عمران خان کا نیا ٹارگٹ،آصف زردای

عمران خان کا نیا ٹارگٹ،آصف زردای
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ پاکستان میں سیاسی کردار کسی نہ کسی حوالے سے معاشی کرپشن میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بعض سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور سرکردہ سیاسی رہنما تو اس حوالے سےزبان زد عام ہیں۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں بڑا سیات دان اور رہنما وہی مانا جاتا ہے جسے تھانہ کچہری کو قابو کرنے کا ہنر آتا ہو،اور پٹواری،تحصیل دار اور ایس ایچ اوز اس کے سیاسی و معاشی قبضہ میں ہوں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون اپنا ثانی نہیں رکھتی جبکہ معاشی کرپشن میں پیپلز پارٹی کا نام بھی سر بازار لیا جاتا ہے۔تھانہ کچہری کی سیاست کےحوالے سے اگر نون لیگ مشہور ہے تو معاشی کرپشن اور کمیشن میں پیپلز پارٹی والوں کا نام بھی کسی سے کم نہیں، جبکہ مذہبی سیاسی جماعتوں میں سے مولانا فضل الرحمان کی جمعیت کے بعض سیاسی کردار بشمول مولانا صاحب بھی اسی رو میں بہہ رہے ہیں۔
یہ بات البتہ ضرور ہے کہ سیاسی مخالفین زیب داستان کے طور پر بھی معاملات کو اچھالتے بہت ہیں۔ صدر آصف علی زرداری صاحب کے سوئس اکاوئنٹس کا معاملہ ہو یا،سرے محل کا، میاں برادران کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کا قصہ ہو یا پھر پاناما لیکس کی کہانی۔یہ افسوس ناک امر تو ہے ہی کہ سیاسی قیادت ملکی دولت کے لوٹ مار میں لگی ہوئی ہے،مگر اس حوالے سے پی ٹی آئی نے دونوں سیاسی جماعتوں کا خوب ٹرائل بھی کیا اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان صاحب نے دونوں جماعتوں کو خوب ٹف ٹائم بھی دے رکھا ہے۔
پاناما کیس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ جے آئی ٹی بنائی جائے۔ اس پر پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میاں نواز شریف صاحب سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔اپوزیشن جماعتوں کی دلیل قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم کے ماتحت ادارے کیا خاک تحقیقات کریں گے۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس ایک مسئلے،یعنی وزیر اعظم صاحب سے استعفیٰ لینے کے مسئلے پر،اپوزیشن کی تمام جماعتیں یکجان ہو جائیں گی،جبکہ لاہور بار بھی وزیر اعظم صاحب سے استعفے کا مطالبہ کر چکی ہے اور لاہور بار نے اس حوالے سے وزیر اعظم صاحب کو 7 دن کی ڈیڈ لائن بھی دےرکھی ہے۔ مگر عمران خان صاحب، جو بہر حال نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مبینہ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کا روپ دھار چکے ہیں، انھوں نے آصف علی زرداری صاحب کے خلاف بھی طبل جنگ بجا دیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ، سابق صدر آصف زرداری نے وہ کارنامہ انجام دیا جو کوئی فوجی آمر بھی نہیں کرسکا پی ٹی آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ جبکہ اب میں نواز شریف کے بعد ان کے پیچھے جارہا ہوں۔دادو میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آصف زرداری نے کہا کہ مجھے سیاست نہیں آتی۔ اگر آپ کو سیاسی سمجھ ہے تو آپ نے تو وہ کارنامہ انجام دیا جو کوئی فوجی آمر بھی نہیں کرسکا۔آپ نے وہ جماعت جو چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی تھی اسے ایک چھوٹی سی جماعت بنا دیا، جبکہ پیپلز پارٹی کو چھوٹا کرنے والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ سابق صدر نے کہا کہ مجھے سیاسی سمجھ نہیں تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے ایسی سمجھ نہ دینا، جبکہ پیپلز پارٹی کو ڈکٹیٹر نہیں ہلا سکے لیکن آصف زرداری نے وہ کام کر دکھایا۔عمران خان کا مزید کہنا تھاکہ نواز شریف کی بدقسمتی کہ پاناما کا انکشاف ہوگیا اور انکشاف کیا ہوا کہ جو لندن میں اربوں کی مالیت کے مے فیئر کے اپارٹمنٹس تھے وہ نواز شریف کے نکلے جن کا ہمیں پہلے سے پتہ تھا، نواز شریف کو لوگ کہتے تھے کہ کتنا معصوم ہے لیکن میں انہیں دہائیوں سے جانتا ہوں۔
یہ امر واقعی ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے مسلسل جلسوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا خوب ٹرائل کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا کرپشن پہ اتحاد ہے اوریہ کہ دونوں بڑی جماعتوں نے آپس میں طے کر رکھا ہے کہ باری باری حکومت کریں گی۔ہمیں یہ ماننے میں کلام نہیں کہ ہم اس وقت خاندانی جمہوریتوں کی سیاست کا شکار ہیں۔اس حوالے سے عام آدمی میں عمران خان نے شعور پیدا کیا اور اس طبقے کو بھی عمران خان نے سیاسی حرکت دی جو انتخابات والے دن صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انتخابی نتیجے کا اندازہ لگایا کرتے تھے۔مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ عمران خان صاحب کے دائیں بائیں کون سے لوگ ہیں اور کیا ان کی سیاسی زندگی کسی معاشی سکینڈل سے پاک ہے؟اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب کو اپنے نئے ٹارگٹ سیٹ کرتے ہوئے ان چوروں اور سیاسی نوسربازوں کا پیچھا بھی کرنا چاہیے جو ان کی اپنی جماعت میں شامل ہو کر اقتدار کی کرسی کی تک پہنچنا چاہتے ہیں۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے ایک معیار اور پی ٹی آئی کے لیے دوسرا معیار،از خود سیاسی اقربا پروری کے مترادف ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply