فلسطین (7) ۔ اسرائیلی/وہاراامباکر

اسرائیلی کون ہیں؟ اسرائیلی اسرائیل ملک کے شہری ہیں۔ اس کی شہریت کسی بھی ایسے شخص کو ملتی ہے جس کے والدین میں سے کوئی ایک ملک کی شہریت رکھتا ہو۔ کسی بھی ایسے شخص کو جو ملک میں پیدا ہوا ہو اور اٹھارہ سال سے پچیس سال کی عمر میں شہریت کے لئے درخواست دے اور ملک میں پانچ سال مسلسل رہائش پذیر ہو۔ کسی بھی ایسے یہودی تارکِ وطن کو جو “واپسی کے قانون” کے تحت یہاں آئے۔

آج بارہ لاکھ “روسی” اسرائیلی ہیں جو یہاں کی نوے لاکھ آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔ یہ سب سے بڑا گروپ ہیں اور انہوں نے اسرائیل میں اپنا سب کلچر برقرار رکھا ہے۔ روسی زبان کے اخبار اور ٹیلی ویژن چینل بھی ہیں۔ اپنی سیاسی پارٹی “یسرائیل بیطینو” (اسرائیل ہمارا وطن) ہے جو رائٹ ونگ اور سیکولر ہے۔ اس کمیونیٹی کے زیادہ لوگ فلسطینیوں کے بارے میں سخت رویہ رکھتے ہیں اور انہیں کوئی رعایت دینے کے قائل نہیں۔ اس گروپ کی وجہ سے اسرائیلی سیاست کا جھکاوٗ دائیں طرف ہے۔

کئی دوسرے ممالک سے آنے والی کمیونیٹیز بھی موجود ہیں۔ ایتھیوپیا سے سوا لاکھ، انڈیا سے تقریباً اسی ہزار اور درجنوں ممالک سے آنے والے گروپ ہیں۔ اکثریت یورپیوں کی ہے۔ وقت کے ساتھ نسلیں آپس میں مکس ہو چکی ہیں کیونکہ آپس میں شادیاں بہت عام ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے آباء کے ممالک کی شناخت نہیں رکھتے۔ اسی فیصد یہیں پر پیدا ہوئے اور نصف سے زائد کے والدین بھی یہیں پیدا ہوئے ہیں۔

جب ملک بنا تو زیادہ تر لوگ یورپ سے آئے تھے۔۔ اس کے بعد لیبیا، یمن اور عراق سے اور پھر دوسرے عرب ممالک سے 1950 اور 1960 کی دہائی میں، جن میں مراکش، تیونس اور مصر سے زیادہ تھے۔ پھر ایتھیوپیا اور سوویت یونین سے۔ نئے آنے والوں کی تعداد اب بہت کم ہے۔
آبادی کا 75 فیصد یہودی ہیں۔ ان میں مذہبی بھی ہیں اور لامذہب بھی۔ (اسرائیل کے پچیس فیصد یہودی اپنے آپ کو لامذہب کہتے ہیں)۔

اکیس فیصد اسرائیلی شہری (اٹھارہ لاکھ) عرب ہیں۔ یہ بھی متنوع ہیں۔ ان میں مسلمان، کرسچن، دروز ہیں۔ ہر ایک کا اپنا سب کلچر ہے۔ مسلمان سب سے زیادہ ہیں جن کی تعداد اس کا تین چوتھائی ہے۔ مسلمانوں میں 170,000 بدو ہیں جو نیم خانہ بدوش چرواہے ہوا کرتے تھے۔ یہ جنوب میں نقب کے صحرائی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ نو فیصد کرسچن عرب ہیں جن کے اپنے کئی فرقے ہیں۔ دروز ان میں سے سب سے الگ ہیں۔

اسرائیلی آرمی میں جانا سب کے لئے لازمی ہے۔ مسلمان اور کرسچن آبادی کو اس سے استثنا ہے لیکن اگر وہ خود رضاکارانہ طور پر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔
اسرائیلی عربوں کے سیاسی اثر میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے نصف خود کو محبِ وطن اسرائیلی کہتے ہیں اور خود کو فلسطینیوں سے الگ سمجھتے ہیں۔ باقی میں سے کئی نے فلسطینی نیشنلزم قبول کر لیا ہے اور خود کو اسرائیل کے فلسطینی شہری کہلاتے ہیں۔ فلسطینی کاز کے حامی ہیں۔ اسرائیلی یہودیوں کے درمیان ان کے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔ حالیہ برسوں میں یہ کشیدگی بڑھی ہے۔ انتہاپسند یہودی انہیں “غدار” کہتے ہیں۔

عرب اسرائیلیوں کے جمہوری حقوق باقی شہریوں جیسے ہی ہیں۔ ووٹ دے سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں (موجودہ پارلیمنٹ میں اٹھارہ عرب ہیں)۔ مئیر یا جج بن سکتے ہیں۔ اظہارِ رائے اور مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی ہے لیکن ان کے خلاف تعصب برتے جانے کا مسئلہ موجود ہے۔ (اس کو اسرائیلی حکومت کے کمیشن نے 2003 میں اورر کمیشن رپورٹ میں تسلیم کیا جس میں اس کی بہتری کے اقدات تجویز کئے گئے)۔

اسرائیل میں ابتدائی بیس سال عرب اسرائیلیوں کے لئے سب سے زیادہ مشکل کے تھے۔
آج اسرائیلی یہودی اور عرب عام طور پر اپنے الگ علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ الگ سکول ہیں اور آپس میں سماجی تعلقات کم ہیں۔ اسرائیلی سوسائٹی کی یہ سب سے بڑی تقسیم ہے۔ (سیکولر اور مذہبی یہودیوں کے درمیان بھی تقسیم ہے لیکن عرب اور یہودی تقسیم سب سے زیادہ تلخ رہی ہے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب سوال یہ کہ یہودی کون ہیں؟

اسرائیلی کی اصطلاح ایک شخص کی شہریت کے لئے ہے جبکہ یہودی کی اصطلاح اس کے مذہبی یا ایتھنک پس منظر کو بیان کرتی ہے۔
یہودی کی تعریف پر خود یہودیوں میں خاصے اختلافات ہیں۔ خاص طور پر اب، جبکہ غیریہود سے شادیاں عام ہو چکی ہیں۔ اس پر تو عام طور پر اتفاق ہے کہ جو یہودی مذہب پریکٹس کرتا ہے (اگرچہ اس کے فرقوں میں خاصا فرق ہے) یا پھر جس کی والدہ یہودی ہے، وہ یہودی ہو گا۔ جدت پسند گروپ جیسا کہ اصلاحی گروپ یا تجدیدی گروپ والد سے بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے اور عام ہے کہ کوئی شخص مذہب کو تسلیم نہ کرتا ہو اور اپنی شناخت یہودی رکھے۔ یعنی یہ ایتھنک اور کلچرل شناخت بھی ہے۔ (اگرچیہ کہ یہ ایک نسل نہیں)۔ کئی یہودی (خاص طور پر اسرائیل میں رہنے والے) یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک قوم بھی ہے۔ جدید صیہونیت اسی بنیاد پر ہے۔
اس مختصر تعریف سے یہ تو واضح ہو گیا ہو گا کہ اسرائیلی اور یہودی ایک نہیں۔ ایسے اسرائیلی ہیں جو یہودی نہیں (ایک چوتھائی اسرائیلی ایسے ہیں)۔ دنیا میں کل پندرہ ملین کے قریب یہودی ہیں (یہ تعداد عالمی آبادی کا 0.2 فیصد ہے) جن میں سے اسرائیل میں ساڑھے چھ ملین کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہے جہاں پر چھ ملین یہودی ہیں۔
دنیا میں بکھری مختلف کمیونیٹیز کا اسرائیل کے بارے میں رویہ بھی متنوع ہے۔ بڑی تعداد اس بارے میں جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ لیکن خاص طور پر امریکی یہودیوں میں فلسطین کے بارے میں اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply