کھانا پینا،زور کس پر ،پینے پر۔۔اسد مفتی

میرے حساب سے انسان ایک مکمل مخلوق ہے غذائیت کی مشین نہیں کہ اسے وہی کھلایا جائے جو اس مشین کو ٹھیک ٹھاک انداز میں چالو   رکھ سکے ۔انسان کے اپنے حواس خمسہ بھی ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت بھی ہوتی ہے، ڈاکٹر اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ صحت مند جسم کے لیے زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہونا اور مثبت انداز فکر اختیار کرنا کتنا ضروری ہے۔ہمیں وہی کچھ کھانا چاہیے جو ہماری زندگی ہے،اسے قوائد و ضوابط کا پابند کرنا عقل مندی نہیں ۔
میں نے یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی ہے کہ فاسٹ فوڈ بچو  ں کے لیے ایک پر کشش اور جادوئی اپیل رکھتی ہے ،جبکہ جس نسل سے میرا تعلق ہے اس کے لیے کھانے کی نوعیت قطعاً مختلف ہے۔میرے والد صاحب متوسط طبقے سے تھے اور ان کی اتنی استطاعت بھی نہیں تھی کہ و ہ باہر  جاکر کسی اچھے ریسٹورینٹ میں (جسے ہم ان دنوں ہوٹل کہتے ہیں )   ڈنر کریں یا ہمارے دور میں اتنی مصروفیات بھی نہیں تھیں  کہ بھرے پر ے گھر  میں جلدی جلدی سینڈوچ یا برگر قسم کی کوئی چیز کھا کر اپنے کام میں مصروف ہوجائیں ۔یہی بات مجھے ورثہ میں ملی ہے اور اگر اس کو دائمی تاثر کہا جائے تو غلط ہوگا کہ آج میں جو کچھ کھاتا ہوں (پینے کی بات یکسر الگ ہے) اس کی کوئی طبی وجہ میرے والد کی عادات میں سے ہی ایک ہے۔
عام طور پر گھرانوں میں ناشتے کے اوقات مقرر ہوتے ہیں اور ان اوقات میں اگر آپ کو بھوک نہیں بھی ہے تو بھی آپ کو اپنے خاندان کے ساتھ کھانے پر بیٹھنا ہوتا ہے اور آپ کو ان کا ساتھ دیتے ہوئے زبردستی کھانا پیٹ میں ٹھونسنا پڑتا ہے۔ لیکن آج کھانے کے لیے میرا کوئی وقت مقرر نہیں جب بھوک لگتی ہے تب کھانا کھاتا ہوں اس طرح مجھے کھانے میں بڑا لطف آتا ہے۔
کہتے ہیں کسی نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کھانے کے بہترین اوقات کو ن سے ہیں ؟ڈاکٹر نے جواب دیا کہ امیر آدمی کو جب بھوک لگے اور غریب آدمی کو جب بھی مل جائے۔
اکثر ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہم بھوکے ہیں ، میری طرح شاید آپ کی زندگی کے لیے بھی کھانا اولین اہمیت کا حامل ہے، میرے لیے اب یہ پیٹ کی بجائے ذہن کا معاملہ بن چکا ہے۔
آج کے دور میں ہم نے خوراک یا غذا کے معیار کا جو مطلب سمجھ لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری خوارک میں کولیسٹرول کی سطح کتنی ہے یا ہمیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے والی چربی یا روغنیات کی کتنی مقدار ہے یا پھر وہ کیمیائی اجزا جو کینسر کا سبب بنتے ہیں کتنے ہیں ہم نے اپنی زندگی کا محور متعدد چارٹس کو بنا لیا ہے کیلوریز کا چارٹ ،وٹامن کا چا رٹس، معدنی اجزا کے چارٹس ،یا پھر فرحت بخش اجزا کے چارٹس،یہ سب کچھ ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کہ غذا کا مطلب ڈائٹنگ ہے۔ اور اس کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے مطالعے میں اکثر یہ رہتا ہے کہ غذائی صفت قدرتی غذا کو کس طرح مسلسل برباد کیے  جارہی ہے یا پھر یہ کہ ہمارے کسان اور کاشت کار اپنے فارموں اور کھیتوں میں جراثیم کش دوائیں اسپرے کرکے (باقی کے غلط حربوں کا میں دانستہ ذکر نہیں کررہا) سبزیوں اور فصلوں  کا کس طرح ستیاناس کررہے ہیں ، یہ حقیقت بھی ہے اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہی وہ اثرات ہیں جن کے باعث ہمارے کھانے کا عمل لذت کے حصول کا سبب نہیں بن پایا ۔ماضی میں ہم غذا سے جس طرح لطف اندوز ہوا کرتے تھے وہ دور تو کب کا ختم ہوچکا اور اب کھانا کھانے کا عمل محض ایک “بوجھ” کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ (میں یہاں  کشور حسین شاد باد کی بات نہیں  کررہا) جس کو اتارنے کے لیے ہم جلد بازی سے کام لیتے ہیں، ڈائٹنگ کے نام پر ہونے والا یہ شور و غل اور ہنگامہ آرائی اپنی جگہ ۔۔۔لیکن آپ کو اس سے متاثر ہونے یا پریشان ہونے کی فرصت نہیں  ، آپ اپنے کھانے سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے رہیے۔ اور صرف اپنے جسم کی پکار سنیے کہ آپ کو صحت مند رکھنے کے لیے اسے کیا کیا غذائیں درکار ہیں۔
آج بھی بہت سے لوگ اس فکر میں دبلے ہورہے ہیں کہ ان کے لیے کون سی غذائیں اچھی ہیں اور کون سی بری لیکن ان کا یہ رجحان یا کریز عرصہ گزر جانے کے بعد اس وقت غلط ثابت ہوگا /یا ہوا ۔جب سائنس اور طبی تحقیق کے ذریعے بہت سی ان اشیا کو جو مدتوں سے “بلیک لسٹ” تھیں اچانک   کلیرنس مل گئی اور ان کی افادیت بحال ہوگئی ۔انڈا چاکلیٹ یا کافی کی مخالف تحریک نے جو شدت اختیار کررکھی تھی اس کا اچانک خاتمہ ہوگیا أنڈے اب کولیسٹرول بم “ نہیں رہے۔یہی حال کافی کا ہے جسے اب anti-oxidation طاقت سے بھرپور سمجھا جانے لگا ہے اور چاکلیٹ   کو تو کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ میں اہم “اتحادی” کا درجہ حاصل ہوگیا ہے ۔طویل عرصے تک صحت مند غذا  کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ اس کے لیے آپ کو بہت سی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اور اگر کوئی “ہلکا پھلکا” ہنسنا چاہتا ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ وہ اپنی پسندیدہ غذاؤں کو خیرآباد کہہ دے اور اس کی جگہ پھیکی ،بدمزہ  اور بدذائقہ غذا کھانا شروع کردے یہاں  عام طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کھانوں سے کس طرح لذت حاصل کی جائے جن سے وہ “ ڈرتا” ہے یا جو چیزیں خوش ذائقہ یا مزیدار لگے۔ وہ کس طرح صحت بخش بھی ہوسکتی ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ غیر متوازن خوراک یا غذا کی ہم اپنے کھانوں کا ہرگز جزو نہ بننے دیں اپنے کھانے کے ساتھ قدرتی انداز میں انصا ف کریں ۔
ہم اکثر یہ سنتے رہتے ہیں کہ وائٹ بریڈ،مکھن ،انڈے، گوشت کافی اور دودھ وغیرہ کا اس کے  علاوہ کوئی مقصد نہیں کہ وہ ہمارے جسم پر حملہ کرکے ہمیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔۔اس سلسلے میں آپ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ “آپ اپنے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے کیا رویہ اختیار کریں گے؟
اسے نظر انداز کریں گے ؟اس سے جنگ کریں گے؟ یا پھر اسے بہلا پھسلا کر رام کریں گے۔اس کے علاوہ مجھے تو کوئی اور راستہ نہیں  دکھائی دیتا۔آپ کو نظر آتا ہوتو دوسری بات ہے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply