بیٹیاں ہمار افخر(عامر ہزاروی)

برادرم قادر غوری نے پچھلے سال سے ایک ہفتہ بیٹیوں کے نام منانے کا سلسلہ شروع کیا انکی یہ کاوش بہت ہی اچھی ہے، انہوں نے اپنے فیس بکی احباب سے بھی کہا کہ وہ اس مہم میں ان کا ساتھ دیں ۔ایک موقع پر وہ دلبرداشتہ بھی نظر آئے مگر انہوں نے اس کام کو جاری رکھا۔جب سے انہوں نے ہفتہ منانا شروع کیا تو سوچتا رہا کیا لکھوں ؟ ایک باپ تو نہیں ہوں کہ معلوم ہو بیٹی کیا ہوتی ہے ؟ بیٹیوں کے احساسات کیا ہوتے ہیں ؟ سوچتا رہا۔۔۔ ہفتہ سوچنے میں گزر گیا،لکھتا رہا مٹاتا رہا، بیٹیاں چیز ہی ایسی ہیں بندہ کچھ کہنے اور لکھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ مجبورا ًچودہ سو سال پیچھے جانا پڑا جہاں اللہ کے محبوب پیغمبر ﷺ کے دو واقعات آنکھوں کے سامنے آئے ، مجھے یقین ہو گیا کہ بیٹیاں فخر ہوتی ہیں۔پوچھیں کہ کیوں ؟
بطور مسلمان میرا ایمان ہے کہ دو جہاں کے سردار پیمبرﷺ سے زیادہ مقام کسی کا نہیں ہے مگر اس عظیم پیمبر کو دیکھیں وہ بیٹی کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں، صرف کھڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ فرماتے ہیں فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، نبی کے جسم کا ٹکڑا ہونا معمولی بات نہیں پھر نبی کا بیٹی کے استقبال کے لیے کھڑا ہو جانا بتاتا ہے بیٹیاں قابل فخر ہوتی ہیں۔دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے ،میرے مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ جب ابو جہل کی بیٹی سے دوسری شادی کرنے لگے تو حضرت فاطمہ نے آ کے میرے نبی سے مولا علی کی شکایت کی، بی بی فاطمہ نے کہا ابا جان علی دوسری شادی کر رہے ہیں ،آپ دیکھیں میرے نبیﷺ نے بیٹی کی خواہش کا کتنا احترام کیا ؟آپ نے دوسری شادی کو ناجائز بھی قرار نہیں دیا مگر مولا علی سے فرمایا۔۔ بلا شبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن بخدا رسول اللہ کی بیٹی اور عدوﷲ کی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہو سکتیں ۔حضرت علی نے بھی حضرت فاطمہ کی وفات تک دوسری شادی نہیں کی، بیٹی جب تڑپتی ہے تو باپ تڑپ اٹھتا ہے۔ برا ہو میرے معاشرے کے رواجوں کا ۔۔یہاں بیٹیاں اس وجہ سے قتل کر دی جاتی ہیں کہ انہوں نے پسند کی شادی کا کیوں کہا ؟ جب کسی شادی میں بیٹی کی رضا شامل نہیں ہوتی تو بیٹیوں کی زندگیاں جہنم ہو جاتی ہیں،پھونکوں کے بہانے بہنے والے آنسوؤں کو کبھی غور سے پڑھا کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ پانی دھویں کی وجہ سے نہیں بہہ رہا بلکہ آنسو دکھ کی وجہ سے بہہ رہے ہوتے ہیں۔ پیاز کاٹنے کے بہانے دیر تک رونے والی بیٹیاں چپکے سے روتی ہیں اور کسی کو دکھوں سے آگاہ نہیں کرتیں، ان سے پوچھیں وہ کتنی افسردہ ہوتی ہیں۔۔۔وہ جن کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹیوں سے ہم لذت لیتے ہیں ،اسکے پیچھے جدائی آہیں اور تکالیف ہوتی ہیں۔۔جو ماں ،باپ ،بہن، بھائی چھوڑ کے اجنبی گھر چلی آتی ہیں وہ معمولی نہیں ہوتیں۔۔۔ان عظیم بیٹیوں کی زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے تین کام ضرور کریں۔
ایک بیٹیوں سے ان کی رضا ضرور پوچھیں، شریعت اس سے منع نہیں کرتی بلکہ رضا کو لازمی شرط قرار دیتی ہے، ہم بیٹیوں کے پاؤں میں چادر ڈال کے انہیں مجبور کر دیتے ہیں یہ مجبور کرنا ٹھیک نہیں ،بیٹیوں کو مرضی کی شادی کا حق دیں،دوسری چیز جس کی بہت زیادہ ضرورت ہے وہ ہے وراثت میں حصہ دینا، ہم بحیثیت قوم مجرم ہیں، ہم بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے، ہماری بہنیں ہماری بیٹیاں اس خوف کی وجہ سے طلاق نہیں لیتیں کہ طلاق ہو گئی تو جاؤں گی کہاں ؟ طلاق یافتہ عورت کو نہ معاشرہ قبول کرتا ہے اور نہ ہی اس کے پاس جائیداد ہوتی ہے_ ہم جہیز کا سامان دیکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے حق ادا کر دیا۔۔ نہیں ہم نے حق ادا نہیں کیا بلکہ حق غصب کیا ہے، نہتی اور کمزور بہنوں اور بیٹیوں کا جو حق کھائے گا اسے رب کی عدالت میں جوابدہ ہونا پڑے گا،میری اپنے پڑھنے والوں سے گزارش ہو گی کہ یہ دو کام ضرور کریں اگر آپ نے یہ دو کام کیے تو یہ ہفتہ فائدہ مند ہو گا ورنہ یہ بھی ایک رسم کہلائے گی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply