ذمہ دار کون؟؟عدلیہ اور فوج یا حکمران؟۔۔۔مرزا شہباز حسنین

ویسے  تو بحثییت قوم ہم بے شمار خامیوں کا شکار ہیں ۔کس کس کا رونا رویا جائے۔آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر دوسرا شخص ان خامیوں کی نوحہ گری میں مصروف ہے۔مگر حیرت ہے ہم پھر بھی سدھرنے کی بجائے بگڑ رہے  ہیں ۔اک ترقی معکوس ہے جس کی جانب ہمارا سفر تیزی کے ساتھ جاری ہے۔خامیوں کی طویل تر فہرست میں سے ایک خامی کا ذکر کرتا چلوں ۔اپنی تمام تر نااہلی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر ہم مطمئن ہو جاتے ہیں ۔میرے نزدیک یہ رویہ ہمارے معاشرے کے انحطاط کی بنیادی وجوہات میں شامل ہے۔۔یہی چلن فرد سے افراد پھر معاشرے سے چلتا ریاستی اداروں تک پہنچ کر بھی ختم  نہیں ہوتا۔اس ملک کو    چلانے میں سب سے اہم کردار سیاستدانوں کا ہے۔سیاست دان منتخب ہو کر حکومت کے سنگھاسن پر براجمان ہوکر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوتے ہی اپنی تمام خرابیوں کوتاہیوں اور نااہلی کو دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں ۔
جب  سے ہوش  سنبھالا ہے یہی تکرار سن سن کر کان پک چکے ہیں ۔موجودہ حکمران تو اپنی تمام خرابیوں کا ذمہ دار فوج اور عدلیہ کو  قرار دے رہے ہیں ۔ویسے ان سے پچھلے بھی یہی راگ الاپتے رہے ہیں ۔سیاست دان اقتدار میں آ کے اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔مجال ہے اپنے دور اقتدار میں اپنے فرائض   ادا کرنے کی کوشش کریں۔لیکن جونہی رخصتی کاوقت قریب آتا ہے ۔ان کا رونا پیٹنا شروع ہو جاتا ہے۔آج کل اس بیماری کو انہوں نے بیانیہ کا نام دیا ہے۔اس بیانیے  کا بنیادی نکتہ ہے اپنی ہر خامی کا ذمہ دار فوج اور عدلیہ کو قرار دینا۔اس بیانیہ کو قبول عام بنانے کے لیے جھوٹ کا بے دریغ استعمال اس قدر زیادہ ہے ۔اگر موجودہ دور میں گوئبلز زندہ ہوتا تو وہ بھی شرم کے مارے مر جاتا ۔مگر آفرین ہے ان بے حس گوئبلز کے پیروکاروں پر جن کو لمحہ بھر کے لئے پشیمانی نہیں ہوتی۔
موجودہ حکمران کی رخصتی قریب ہے ۔نئے الیکشن کی آمد  ہے۔اور آج کل حکمران دن رات پوری لگن کے ساتھ ہمہ وقت اپنی خامیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالنے میں مصروف ہیں ۔کاش اس سے نصف محنت اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے  پر کر لیتے تو قوم کا بھلا ہو جاتا۔عوام کو درپیش مسائل میں لوڈشیڈنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کر کے اقتدار حاصل کرنے والے حکمران لوڈشیڈنگ کے جن پر قابو پانے میں ناکام ہوگئے۔اب کہتے ہیں لوڈشیڈنگ بھی جان بوجھ کر کروائی جارہی ہے۔عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے  کہ لوڈشیڈنگ میں بھی عدلیہ اور فوج ملوث ہیں ۔جبکہ زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں ۔کیونکہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
ریاستی اداروں کو تباہ کرکے ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے والے نجانے کس منہ سے  عوام کا سامنا کرتے  ہیں ۔حکمران خود اسٹیل کے سب سے بڑے سوداگر ہیں ۔اور اسٹیل مل مسلسل خسارے کا شکار ۔وزیراعظم نجی ائیر لائن کے مالک ان کی ذاتی ائیرلائن منافع بخش ۔اور قومی ائیر لائن تباہی کا شکار ۔حکمرانوں کے ذاتی ادارے  کیوں تباہ نہیں ہوتے۔قومی ادارے ہی کیوں خسارے کا شکار ہیں ۔ذمہ دار کون ہے ؟ جواب بہت سادہ ہے حکمران جن کی ذمہ داری تھی ۔ریاست اور ریاستی اداروں کو چلانا۔کیا چیف جسٹس نے اور آرمی چیف نے ان کو روکا تھا؟کیاعدلیہ اور فوج ملوث ہیں پی آئی اے اور سٹیل مل کی بربادی میں ۔پاور پلانٹ کی تعمیر میں عدلیہ اور فوج نے روکاوٹ ڈالی؟
گوئبلز کے چمونے کس قدر ڈھٹائی سے بیانیہ بیانیہ کھیل کے اپنی ذمہ داریوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالنے میں مصروف ہیں ۔جب کہ یہ تمام ذمہ داری حکمرانوں کی ہے ۔ریاستی امور اور ادارے  حکمرانوں کے ماتحت ہیں ۔ان کی خرابیوں کو درست کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اور  ابھی صحت اور تعلیمی اداروں کی حالت زار کی نوحہ گری باقی ہے ۔طیب اردوان کی حکومت نے عوام کے مسائل کے خاتمے کی سنجیدہ کوشش کی تو عوام نے اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت سے روک دیا۔ہمارے نااہل حکمران اپنی اہلیت ثابت کریں ۔اپنی ناکامیوں کا ملبہ عدلیہ اور فوج پر گرا کر اب قوم کو فریب دینا بند کریں ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply