ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا حصول۔۔عروج ندیم

اگر آپ سے سوال کیا جائے کہ کیا آپ ہمیشہ کسی اور پر انحصار کرسکتے ہیں؟ تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ یقینا آپ کا جواب ہوگا بالکل نہیں۔ کیوں کہ انسان غلامی نہیں خود مختار زندگی گزرنا چاہتا ہے۔
تو وہ 10 کروڑ مسلمان کیسے برطانیہ اور ہندوؤں پر انحصار کرسکتے تھے؟ کیسے وہ ایک ایسے ملک میں رہ سکتے تھے جہاں ان کو ان کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تک نہیں تھی۔
قائداعظم یہ بات جانتے تھے کہ مسلمان اسوقت تک پُرسکون نہیں رہ سکتے جب تک وہ ایک ایسا ملک حاصل نہیں کرلیتے جو نظریہ اسلام کے مطابق ہو۔ اور اس وقت پاکستان اس ہندوستان میں اسلام کی بقا کا ضامن تھا جیسا کہ 12 جنوری 1945ء کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس ،پشاور سے ایک پیغام میں قائداعظم نے فرمایا:
*Message to Muslim Students’ Federation Conference, Peshawar, Matheran 12 Jun 1945
“Only one course open to Musalmans” – “To fight for Pakistan, to live for Pakistan”
I have often made it clear that if the Musalmans wish to live as honorable and free people, there is only one course open to them, to fight for Pakistan, to live for Pakistan, and, if necessary, to die for the achievement of Pakistan, or else, Muslims and Islam is [sic] doomed………Pakistan not only means freedom and independence but Islamic Ideology which has to be preserved, which has come to us as a precious gift and a treasure, which, we hope, others will share with us.”﴿۹۳﴾
’’میں نے اکثر اس کی وضاحت کی ہے کہ اگر مسلمان ایک با عزت اور آزاد قوم کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے وہ یہ کہ پاکستان کے لیے لڑیں،پاکستان کے لیے زندہ رہیں اور اگر ضروری ہو تو پاکستان کے حصول کے لیے مر جائیں یا پھر مسلمان اور اسلام تباہی کو پہنچیں گے۔پاکستان کا مطلب محض آزادی نہیں بلکہ ’’اسلامک آئیڈیولوجی‘‘یعنی اسلامی نظریہ ہے جس کی حفاظت کرنی ہے جو ہم تک ایک قیمتی اثاثہ کے طور پر پہنچی ہے۔جس کے بارے میں ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے ہمارے ساتھ اس میں حصہ دار بنیں گے۔‘‘
یہی وہ نظریہ تھا جس پر ہمیں غلامی سے آزادی ملی.
پاکستان ہمارے محبوب قائد محمد علی جناح اور ہمارے آباؤ اجداد کی انتھک قربانیوں اور کوششوں کے نتیجے میں آزاد ہوا۔ علامہ اقبال نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا اور اس بات کی تشریح کی کہ اسلام مساوات اور سماجی انصاف کا علمبردار ہے. حصول پاکستان کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا. کتنی ماؤں کے سامنے انکے بچے قتل کر دے گئے. کتنے ہی بے بسوں کے سامنے انکے خاندان کو مکانوں میں بند کر کے نظر آتش کر دیا گیا. یہ 27 رمضان کا دن تھا جب برصغیر کے مسلمان اپنی ایک زمین حاصل کرنے کے قابل ہوۓ تھے جہاں وہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذار سکتے تھے۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یہ وہ دن تھا جس دن پاکستان کو ہندوؤں اور انگریزوں کی ظالم حکومت سے آزادی ملی تھی۔ لہذا ، ایک ذمہ دار ، محب وطن شہری کی حیثیت سے مستقبل میں ہمیں بہت سے کام کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اس پاکستان کی قدر کی ضرورت ہے.
آج ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہے. پاکستان کے سینکڑوں مسائل ہے لیکن اگر ہم اس کا زمہ دار سیاست دانوں کو دیں گے اور اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے تو پاکستان کے مسائل کبھی حل نہیں ہونگے ہمیں اقبال کا شاہین بننے کی ضرورت ہے.
بقول شاعر
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا،
ماضی تو اچھا ہے مگر حال کھو گیا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی آزادی ور آسائش مہیا ہے مگر اسکے پیچھے قائداعظم کی مسلسل جدوجہد اور دوسرے اکابرین کا ایثار شامل ہے اور ان سب کا ایک ہی مقصد تھا “ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا حصول”. ہمیں اس ملک کو رہنے کے لئے ایک بہتر مقام بنانا ہے۔ یہاں ، بہتری کی توقع ہم امن و امان، پختہ اور بنیادی انفراسٹرکچر، صحت، تعلیمی سہولت اور تکنیکی ترقی سے ممکن اور یہ تب ممکن ہوگا جب پاکستان کا ہر شہری کسی دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے کے بجائے اپنے حصے کا کام کرے گا اللہ تعالی ہمارے اس ملک کے نوجوانوں کو اس کی قدر کی اور خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply