“مشال میرا بھائی تھا”

"مشال میرا بھائی تھا"
خرم بقا
میں اسے نہیں جانتا تھا۔
اس کا نام بھی کبھی نہیں سنا تھا
ایک عام سا معمولی سا لڑکا، جو مردان کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ جب میں اسےجانتا ہی نہیں تھا تو اس کے عقائد کی بابت بھی میری معلومات صفر ہی ہونگی۔
پھر وہ مر گیا۔ مرا نہیں مار دیا گیا اور میرا دل اس کی موت پر بوجھل ہے۔
میں قاتلین میں شامل نہیں مگر میرا دل اداس ہے۔ میری آنکھیں چھلکنے کو تیار ہیں اور نیند مجھ سے کوسوں دور ہے۔
مجھے یہ بھی لگ رہا ہے کہ میرے ہاتھ اس کے خون سے رنگے ہیں۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں قاتلین کی صف میں سب سے آخر سہی، مگر موجود ہوں۔ صرف میں نہیں، ہر وہ شخص جس نے اس جیسے اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ ہر وہ شخص جس نے نفرت میں لتھڑے ہوئے غلیظ ذہنوں کے ساتھ مسند انصاف پر بیٹھنے والوں کی مخالفت نہیں کی۔ ہر وہ شخص جس نے اس اینکر، اس صحافی کی مخالفت نہیں کہ جو بزعم خود حق کا علم بلند کرتا ہے مگر روٹی ڈالنے والے چینل / اخبار کے مالک کے سامنے دم بھی ہلاتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ خود کو مبلغ اخلاق اور مفکر قوم بھی سمجھتا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے منبر سے اٹھنے والی نفرت کی آواز کو سچ کی آواز سمجھا اور اس کے خلاف کبھی نہیں بولا۔
مشال خان کے مرنے کے کچھ گھنٹوں بعد مجھے پتہ چلا وہ میرا بھائی تھا۔ وہ میرا دوست تھا۔ وہ میرا ہم خیال تھا۔ اس کے اور میرے دکھ سانجھے تھے۔ وہ بھی انہی باتوں پر کڑھتا تھا جن پر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اس کی روح پر بھی وہی گھاؤ تھے جو میری روح پر ہیں۔ اس کے ذہن پر بھی وہی آسیب بسیرا کرتے تھے جو میرے ذہن میں پلتے ہیں۔ مجھے لگا کہ میرے نصف کو ہی مار دیا ظالموں نے۔
اور یہ وہ ظالم ہیں جو خؤد مر چکے ہیں۔ ان کے لاشے سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ ان کی فرسودہ سوچوں کا تعفن، ان کے ضعیف عقائد کا تعفن۔ ان کی نفرت کا کوڑھ ۔ مشال نے تو صرف یہی کیا تھا کہ ان کے وجود سے اٹھتی بدبو انہیں سنگھائی تھی، ان کا کوڑھ انہیں دکھایا تھا۔ انہیں بتایا تھا کہ تمھاری وجہ سے معاشرہ متعفن ہو رہا، تم اس کے لیے ناسور بن رہے ہو۔ جب ان کے پاس جوابات نہیں رہے تو ان کی آوازیں بلندہوئیں، دلیل نہیں رہی تو ان کے ہاتھ اٹھے اور آواز دبانے کی کوشش میں اس کی سوچ کو، اس آواز کو جلا بخش دی۔ اب یہ آواز بازگشت بن کر قرنہاقرن سفر کرے گی۔ صدیوں تک اس کی گونج سنی جائے گی اور جس دن حق و انصاف کا مسند سجے گا اس دن اسی آواز کی پزیرائی ہوگی۔ اس پر حق کی مہر ثبت کی جائے گی۔
وہ بہادر تھا، نڈر تھا، بے خوف تھا۔ وہ بہادر ہی تھا جو یہ دعا کر رہا تھا کہ یا تو مجھے لاعلمی سے نواز دے یا مجھے اتنی طاقت دے کہ میں علم کو برداشت کر سکوں۔ وہ بہادر ہی تھا کہ اس علم سے دوسرے ذہنوں کو بھی منور کرنا چاہ رہا تھا۔ وہ بہادر ہی تھا کہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک جنونی معاشرے میں رہ رہا ہے اس نے نہ اپنی سوچ پر پہرے بٹھائے اور نہ ہی سوچ کے ابلاغ پر۔ بزدلوں کے پاس جب جواب نہیں رہا تو انہوں نے اسے مار دیا۔
اس واقعہ میں میں انسانی سفاکی پر بھی حیران ہوں۔ کیا مذہب انسان کو زہریلا بنا دیتا ہے؟ اس حد تک اس کا ذہن، اس کی سوچ اور اس کے اعمال بےحس کردیتا ہے کہ ایک آدم زاد ان کے سامنے تڑپ رہا تھا، سسک رہا تھا، مر رہا تھا اور لوگ یا تو اسے مار رہے تھے یا اس کی وڈیو بنا رہے تھے۔ یہ سفاکی کی اعلیٰ مثال ہے۔ یہ وہ بربریت ہے جس کے سامنے ظالم بھی شرما جائیں، یہ وہ بے حسی ہے جو جنگلی جانوروں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ یہ وہ حد ہے جس کے بعد قدرت کے فیصلے شروع ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی مذہب کی تعلیمات انسان کو ظالم نہیں بناتیں۔
میرا اللہ تو ایسا نہیں مگر معلوم نہیں قاتلوں کا خدا اتنا لاچار، اتنا مجبور کیوں ہے کہ اسے اپنی پریسٹیج کو بچانے کے لیے توہین مذہب کے قانون کی ضرورت پڑتی ہے؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply