تاریخی فیصلہ

تاریخی فیصلہ
تنویر احمد
ہر طرف پانامہ کا زور و شور تھا ۔’’بڑے کیس کے بڑے فیصلے‘‘ کی گھڑی آں پہنچی تھی ۔محبِ وطن ہونے کے ناتے میں بھلا کیسے اس کے سننے میں دلچسپی نہ لیتا۔لیکن دلچسپی کے انداز مختلف ہوسکتے ہیں،احباب نےتوفیصلہ کو لائیو سننے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ میرا چونکہ’’ قیلولہ‘‘ کا وقت ہورہا تھا۔تھوڑی دیر غور وفکر کرنےبعد فیصلہ کرلیا کہ قیلولہ کے معمول کو ہی جاری رکھنا ہے ،پیشِ نظر یہ تھا کہ چونکہ’’ 64سالہ نوجوان‘‘ قائد نے پانامہ کے فیصلےکو ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیادی اینٹ قرار دیدیا تھا تو سوچا کہ تھوڑا سا سستا لوں تاکہ نئے پاکستان میں نئے عزم کے ساتھ داخل ہوسکوں ۔
جب سوکر اٹھا تو اپنی آنکھوں پر یقین نا آیا کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے ، وزیراعظم کی قیادت میں پرانا پاکستان دکھائی دے رہا تھا ،جلدی سے موبائل ڈیٹا آن کیا تو ہر طرف ٹی وی رپورٹرز کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ عدالت عظمیٰ نے ’’تاریخی فیصلہ‘‘ سنا دیا اور وہ یہ تھا کہ ’’دو جج صاحبان نے وزیر اعظم کے نااہلی کے ریمارکس دئیے جبکہ تین منصفوں، عزتِ مآب کی نااہلی کی رائے قائم نہیں کرسکے۔نتیجہ :جے آئی ٹی بنائی جائے گی جو مزید تحقیقات کرکے ساٹھ دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
یقین جانئیے کہ جب میں نے یہ ’’مبینہ‘‘ فیصلہ سنا تو میرے دماغ کی ڈکشنری گھوم گئی اور اس’’ اعلامیے‘‘کو ’’فیصلہ‘‘ ماننےسے یکسر انکاری ہوگئی ۔ظلم یہ ہوا کہ اسے میڈیا پر ’’تاریخی فیصلہ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جارہاتھا ۔تب میں نے اپنے دماغ کی ڈکشنری پر اعتماد کرنے کی بجائے فوری طور پر لائبریری سے’’ فرہنگِ آصفیہ‘‘کے نام کی ڈکشنری اٹھائی اور ’’تاریخ‘‘اور ’’فیصلہ‘‘ کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرنے لگ گیا تاکہ اس ’’ مبینہ ‘‘فیصلہ کے بارے کچھ طے کرسکوں کہ واقعتاًاس پر’’ تاریخی فیصلہ‘‘ کا اطلاق درست ہے یانہیں؟
اس ریسرچ کا خلاصہ یہ نکلا کہ کہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے :’’تاریخ‘‘ اور ’’فیصلہ‘‘۔ لفظ’’تاریخ‘‘ کے معنی ٰ ڈکشنری میں لکھے ہیں :
۱۔کسی چیز کے ظہور کا وقت۲۔کسی امرِ عظیم کے وقت کا تعین۔ان دونوں معانی کے اعتبار سے جائزہ لیا گیا تومعلوم ہواکہ چونکہ عدالتِ عظمیٗ نےاس کیلئے 20فروری کے دن کا تعین کیاتھا اور اسی دن ہی یہ ظہور پذیر ہوگیا تو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ مبینہ فیصلہ ’’تاریخی‘‘ہی ہے۔اب رہی بات یہ کہ یہ ’’فیصلہ‘‘ ہے کہ نہیں ؟ ڈکشنری کے صفحات الٹ پلٹ کردیکھے گئے تو ’’ فیصلہ‘‘ کے معنی:۱۔جگھڑا چکانا،۲۔قصہ طے کرنا،۳۔بے باقی کرنا، لکھے تھے۔اب اسی تناظر میں جائزہ لیا گیا کہ آیایہ جگھڑا چک گیا یا ابھی باقی ہے،تو نتیجہ یہ نکلا کہ اس فیصلے سے اردو والا ’’چکانا‘‘ تو نہیں پایا گیا (کیونکہ اس قضیہ کو تومزید ’’لٹکانا‘‘ پایا گیاہے) لیکن پنجابی لغت کے اعتبار سےچونکہ’’ چگڑے نوں چک کےجے آئے ٹی دے گلے پا دتا گیا‘‘ تو کسی قدر اطمننان ہوا کہ ہاں چکانے کا معنی ٰ اس میں پایا جارہا ہے۔اسلئے اسے’’ فیصلہ‘‘ کہا جا سکتاہے۔دوسرے معنی لکھے تھے ’’قصہ طے کرنا‘‘ تو یہ معنی اس طرح موجود ہےکہ کہ عدالتِ عظمیٰ نے یہ طے کردیا کہ جی آئی ٹی بنائی جائے،تو چلو کچھ تو ’’طے کرنا ‘‘ پایا گیا ۔اسلئے اس اعتبار سے بھی اسے’’ فیصلہ‘‘ تسلیم کرنا پڑا۔تیسرے معنی’’ کام تمام کرنا‘‘کے تناظر میں اس فیصلے کو دیکھا جائے تو چونکہ اس فیصلے کوبنیاد بنیاد بناکر جو’ بونگیاں‘ ماری جارہی تھیں ۔ان کا کام تمام ہوگیا اب کم از کم اس کی بنیاد پر بونگیاں مارنے والوں کا کام تمام ہوگیا ۔اس ریسرچ کو پڑھ کر اب تو آپ کو بھی ماننا پڑے گا کہ واقعی یہ’’ فیصلہ ‘‘تھا اور ’’تاریخی فیصلہ‘‘ تھا۔

Facebook Comments

تنویر احمد
سچامسلمان بننے کی کوشش کررہا ہوں اسلئےسچائی کا ساتھ دینا پسند ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply