• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرونا وائرس، ڈاکٹرز اور سوشل میڈیا۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

کرونا وائرس، ڈاکٹرز اور سوشل میڈیا۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

“یہ ڈاکٹرز نہیں خونخوار درندے ہیں، یہ ڈاکٹرز انسان نہیں حیوان ہیں، جو ڈاکٹرز مریضوں کو چیک نہیں کر رہے، انکے لائسنس کینسل کیے جائیں، یہ ڈاکٹرز ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیتے ہیں اور ہمیں ہی چیک نہیں کرتے، ان ڈاکٹروں میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں” وغیرہ وغیرہ۔

یہ ہیں وہ فقرے، کمنٹس، جملے جو سوشل میڈیا پر ڈاکٹروں پر کسے جا رہے ہیں، کسنے والے وہی پاکستانی ہیں، جنہیں حقیقت کا دور دور تک کوئی علم نہیں ۔ یہ فقرے کیوں کسے جا رہے ہیں اور ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے، تو اس کی سادہ سی وجہ، ینگ ڈاکٹرز  کی وہ پریس ریلیز ہے، جس میں انہوں نے کیا تھا “اگر حکومت، ہم ڈاکٹر ز کو حفاظتی کٹس کی فراہمی کو ممکن نہیں بنائے گی، ہم نے کرونا کے مریضوں کو نہیں دیکھنا”اس ریلیز کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹرز کے خلاف ایسی گھٹیا مہم شروع کی گئی جیسے یہ لوگ ڈاکٹرز نہیں دہشتگرد ہیں ۔

ہر شخص، جو تھوڑی بہت سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ مطالبہ جائز ہے، اگر ڈاکٹرز کو حفاظتی کٹس نہ دی گئیں ، تو بجائے کرونا کو روکنے کے، یہ لوگ اس کے پھیلاؤ کا سبب بنیں گے، ڈاکٹرز کا موٴقف سنے بغیر انکے خلاف مہم شروع کر دی گئی ۔

سب سے پہلے چائنہ کی مثال   دی گئی، کہ کیسے انکے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل  سٹاف نے دن رات محنت کی، لیکن یہ کہنے سے پہلے، تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لینا چاہیے تھا، جیسے ہی چائنہ میں یہ وبا  پھیلی،وہاں کی حکومت نے ڈاکٹرز کے لیے ماسک اور حفاظتی کٹس کی فراہمی کو بلاتعطل ممکن بنایا، انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی کہ آپ اپنے خاندانوں کی فکر نہ  کریں، جب تک آپ اس وبا کے خلاف سرگرم عمل ہیں، تب تک آپکے خاندانوں کی حفاظت اور کفالت حکومت کے ذمہ ہے، لیکن پاکستان میں حکومت ڈاکٹرز کو ماسک فراہم کیا کرتی، مارکیٹس میں ماسک کی قلت ہو گئی، وہ ڈاکٹر جو اپنی مدد آپ کے ماسک خریدنا چاہتے تھے، ان کے لئے وہ بھی ناممکن ہو گیا، یہ تھا چین اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان واضح فرق۔

اب آتے ہیں کہ ڈاکٹرز حفاظتی کٹس کے بنا مریض چیک کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔متاثرہ فرد کو چھونے سے یہ وائرس سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، مثال کے طور پر آپ ڈاکٹر ہیں، آپکی ڈیوٹی کرونا ایمرجنسی میں لگی ہے، آپ کے پاس کرونا کے 50 suspected مریض آتے ہیں، جن میں دو کو کرونا ہے، جب ایک ڈاکٹر نے حفاظتی کٹ کے بغیر مریضوں کو چیک کرنا ہے، تو ان دو سے یہ وائرس ہر مریض تک پھیلنے کا خدشہ ہے، یہ تھی وہ بنیادی وجہ، جس کی وجہ سے ڈاکٹرز ان کٹس کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں ۔

سرکاری ہسپتالوں کی کرونا ایمرجنسی، میں ابھی تک ڈاکٹرز بِنا کٹس کے مریض سنبھال رہے ہیں، اور کل ہی نشتر ہسپتال ملتان میں ایک ینگ ڈاکٹر صاحب کو ایسے ہی متاثر ہوئے ہیں اور انکی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے، لاہور میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ۔
ان سب کے باوجود، ڈاکٹرز ہی کو گالیاں دی جا رہی تھی، انکے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ کرونا کو آپ جنگ کے طور پر لیں، کیا وہاں سپاہی اسلحہ کے بغیر لڑ سکتا ہے؟ نہیں ۔۔ایسے ہی کٹس کے بنا، کرونا کے مریضوں کو دیکھنا بہادری نہیں بلکہ خودکشی ہے۔

یہ ڈاکٹرز، جنہیں cream of nation کہا جاتا ہے، جو دن رات محنت کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کریں، وہ تو آپ سے کچھ نہیں مانگتے اور نہ  ہی آپ انہیں کچھ دے سکتے ہیں، کم از کم آپ ان پر جھوٹے الزام اور گالیاں دینے سے تو خود کو باز رکھ ہی سکتے ہیں ۔

جو لوگ کہتے ہیں ڈاکٹرز کام نہیں کرتے، مفت کی تنخواہ لیتے ہیں، وہ ایک بار کسی سرکاری ہسپتال کے وارڈ اور ایمرجنسی کا چکر لگا لیں، ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوتے ہیں، دس مریضوں کے لئے ایک وینٹیلیٹر، وہ سارا دن وارڈ میں گھومتا ہے، ایک سے آکسیجن اتارتا ہے اور دوسرے کو لگاتا ہے اور چل سو چل، پھر بھی مریضوں کے attendants کی مار اور گالیاں کھاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر سو مریضوں کی جان بچاتا ہے، کوئی کچھ نہیں کہتا، اگر وہ ایک مریض کو نہیں بچا پاتا(ڈاکٹر کے لئے سب سے افسوناک لمحہ ہوتا ہے) تو سب اسے مارتے ہیں کہ اس کی نااہلی کی وجہ سے مریض کی جان گئی، خدا کے بندوں، جو اس نے بچائے ہیں، وہ   بھی  تو دیکھ لو۔

دن رات کی اس تگ و دو کے بعد، ڈاکٹر ہی ولن ہے۔ اس سے پہلے جب مائیں اپنے سپاہی/فوجی بیٹوں کو گھر سے بھیجتی تھیں، انہیں نہیں پتا ہوتا تھا کہ اس نے واپس آنا کہ نہیں، یہی آجکل ڈاکٹرز کے ساتھ ہو رہا ہے کہ انہوں نے آج رات گھر سلامت واپس آنا ہے کہ نہیں، سرکاری ہسپتال میں، ہر دوسرے مریض کے لواحقین اسے گالیاں دیتے ہیں اور مارنے سے نہیں جھجکتے، جس خوف کے سائے میں،لیڈی اور ینگ ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں اسکی مثال پوری دینا میں نہیں ملتی۔

اگر ڈاکٹر سیکورٹی مانگے، تو ولن۔ اگر حفاظتی کٹس مانگے تو ڈاکٹر غلط، اگر کہے جاب سکیورٹی دو تو ہم MTI لے آتے ہیں، یہ ہم کر کیا رہے ہیں؟؟ کیوں کر رہے ہیں؟ اسکی وجہ کیا ہے؟ ہم اپنے مسیحاؤں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔ مجھے ان سوالات کے جواب نہیں معلوم، شاید کبھی معلوم ہوں بھی نہ ۔ شاید اسی وجہ سے پاکستان کے ڈاکٹرز میں بیرون ملک جانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں، ڈاکٹرز سب سے آگے ہیں، وہ بے لوث فرائض سرانجام دے رہے ہیں، لیکن اگر کوئی انہیں کہے وہ حفاظتی کٹس کے بنا کرونا کے مریض چیک کریں تو یہ ڈاکٹرز کو موت کے  منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے، کسی ڈاکٹر نے کرونا وائرس کے مریض کو چیک کرنے سے منع نہیں کیا، لیکن حفاظتی کٹس کو ممکن بنانا ،حکومت کا فرض ہے۔۔جس میں ہمیشہ کی طرح وہ ناکام نظر آ رہی ہے ۔ اگر حکومت کٹس فراہم کرتی اور ڈاکٹرز مریض چیک نہ کرتے تو تنقید جائز تھی، مگر یہاں تو آوے کا آور ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹرز بس کرونا کے مریض چیک کریں، خواہ انکی اپنی جان جاتی  ہے تو جائے۔۔ایسا تو ہرگز نہیں ہو سکتا، اگر کوئی ڈاکٹر بنا کٹ کہ مریض چیک کر رہا ہے تو یہ بہادری نہیں خودکشی ہے، وہ ایسے کرونا کو روک نہیں رہا بلکہ پھیلا رہا ہے۔۔بدقسمتی سے یہی سچائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جو قوم اپنے مسیحاؤں کی عزت نہیں کرتی، تو وہاں بیماریاں ناسور بن جاتی ہیں، جن کا علاج ناممکن ہوتا ہے۔ آپ ڈاکٹرز کو انکی خدمت کا صلہ تو دے سکتے نہیں، لیکن کم از کم انکے ساتھ عزت کے ساتھ تو پیش آ ہی سکتے ہیں ۔ یہ ڈاکٹر ہمارا فخر اور ماتھے کا جھومر ہیں، جو بنا رنگ،زات اور نسل کے اپنے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔
لیکن ان سب کے باوجود بھی، اگر آپ تعصب اور نفرت کی آگ میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اپ صیح کو صیح کہنے سے قاصر ہیں تو آپ زندہ لاش سے زیادہ کچھ نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply