بلو رانی ۔۔۔۔محمد کاشف

تصویر میں  سلام کرنے والا میں ہوں اور میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ بھینس کا نام بلو ہے۔
میں شاید پانچویں جماعت میں ہوں گا۔ ہمارے محلے میں مسیحی برادری کی تعداد زیادہ تھی۔ انکل رحمت، ایک مسیحی، میرے والد کے دوست، مکمل ترین سیاہ رنگت کے مالک، لیکن یاروں کا یار، اپنے کسی مسیحی  دوست شریف مسیح کو لے کر ہمارے گھر  آئے۔ اس کی بیٹی کی شادی تھی، اس کے پاس ایک بھینس تھی، جو اسے بیچنی  تھی۔ بھینس کا نام بلو تھا۔ سودا ہو گیا کوئی پانچ، ہزار میں۔ یہ 1985 یا 1986  کی بات ہو گی۔ اگلے دن وہ انکل بھینس لے آیا۔ میں بہت خوش ہوا۔ ابا جی نے اسے پانچ ہزار دیے۔ اس نے پیسے پکڑے، کچھ دیر سر جھکا کر انہیں دیکھا، پھر سارے نوٹ نیچے پھینک کر بلک بلک کر رونے لگا۔ نوٹ اکھٹے کیے ۔ جیب میں ڈالے اور بھینس کو دیکھے بغیر روتا ہوا چلا گیا۔ بلو کی  ماں، بلو کی پیدائش کے کچھ دیر بعد، کسی انفیکشن سے مر گئی تھی۔ چاچے شریف مسیح نے اسے فیڈر سے دودھ پلا کر خود ماں بن کر پالا تھا۔ اس قدر شدید رونے کی وجہ سمجھ میں نہ آئی، تاہم میں بہت دکھی ہوا۔

اگلے دن میں صبح سویرے بھینس کی خوشی میں جلدی  اٹھا، دیکھا تو بھینس اپنا کلہ اکھاڑنے کے قریب تھی۔ میرے شور مچانے پر بھینس بروقت قابو آ گئی۔ بھینس کو دیا ہوا پانی اور چارہ بھی ویسے کا ویسا پڑا تھا۔ وہ کچھ بھی کھانے اور پینے سے انکاری تھی۔ ابا جی نے اسے خوب مارا، تھک ہار کر پولیس والی ننگی اور گندی گالیاں دیں۔ الغرض ہر حربہ ناکام۔ چاچے شریف مسیح  کو پیغام بھجوایا۔ شام کو وہ اور اس کی  بیٹی اور بیوی بھی ساتھ تھے۔ بلو انہیں دیکھتے ہی زور زور سے ڈکرانے لگی۔ بھینس نے پورا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ چاچے نے بھینس کی رسی کھول دی۔ وہ سب اس سے لپٹ گئے۔ سب نے اس سے بہت باتیں کیں ۔ چاچے  نے اسے بتایا کہ اس کی گڈی(چاچے کی بیٹی جس کی شادی  ہونے والی تھی) بھی دور جا رہی ہے۔ اور روز روز سے رونے لگا۔ بلو نے گردن ہلا کر گڈی کو دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ بلو کی آنکھوں میں زار و قطار  آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ وہ سب جانے لگے۔ بلو ان کے پیچھے چل پڑی ۔ دو چار قدم چلے، میں اور ابا رسی کے ساتھ ساتھ پیچھے پیچھے۔ چاچے شریف مسیح نے رسی میرے ہاتھ سے لی۔ اس کے گلے میں ڈالی اور دوبارہ کلے سے باندھ دیا۔ چاچے نے بھینس کو ادھر رہنے کا کہا۔ وہ چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اکثر اس کے ساتھ ہوتا۔ اس کا چارہ، نہلانا، پھر بعد میں دودھ دوہنا،زیادہ تر میرے ذمہ تھا۔ وقت گزرا۔۔ بلو کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام میں نے رانی رکھا۔ وقت کا چکر کچھ بہت تیز چلا۔ والد صاحب شدید بیمار تھے۔ دوائیوں کے لئے بھینس آخری بیچنے والی چیز تھی۔ ہم نے ایک گجر کو وہ بھینس بیچ دی۔ ۔ پیسے میرے ابا کی جھولی میں، ہم دونوں کی آنکھیں  آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں ۔ ہم دونوں اسے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ساری رات کانٹوں  پر بس ر ہوئی ۔ اگلے دن عصر کے بعد گجر صاحب واپس آ دھمکے ۔ بھینس دودھ دینے اور چارہ کھانے سے انکاری ہے۔ بھینس لے لیں، اور اس کی رقم اسے واپس کر دیں۔  ۔ میں نے  سائیکل پر ابا کو پیچھے بٹھایا اور گجر کی ڈیرے پر لے آیا، ابا اور مجھے دیکھتے ہی بھینس نے پورے باڑے کو سر پر اٹھا لیا۔ اس بار چاچے شریف کی جگہ میں اور ابا تھے۔ مگر کہانی وہی آنسوؤں بھری، پرانی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور ابا جی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میں نے اس کی رسی کھول دی۔ گجر نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا۔ بلو چارپائی کے پاس آ گئی۔ چاچے شریف والی ساری کہانی میں نے اور ابا نے ہانپتے ہانپتے اسے سنائی۔ سارے گجر خاموشی سے ہمیں دیکھ رہے  تھے اور میں، ابا اور بلو بلک بلک کر رو رہے تھے۔ واپسی ایک عذاب تھی۔ چاچا شریف مسیح کیوں رو رہا تھا۔۔ واپسی پر سمجھ آیا۔ مجبوریاں، بلو، رانی اور گڈی سب کو کھا جاتی  ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply