ماں بولی یا احساس کمتری۔۔علی انوار بنگڑ

کسی  بھی قوم کی پہچان ان کی زبان، ان کے رہن سہن اور ثقافت سے ہوتی ہے۔ہر قوم اپنی ثقافت سے محبت کرتی ہے اور یہ بات باعث ِ فخر بھی ہونی چاہیے۔ جب بھی کسی قوم کو اجتماعی طور پر غلام بنایا جاتا ہے تو اس سے اس کی شناخت چھین لی جاتی ہے۔ اس قوم میں اس کی زبان کے بارے اور ثقافت کے بارے غلط پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور ان کو ان کی شناخت سے بدظن کیا جاتا ہے، اور اس نتیجے میں جو قوم وجود میں آتی ہے وہ گونگی، بہری اور اندھی ہوتی ہے، اُن پر حکومت کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے، حکمران من مرضی کے فیصلے کرکے عام عوام کے بنیادی حقوق کا استحصال کرتی ہے،
برصغیر میں انگریز دور میں کی جانے والی کارستانیوں کے زیرِ  اثر پنجاب میں اب ایک ایسی نسل وجود میں آگئی ہے جو اپنی شناخت، زبان اور ثقافت پر شرمندہ ہے، پنجاب کے باسی خصوصاً پڑھا لکھا طبقہ اسکول، کالجز اور دفتری جگہوں پر اپنی زبان بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، وہ گھر میں اپنے بچوں کو اپنی ماں بولی نہیں سکھاتے، سکھائیں بھی کیسے، جب اسکول اور کالجز میں مادری زبان میں بات کرنے پر جرمانے لگاۓ جائیں  گے تو کون اتنی ہمت کرے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں کا دانشور طبقہ، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما تک اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اپنی زبان کو ترجیح نہیں دیتے ہیں، وہ اپنی زبان اور ثقافت کی بقاءکیلئے کھلم کھلا بولنے سے ڈرتے ہیں یا شرم محسوس کرتے ہیں، اور جو چند لوگ مقامی زبانوں کی بات کرتے ہیں وہ آپس میں سینگ پھنسا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ بھلا کرنے کی بجائے الٹا نقصان کررہےہیں، لوگوں میں نفرت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں،ہمیں اس وقت اتحاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہونے والی  ناانصافیوں پر آواز بلند کرسکیں، نہیں تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجدوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، مقامی زبانوں اور ثقافتوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ مل کر آواز بلند کریں تاکہ ہماری شناخت ختم نہ ہواور آنے والی نسلیں ہماری طرح گونگی بہری نہ ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply