معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (قسط دوئم)

گزشتہ قسط میں ہم نے روپے کی قدر کم کرنے یا ڈی ویلیویشن کی اجمالاً بات کی تھی۔ اس اجمال کی تھوڑی سی تفصیل بیان کرنا ضروری ہے کیونکہ عوام کے ذہن میں کرنسی کی قدر میں کمی ایک بھیانک تصور کے طور پر راسخ ہے۔ جدید اقتصادیات میں کرنسی کی ڈی ویلیویشن مطلقاً کوئی بری چیز نہیں، یہ اچھا اور برا دونوں طرح کا فیصلہ ہو سکتا ہے، جو ان حالات اور سیاق و سباق پر منحصر ہے جن کے تحت یہ اقدام اٹھایا جاتا ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی جہاں ایک جانب برآمدات کو مسابقتی بنانے کا ایک ذریعہ ہے ، وہیں نامناسب ماحول میں کیا گیا اقدام افراط زر میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس پر اپنی کرنسی کی قدر بڑھانے کے لئے امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کا شدید دباؤ ہے۔ اسی طرح جاپان میں بھی جب “ین” کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہاں خوشی کے بجائے تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ وجہ ہے کہ یہ دونوں بنیادی طور پر برآمدی معیشتیں ہیں، جن کو اپنی کرنسی کی قدر بڑھنے سے اپنی پیداواری لاگت کو مسابقتی رکھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ چین کو ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی پیداوار کے لئے درکار خام مال کی کثیر مقدار ملکی وسائل سے ہی دستیاب ہے، جس کے باعث اس پر بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم رہتا ہے۔ اس تفصیل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی برآمدات کے لئے یقیناً فائدہ مند ہے، تاہم ایسا اسی صورت میں کارگر ثابت ہوسکتا ہے جب افراط زر کی شرح کم ہو، بیرونی ادائیگیوں کے لئے زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں اور برآمدی پیداوار کے لئے درکار خام مال کی زیادہ تر مقدار مقامی وسائل سے دستیاب ہو۔ پاکستان کی برآمدات کا تقریباً 55 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے جس کے لئے خام مال مقامی وسائل سے باآسانی دستیاب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری افراط زر کی شرح طے شدہ ہدف سے کم ہے، جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر بھی فی الحال مستحکم ہیں۔ اس لئے پیداواری لاگت کو مسابقتی کرنے لئے اس وقت روپے کی قدر میں کمی کا خطرہ مول لیا جاسکتا ہے۔
تجارتی خسارہ کا تجزیہ کرنے کے لئے دوسرا اہم پہلو جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے کچھ اقدامات کر بھی رہی ہے یا مکمل طور پر غافل ہے؟ چونکہ ٹیکسٹائل سیکٹر ہماری برآمدات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لئے حکومت اس سیکٹر کو مراعاتی پیکج سے پہلے ہی نواز چکی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو یورپی یونین سے مراعاتی سہولت بھی مل چکی ہے جسے عرف عام میں جی ایس پی پلس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکسٹائل سیکٹر ان مواقعوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری پیداواری لاگت ہے۔ ہم اکثر اپنا مقابلہ بنگلہ دیش سے کرتے ہیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں ہمارے مقابلے میں بنگلہ دیش میں کم از کم اجرت کیا ہے؟ بنگلہ دیش میں آج بھی کم از کم اجرت 5500 ٹکا ماہانہ سے کم ہے جو پاکستانی روپوں میں بمشکل 6700 روپے بنتے ہیں۔ پھر بنگلہ دیش کو بہت سے ممالک میں غربت کی زیادتی کی وجہ سے خصوصی رعایتیں حاصل ہیں۔ ۔مثلاً بنگلہ دیش آج بھی عالمی بینک کی غربت کے تدارک کے لئے خصوصی گرانٹ وصول کرتا ہے، جبکہ پاکستان اس فہرست سے 20-15 سال پہلے ہی خارج ہو چکا ہے۔ پاکستان میں آج کم ازکم اجرت 14،000 روپے ماہانہ ہے، جس کو عمران خان جیسے بڑھک باز 20ہزار ماہانہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی پیداواری لاگت کو مسابقتی بنانے کے لئے دوسرا راستہ توانائی کی قیمتوں کو کم کرنا ہے۔ حکومت اس حوالے سے پہلے ہی تھر کول اور کوئلے سے چلنے والے دیگر منصوبہ جات پر کام کررہی ہے جس سے امید ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہو سکے گا۔
پاکستان کی برآمدات میں دوسرا بڑا حصہ زرعی اجناس اوران سے بنی مصنوعات کا ہے۔ بدقسمتی سے زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس بھی ایک حساس مسئلہ بنا ہوا ہے، جس کی وجہ سے اس سیکٹر کو کوئی مراعاتی پیکج دینا خاصا مہنگا سودا ہوتا ہے کیونکہ ان مراعات کا مالی بوجھ دیگر سیکٹرزبرداشت کرتے ہیں، جبکہ اس سے حاصل شدہ فوائد محض زمیندار طبقے تک محدود رہتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے زرعی پیداوار میں بہتری کے لئے کسان پیکجز کا اجراء کیا ہے، جس سے امید ہے کہ آئندہ دنوں میں زمیندار طبقہ اپنی پیدواری صلاحیت میں بہتری لا سکے گا۔ پاکستان کی زرعی برآمدات کو بین الاقوامی منڈیوں میں اجناس کی قیمتوں کی ارزانی کی وجہ سے بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، مثلاً اگر ہم موجودہ حکومت کے اب تک کے 3.5سال کا گزشتہ حکومت کے اسی عرصے سے تقابل کریں تو جون 2008 سے لےکر دسمبر 2011تک بین الاقوامی مارکیٹ میں کپاس اور چاول کی قیمت بالترتیب 1980 ڈالر فی ٹن اور 308ڈالر فی ٹن رہی ، جبکہ جون 2013 سے لے کر دسمبر 2016 تک انہی اجناس کی قیمت بالترتیب 1540 ڈالر فی ٹن اور 264 ڈالر فی ٹن رہی۔ یوں ہماری برآمدات مقدار کے علاوہ مالیت میں بھی کمی کا شکار رہیں۔ قیمتوں کی اسی ارزانی کی وجہ سے کاشتکار بھی مشکل کا شکار رہا کیوں کے اس کو اپنی لاگت بھی پوری کرنا مشکل ہوگیا، سو نامناسب دیکھ بھال کے اثرات پیداوار میں کمی کی صورت سامنے آئے۔ اب کچھ عرصہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں قیمتوں میں نسبتاً استحکام ہے جس کی وجہ سے امید ہے کہ زرعی برآمدات میں بہتری آ سکے گی۔
تجارتی خسارے کا تیسرا آہم پہلو درآمدات کا تجزیہ ہے۔ ہماری درآمدات گزشتہ 3/4 سالوں سے 40 سے 41 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم ہیں، بلکہ اگر انفلیشن ایڈجسٹ کر کے دیکھا جائے تو درآمدات میں کچھ کمی ہی ہوئی ہے۔جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ اس درآمدی بل کا بڑا حصہ پیٹرولیم مصنوعات پر مبنی ہے جس میں تھر کول کے بعد کچھ کمی متوقع ہے۔ اسی طرح درآمدات کا تقریباً 16 فیصد پلانٹ اینڈ مشینری پر مشتمل ہے ۔ اس ضمن زیادہ تر درآمدات پیداواری صلاحیت میں بہتری اور اضافے کے لئے منگوائے جا رہے آلات کی ہیں جو آگے چل کر برآمدات بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ مرکزی مسئلہ فی الوقت مگر لگژری اشیاء کی مسلسل بڑھتی درآمدات ہیں، جو بیرونی ادائیگیوں پر دباؤ کی اصل وجہ بھی ہیں۔ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو تجارتی خسارہ کم کرنے کا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ حاصل اس تمام عرضداشت کا یہ ہے کہ مجموعی طور پر تجارتی خسارے کی صورتحا ل تشویشناک تو ہے، تاہم قابو سے باہر نہیں کیونکہ ابھی تک بیرون ملک سے ترسیلات زر اور بالاواسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سہارا دے رہے ہیں، اور مزید سپورٹ کے لئے حکومت کے پاس بانڈز جاری کرنے کا آپشن موجود ہے۔ تاہم اس صورتحال سے ایک ضمنی بات جو واضح ہو کر سامنے آتی ہے وہ اس وقت ہمارے خلیجی ریاستوں سے تعلقات ہیں۔ پچھلی قسط میں بیان کیا جا چکا ہے ہے کہ ترسیلات زر کا 65 فیصد خلیجی ریاستوں سے آتا ہے، سو ہمیں اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے حکومت کی اچانک گرم جوشی کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے اور حسب معمول تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی احمقانہ قراردار سےاقتصادیات اور خارجہ امور پر ان کے عبور کا اندازہ لگا لینا چاہیئے!(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply