آزادی۔۔ولائیت حسین اعوان

آزادی ایک احساس کا نام ہے۔ آزادی کی وادی میں داخل ہونے کے بعد اسکی لذت محسوس کرنے اور اس سے مستفید ہونے سے دل و دماغ کو جو سکون محسوس ہوتا ہے وہی اصل آزادی ہے۔

آزادی ایک ایسا نغمہ ہے جس کے سُر خودبخود بنتے اور گلے سے نکلتے جاتے ہیں۔

آزادی ایسا تاج ہے جس کے بوجھ سے سر جھکتا نہیں فخر اور تشکر سے بلند ہو جاتا ہے

آزادی ایسا  زیور ہے جو جسم پر اس وقت تک چمکتا رہتا ہے جب تک اسکی قدر رہتی ہے۔

آزادی اس بادشاہ کی طرع ہے جو اپنی سلطنت کا بلاشرکت غیرے مالک ہوتا ہے۔آزادی شرک برداشت نہیں کرتی۔اپنے ساتھ غلامی اور غلامی کی سوچ اس کے لیئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔

آزادی فقط علیحدہ ملک ہی نہیں۔غیر ملکی آقاوں سے سرزمین کو آزاد کرانا ہی نہیں بلکہ آزاد ملک میں گھٹن سے پاک ماحول میں شعور کی کھڑکیاں کھولے کھلی فضا میں سانس لینے کا نام ہے

شخصیت پرستی تعصب پسندی بدعقلی اندھی تقلید فضول منطق غلامانہ سوچ خوشامد پسندی سے بچنا بھی آزادی ہے۔ جھوٹ کی حوصلہ شکنی اور سچ سے بغل گیر ہونے کا نام آزادی ہے۔انسانی فکر سوچ تخیل مزہب مسلک قومیت لالچ اورشخصیت پرستی سے پاک ہونا آزادی ہے۔

جہاں  زندگی خوف خطرے خدشے بے یقینی کی فضا میں گزرے جہاں سماجی تفریق ہو جہاں اختلاف رائے پر پہرے ہوں تحقیر ہو اور گولیاں ہوں وہاں غلامی کا رقص تو ہوتا ہے آزادی کی دھمال نہیں۔

آزادی کا باغ جنگل کی ضد ہے جہاں کا قانون جس کی لاٹھی اسکی بھینس ہوتی ہے۔آزادی ایک ایسا باغ ہے جہاں ہر پھل پھول کھلنے میں آزاد ہوتا ہے۔

ملک پاکستان کو قائم کرنےکا مقصد واضح تھا۔ایسا ملک جہاں ہر شہری ملک کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے آزادانہ  زندگی گزار سکے۔اس آزادی کی قیمت ہزاروں بے گناہوں کا خون تھا۔سخت مشقت تھی۔مالی قربانیاں تھیں۔ہجرتیں تھیں۔یہ تمام مشقتیں اس لیئے نہیں تھیں کہ بڑی سرکار کی غلامی سے نجات حاصل کر کے ایک اور چھوٹی سرکار اور چند سرمایہ داروں وڈیروں کے تسلط کو ہمیشہ کے لیئے ہنسی خوشی قبول کر لیا جائے۔

نوجوان نسل جب تک آزادی کی قدر و قیمت اور اسکے حاصل کرنے کے پیچھے فلسفہ و قربانی کو نہیں جان پائیں گے مستقبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد حقیقی مقاصد سے دور ہوں گے۔

قائد کی روح آج بھی نوجوان نسل سے مخاطب ہو کر گویا کہہ رہی ہو۔۔۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی کو بچا کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

آزادی کو غفلت لاپرواہی غیر سنجیدگی بے حسی بے وفائی بے شعوری تعصب نااتفاقی اور حرص سے سخت نفرت ہے جہاں قوم میں بحثیت مجموعی یہ بیماریاں ہوں گی آزادی وہاں سے روٹھ جائے گی اور غلامی پستی کا راج ہو گا۔

یوم آزادی منانے کے ساتھ اسکا اصل مقصد لازمی مدنظر رکھنا چاہیے۔اگر آپ کسی کی آواز تحریر خیالات رائے سوچ حق دبا کر جشن آزادی مناتے یہ سوچیں کہ ہم آزاد ملک میں رہ رہے ہیں تو یہ اپنے ساتھ دھوکہ اور دوسرے کے ساتھ ظلم و ناانصافی ہے۔آزادی ایسی سوچ پر دور کھڑی غضبناک اور غم ناک ہوتی ہے اور غلامی اپنی کامیابی پر بھنگڑے ڈالتی ہے۔

خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھِلے، وہ کھِلا رہے صدیوں
یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو​

Advertisements
julia rana solicitors london

14 اگست 2020۔۔جشن آزادی مبارک
پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply