معاشرے میں نیکی کا استحصال!

پنجاب پاکستان کا سب سے گنجان آباد، زرخیز اور اعلی پیدواری صلاحیتوں کا حامل صوبہ ہے۔ ملکی قسمت کا اکثر و بیشتر اہل پنجاب کے موڈ پر منحصر رہتا ہے، افرادی قوت میں خود کفیل اور ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، اسی لیے ہر شعبہ زندگی میں ایسے دسیوں لوگ ملیں گے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، یہی وجہ ہے کہ یوں تو سلسلہ نبوت ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر تمام ہوا لیکن پنجاب میں نان آفیشل میسنجر شپ نے نہ صرف جنم لیا بلکہ ایک معتد بہ حلقہ متبعین بھی بنا لیا۔ نبی، مسیح اور مہدی بھی صرف اہل پنجاب کو ہی شرف زیارت بخشتے رہے لیکن یاد رکھیے یہ سب نان آفیشل اور رانگ نمبر تھے اور رہیں گے۔ پنجاب نے تو اس میدان messenger ship میں بھی اپنا نام بنائے رکھا لیکن اس میں دوسرے صوبوں کا کنٹریبیوشن نہ ہونے کے برابر رہا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چترال جیسے خاموش خطہ ارض سے علم نبوت بلند ہوا لیکن شاید خاموشی کی نظر ہو گیا، پنجاب ہوتا تو کافی پذیرائی ملتی، ویسے اس میں بھی کوٹہ سسٹم ہونا چاہیے، عقلی پستی اور زوال کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ بہرکیف مدعی کا جسمانی جغرافیہ گویا تھا کہ حضور نارمل نہیں ہیں اس لیے غلبہ حال کی نظر ہو گئے۔۔ یہ قصہ تو تمام ہوا لیکن اس داستان میں ایک روشن کردار امام مسجد کا تھا جسے صَرف ِ نظر کیا گیا، اس کردار نے خود عوامی غیض و غضب کا سامنا کیا اور علاقہ کا امن تباہ ہونے سے بچا لیا، ان کے چند جوشیلے الفاظ جلتی پر تیل کا کام بخوبی کرتے لیکن انہوں نے تحمل اور سمجھداری کی ایک مثال قائم کی اور مجرم کو قانون کے حوالے کیا۔
اس کردار کو قطعاً بھی سراہا نہیں گیا کیونکہ ایک مولوی صاحب کی تعریف سیکولر و لبرل حضرات کی زبانی ایک باشرع مومن سے کلمہ کفر کی توقع جیسی ہے۔ مشال خان کا قتل ایک سرکاری یونیورسٹی میں ہوا اور قاتل و مقتول اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے لیکن سیکولرازم کے پرچار کاروں کا ردعمل غیر متوقع تو نہیں غیر منصفانہ ضرور تھا، جسے وہ قاتل گردانتے ہیں اس کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں، یعنی مذہب اور ملا کو اس کا قاتل بتلاتے ہیں، حالانکہ علمی حلقوں میں جانے پہچانے علماء کا رد عمل اور مذمتی بیانات سے وہ لا علم نہیں ہیں،خود کو غیر جانب دار اور معتدل بتلانے والے دراصل خود انتہا پسندی کا شکار ہیں، سیکولرازم کی تائید میں وہ بات بات پر مذہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں ، اسے انا کہیں یا عناد۔۔ بہر صورت معاشرے کے لیے مضر اور اجتماعیت کے لیے زہر قاتل ہے، اس سے گریز لازم ہے اور معاشرے کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کے قریب آنا اور غلط فہمیاں دور کرنا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔

Facebook Comments

عبدالقدوس قاضی
اپنا لکھا مجھے معیوب لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وقت لکھے گا تعارف میرا ۔ ۔ ۔ !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply