غائب (21)۔۔وہاراامباکر

ساتھ لگی تصویر   میں درمیان کے سیاہ نشان کو تیس سیکنڈ تک گھورتے رہیں۔ ساتھ کے رنگ نگاہ سے غائب ہو جائیں گے۔ یہ ٹروکسلر ایفیکٹ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ہماری بصارت کے peripheral vision میں جو ساکن ہے جو غائب ہونے لگے گا۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ ویژوئل سسٹم کی دلچسپی حرکت اور تبدیلی سے ہے۔ اچھی انفارمیشن وہ ہے جو تبدیل ہو رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن ہمارے گرد دنیا عام طور پر ایسے ہی غائب تو نہیں ہو جاتی۔ وہ کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تک یہ کہ دنیا ہارڈ edges پر مشتمل ہے اور ویژوئل سسٹم ان کو پکڑ سکتا ہے لیکن اس کی زیادہ گہری وجہ ہے۔ اگرچہ آپ کو عام طور پر آگاہی نہیں ہوتی لیکن آپ کی آنکھیں مسلسل حرکت میں ہیں۔ اپنے کسی دوست کی آنکھ کا مشاہدہ کریں۔ آپ نوٹ کریں گے کہ اس کی پتلیاں اوسطاً ایک سیکنڈ میں تین بار حرکت کرتی ہیں اور اگر زیادہ باریک بین مشاہدہ کیا جائے تو یہ ان کے درمیان میں بھی مائیکرو حرکات میں مصروف ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہ حرکات ہیں جو ہمارا وژن تازہ رکھتی ہیں۔ مکمل طور پر لاشعوری طریقے سے، آنکھ یہ محنت جاری رکھے ہوئے ہے تا کہ منظر بدلتا رہے۔ لیکن کیوں؟ اس لئے کہ کچھ بھی ایسا جو ریٹینا کے مقابلے میں ساکن ہو، وہ غائب ہو جائے گا۔
اس کا مشاہدہ کیسے کریں؟
اگر آپ کانٹیکٹ لینز پہنتے ہیں تو مارکر سے اس پر چھوٹا سا نشان لگائیں۔ جب آپ لینز واپس پہنیں گے تو یہ نشان نظر آئے گا لیکن زیادہ دیر کے لئے نہیں۔ یہ غائب ہو جائے گا۔ یہ ہمیں اس بات سے آگاہی دیتا ہے کہ دماغ کی دلچسپی تبدیلی سے ہے۔ جو تبدیل نہیں ہوتا، وہ دنیا کے بارے میں خاص انفارمیشن نہیں دے رہا۔ اہمیت اس کی ہے جو بدل رہا ہے۔
اگر آپ کانٹیکٹ لینز نہیں پہنتے تو بھی مسئلہ نہیں۔ آپ ایسے تجربے کا پہلے سے ہی حصہ ہیں۔ آپ کو اس کا علم نہیں۔ آپ کے ریٹینا کے عین سامنے خون کی رگیں ہیں۔ اصل میں جب بھی آپ دیکھتے ہیں تو یہ جال ہر شے کے اوپر ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ فوٹوریسپیٹرز کے عین سامنے ہے۔ لیکن یہ آپ کی شعوری آگاہی تک نہیں پہنچتا۔ کیونکہ آپ آنکھ کو جتنی بھی حرکت دے لیں، یہ اسی کے ساتھ حرکت کرے گا۔ اور کسی جادوئی کرتب کی طرح غائب رہے گا۔
آنکھ کے عین سامنے اس جال کو اس وقت دیکھا جا سکتا ہے جب آنکھوں کا ڈاکٹر معائنہ کرنے کے لئے اچانک تیز روشنی آنکھ میں ڈالے۔ اس وقت عجیب سے زاویے سے بننے والے سایے کا مشاہدہ ویژوئل سسٹم بنا لے گا اور آپ اس سے آگاہ ہو سکیں گے جو تمام عمر آپ کی نگاہوں کے عین سامنے رہا ہے۔ اچھوتے زاویے سے ڈالی جانے والی روشنی اس کو دکھا دے گی جو تمام عمر آنکھ کے عین سامنے ہوتے ہوئے بھی غائب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساکن کو نظرانداز کر دینے کی بائیولوجیکل حکمتِ عملی کا مطلب یہ ہے کہ حرکت کرتی یا تبدیل ہوتی شے کو ڈیٹکٹ کر لینا آسان ہو جاتا ہے۔ رینگنے والے جانور ساکن شے کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ اگر آپ ان کے سامنے بھی کھڑے ہوں لیکن حرکت نہ کریں (اور وہ جاندار بھی حرکت نہ کرے) تو ان کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ آپ سامنے ہیں۔ اور ایسا سسٹم کافی ہے۔ اتنا فائدہ مند ہے کہ رینگنے والے جاندار کروڑوں سال سے پھل پھول رہے ہیں۔ (ممالیہ آنکھوں کی ہر وقت حرکت کے حربے کی وجہ سے ساکن اشیاء کو دیکھ لیتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس کیلیبریشن کی حدود ہیں؟ آبشار کو گرتا دیکھ کر سراب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دیکھتے وقت یہ ساکن نہیں لگتی۔ لیکن اگر اسے زیادہ دیر تک دیکھا جائے؟ دو مہینے؟ دو سال؟ تھیوری یہ کہتی ہے کہ اگر اسے زیادہ دیر تک دیکھتے رہا جائے تو ادراک کی تبدیلی شارٹ ٹرم نہیں رہے گی۔ طویل المدت ہوتی جائے گی اور سسٹم کے گہرے ترین لیولز تک پہنچ جائے گی۔ جانداروں میں انفارمیشن سٹوریج کا ایک cascade ہے، جس کی سٹوریج وقت کے لحاظ سے مختلف لیولز پر ہے (اس پر تفصیل پھر آئندہ)۔ یہاں تک کہ گرتی آبشار غائب ہو جائے گی۔
اور اس سے ایک اور خیال جنم لیتا ہے جو پہلی بار سننے میں بے تُکی آوارہ خیالی لگے لیکن منطقی طور پر درست ہے۔ کیا ہمارے دنیا کی رئیلیٹی میں وہ حصے ہیں جو اس قدر واضح ہیں کہ وہ بالکل غائب ہیں؟ تصور کریں کہ کوئی آفاقی بارش برس رہی ہے جو تمام عمر برستی رہے گی۔ بالفرض اگر ایسا ہو تو یہ ہمیں کبھی بھی نظر نہیں آئے گی۔ کسی بھی حس کے ذریعے نہیں۔ بصارت سمیت حسیات کا پورا سسٹم اس کو زیرو پوائنٹ پر سیٹ کر دے گا۔ ہمیں صرف اس وقت اس کا معلوم ہو گا جب یہ بند ہو جائے۔ اور اس وقت ہمیں ایسا لگے گا، جیسا کہ ایسی بارش ہو رہی ہے جو اوپر کی طرف جا رہی ہو۔
ایسا ہی تمام حسیات کے ساتھ بھی ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی آفاقی الارم پوری کائنات میں مسلسل بج رہا ہے اور اس کا مسلسل ایک ہی ردھم ہے۔ یہ نظرانداز ہو جائے گا۔ اگر یہ بجنا بند ہو گیا تو پھر ہر ایک کو ایک الارم سنائی دینے لگے گا۔ لیکن ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں ہو گا کہ “بیرونی دنیا” میں الارم بجنا شروع نہیں ہوا بلکہ رکا ہے جس کے اثرات کو ہم سن رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہمارے سر کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔
(وہ پیچھے سے کسی نے سوال پوچھا ہے کہ اگر ایسا ہو تو کیا ہم ایسی حقیقت کو آلات کے ذریعے نہیں معلوم کر لیں گے؟ اچھا نکتہ ہے لیکن اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم نے اپنے آلات کی کیلیبریشن بھی خود ہی کی ہے۔ 🙁 )
کامیاب ایڈاپٹیشن اس کو غائب کر دیتی ہے جو سامنے ہے۔ (اور یہی اس بات کی وجہ بھی ہے کہ دنیا میں عام سے مظاہر کا اچھوتا ہونا بھی ہم صرف اسی وقت دریافت کر پاتے ہیں جب کوئی الگ ہی زاویے سے اس پر روشنی ڈالے)۔
اور اس انفارمیشن سے لیس ہو کر ہم فراق کے غم پر دل ٹوٹ جانے کی طرف چلتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments