار سکیں۔ جنید جمشید، سعید انور، انضمام الحق، محمد یوسف وغیرہ اس کی بہتریں مثال ہیں۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply