اعتراف۔۔ قراۃ العین حیدر/افسانہ

رات کھانے کے بعد نیند کی گولی نگلنا سجاد کا معمول تھا۔ اس کی ریٹائرڈ زندگی کا محور چند کتابیں،  پرانی یادیں اور اس کے خیالات تھے۔ کم گو تو وہ ہمیشہ سے تھا لیکن اب وہ ضرورت کی بات کے علاوہ خاموش ہی رہتا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ بولنے والا کوئی نہیں تھا گھر میں سب تھے لیکن اب اس نے بولنا چھوڑ دیا تھا۔ عمر کی بہتر بہاریں دیکھنے کے بعد بھی دن میں کئی بار اس کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک عود کر آتی تھی کہ اس کی بیوی سعدیہ حیران رہ جاتی۔ ایک ایسی بیقراری جو ایک شخص کی آنکھوں میں اظہارِ محبت کے وقت ہوتی ہے۔ اس وقت اس کے چہرے سے ایسے تاثرات دِکھتے کہ جیسے وہ کسی سے مخاطب ہے۔ کبھی کبھی اس کے ہاتھ حرکت میں آتے کہ جیسے کسی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سوچتی کہ شاید دوائیوں کے زیادہ استعمال سے سجاد کی یہ حالت ہوئی ہے۔ اپنے اس خیال کا اظہار اس نے اپنے بڑے بیٹے ذیشان سے بھی کیا تھا کہ اپنے باپ کو کسی نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھائے ۔ ۔ اب سے پانچ سال قبل وہ بالکل فِٹ تھا صحت مند اور ہشاش بشاش۔ ایک دن اس کے سینے میں بُری طرح درد اٹھا اور دفتر والوں نے بروقت ہسپتال پہنچا دیا۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا لیکن اس کے بعد اس نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور گھر کا ہوکر رہ گیا۔ اس نے اپنی سرگرمیاں چھوڑ دیں اور اپنا وقت گھر میں گزارنے لگا۔ شروع میں بیوی کو تشویش ہوئی لیکن بعد میں وہ اس کی عادی ہوگئی۔گھر میں ان دونوں کے علاوہ بڑے بیٹے کی فیملی بھی تھی۔ بیٹا،  بہو اور دو بچے۔ منجھلا بیٹا فوج میں میجر تھا اور اپنی فیملی کے ساتھ باہر رہتا تھا۔ چھوٹا لندن پڑھنے گیا تو وہیں کا ہوکر رہ گیا۔

آج بھی معمول کے مطابق اس نے دوائی کھائی اور سونے کیلئے بستر پر آیا۔ بیوی بستر پر لیٹی ٹی وی پہ ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھی۔
“سعدیہ۔۔۔۔۔” اس نے دھیرے سے پکارا
اپنی طرف متوجہ نہ پاکر اس نے بیوی کو پھر سے آواز دیی “سعدیہ”
ٹی وی پر سے نگاہیں ہٹائے بغیر سعدیہ کا جواب آیا “جی کچھ اور چاہیے ۔۔۔۔ بتاؤ میں لادیتی ہوں “۔ “مجھے تم سے کوئی بات کرنی ہے”۔ سجاد کی آواز میں کچھ تکلیف سی تھی۔ بیوی کو محسوس ہوا کہ اسے شاید پھر سے انجائنا کا اٹیک ہونے لگا ہے۔ اس نے موبائل اٹھایا اور بیٹے کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ او یار میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے تم سے کوئی بات کرنی ہے تم ہو کہ اب موبائل پکڑ لیا ہے” اس کی آواز میں اب تلخی تھی۔ “آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے میں ذیشان کا نمبر ڈائل کر رہی تھی کہ ڈاکٹر  کےپاس  چلیں۔” وہ جھنجھلا سا گیا “کچھ نہیں ہوا ہے مجھے۔۔۔۔ بالکل ٹھیک ہوں۔ تم سے کچھ شئیر کرنا چاہتا ہوں اگر تم اپنی مصروفیت میں سے کچھ وقت دو تو۔۔۔۔۔” اس نے جملہ ادھورہ چھوڑ دیا اور اس کی جانب دیکھنے لگا۔ اب بیوی کو اپنی جانب متوجہ پاکر اس نے سوال کیا “کتنے سال ہوگئے ہیں ہماری شادی کو؟”
“جی۔۔۔۔یہی کوئی چوالیس سال” کچھ حساب لگا کر بیوی نے جواب دیا۔ ” کیا ان چوالیس سالوں میں مَیں نے تمہیں کوئی تکلیف پہنچائی؟” سعدیہ کو شک ہوا کہ لازماً کوئی مسئلہ ہوا ہے سجاد اب بری طرح تنقید کرے گا اور اگلے کئی دن تک شکوے کرتا رہے گا۔ یہ سوچتے ہوئے اسے کوفت ہونے لگی کہ ان چوالیس سالوں میں یہ خواری کیا کم ہے کہ اس کاشوہر اس پر اب تک تنقید کرتا ہے۔ اب وہ خاموش بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ کیا جواب دوں کہ یہ بات یہیں ختم کردے اور سو جائے تاکہ وہ بھی سکون سے ڈرامہ دیکھے۔ بیوی کو خاموش پاکر اس نے خود ہی بات شروع کی۔
“ہماری شادی خالصاً ارینج میرج ہے،  تم میری خالہ کی بیٹیی ہو،۔۔۔ اگرچہ  رشتہ طے ہونے کے بعد بھی میرے دل میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں بن پائی۔ یہ نہیں کہ میں تمہیں ناپسند کرتا تھا بلکہ مجھے تمہاری عادتیں کل بھی پسند نہیں تھیں۔۔۔۔ آج بھی نہیں ہیں۔ میں اس زمانے میں تم سے چھٹکارہ چاہتا تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ مجھے لگتا تھا کہ میری ماں نے مجھ سے بدلا لیا ہے کیونکہ تم بد دماغ اور بد مزاج کے ساتھ ساتھ مغرور بھی تھی۔” سعدیہ اب سجاد کو گھور رہی تھی اور سوچ رہی تھی یہ آج پھر شروع ہوگیا ہے کتنے سالوں سے صرف کام کی بات کرتا تھا بس۔ آج اگر بولا بھی ہے تو صرف مجھ پر تنقید کرنے کیلئے ۔ “ماسوائے میرے بچے پیدا کرنے کے علاوہ تم نے کبھی بیوی ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ مجھے ان چوالیس سالوں میں کبھی روٹی پکا کر نہیں دی۔۔۔۔ تمہارے خیال میں یہ ملازموں کے کام ہیں۔ تم نے کبھی میرے کپڑے الماری سے نہیں نکالے،  میں کئی مواقعوں پر چاہتا تھا کہ مجھے چائے تم بنا کردو۔ دفتر جاتے ہوئے مجھے ناشتہ بناکردو،  یا کم از کم میرے لباس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال لو کہ میں ٹھیک لگ رہا ہوں کہ نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن تمہارے خیال میں یہ کام صرف ملازمین کرتے ہیں اور تم میری بیوی ہو۔۔۔۔ تمہیں یہ سب سوٹ نہیں کرتا۔ تم اس وقت سوئی ہوتی تھی جب میں ناشتہ کرتا اور دفتر جاتا تھا۔ جب میری واپسی ہوتی تو میں چاہتا تھا کہ تم میرا استقبال کرو اپنے ہاتھوں سے چائے بناکردو۔ ہم دونوں سکون سے بیٹھ کر چائے پئیں اور اپنے بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھیں لیکن ایسا بھی نہ ہوسکا۔ کیونکہ تم شام کو لیڈیز کلب گئی ہوتی تھی۔”

“آپ کو تو چڑ ہے میری سوشل ایکٹیویٹیز سے۔۔۔۔۔ شادی ہوگئی اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ گھر میں بند ہوجاؤ۔ سوسائٹی میں move بھی تو کرنا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میں گھر میں بیٹھ کے کروں کیا؟ تم بھی تو ریٹائرمنٹ کے بعد ہی گھر بیٹھے ہو۔ جوانی میں کہاں تمہارے پاس میرے لئے وقت تھا۔۔۔ چھٹیاں آتی تھیں تو خود ہی گھومنے پھرنے نکل جاتے تھے۔ سارا الزام مجھ پہ نہ لگاؤ ۔۔۔۔ جب میں تمہیں پہلے دن سے پسند نہیں تھی تو اپنی پسند کی شادی کرلینی تھی۔ پوری زندگی تمہیں مجھ سے شکوے رہے ہیں اب جب چل چلاؤ کا وقت ہے تمہیں اب بھی تنقید ہی سُوجھ رہی ہے۔” سعدیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کیا۔ معاملہ اب سنگین ہونے لگا تھا۔ ہمیشہ کی طرح بیوی کو برستا دیکھ کے خاموش ہونے کے بجائے اس نے اسی تحمل کے ساتھ بات جاری رکھی۔ “دیکھو میرا کام تم پر تنقید نہیں ہے۔۔۔ اب اس عمر میں تم کہاں خود کو بدلو گی اور وہ بھی میرے لئے ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں ان چوالیس سالوں میں خوش رکھنے میں ناکام رہا ہوں۔  دنیا کی نظر میں میں ایک انتہائی کامیاب آدمی ہوں جس کی ملازمت کا کیرئیر بہترین رہا۔ بچے میری زندگی میں اسٹیبلش ہوگئے اور اب اپنے اپنے گھر والے ہیں۔ مجھے پوری زندگی پیسے کی کمی کا سامنا نہیں رہا کیونکہ میں اعتدال پسند ہوں اللہ کا مجھ پہ خاص کرم رہا میں نے جوانی ہی میں حج کا فریضہ ادا کیا اور کئی ملکوں کے سفر کئے۔ اچھے وقتوں میں وراثتی جائیداد سے یہ گھر بنالیا جس میں میرے تینوں بیٹے اپنی اولاد کے ساتھ آرام سے رہ سکتے ہیں۔ اپنی گاڑی ہے بڑھاپے میں بھی میں اور تم اپنے بچوں کے محتاج نہیں ہیں۔ اگر میں نہیں بھی رہتا تو تم اپنی باقی زندگی بہت آرام سے گزار سکتی ہو۔ لیکن ایک خاص بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔” ۔ اس نے اپنا جملہ ادھورہ چھوڑ دیا۔ سعدیہ اب اس بکواس سے خاصی بور ہورہی تھی “اب کہہ بھی چکیں ۔۔۔۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ ڈرامہ تو نکل گیا ہے اب کل دوپہر میں رپیٹ ٹیلی کاسٹ میں دیکھوں  گی۔”

“یہ ہے وہ خاص بات ۔۔۔۔۔ نہ تمہارے پاس میری اس بکواس کا وقت ہے۔ نہ میرے پاس تمہاری چھچھوری گفتگو کیلئے وقت۔ اور رہی بات تم سے جان چھڑوانے کی وہ میں نے اس وقت سوچا تھا تب ذیشان اور سلمان دونوں تھے۔۔۔ میں نے تمہیں طلاق دے کر دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بچے عدالت سے واپس لے لیتا۔ لیکن تم نے مجھے ارسلان کے آنے کا بتا دیا اور مجھے اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔” اس کا جواب سنتے ہی سعدیہ کو تو یوں پتنگے ہی لگ گئے تھے “ارادہ بدلا کیوں؟ کرلیتے دوسری شادی ہوجاتی آپ کی خواہش پوری۔۔۔ احساس نام کی چیز تو تمہارے اندر ہے نہیں ۔۔۔۔۔ لوگ پروموشنز کیسے لیتے ہیں تعلقات کیسے بناتے ہیں یہ تمہیں کبھی نہ آیا۔ اور تم کون ہوتے ہو میری گفتگو کو چھچھورہ کہنے والے؟  میری تو ہر بات تمہیں بری لگتی ہے۔۔۔۔ اگر میں اتنی ہی بری تھی تو چھوڑ دیتے نا مجھے۔۔۔ لیکن نہیں بھئی۔۔۔۔ یہ نہیں کرنا صرف سنا سنا کر اذیت دینی تمہیں آتی ہے؟ اب سعدیہ کی آواز گونجنے لگی۔ “تم اپنی آواز دھیمی کرو گی یا نہیں ۔۔۔۔تم شادی کی رات سے اسی طرح بدتمیزی کرتی آرہی ہو اور رات کے اس پہر تمہاری آواز کمرے سے باہر جائے گی تو بیٹے بہو کو اتنا عجیب نہیں لگے گا جتنا ہمارے پوتا پوتی کو لگے گا۔” سجاد اب پھر غصے میں بڑبڑانے لگا۔ تم جیسی عورت سے بات کرنا ہی فضول ہے جو صرف بات کا بتنگڑ بنانا جانتی ہو۔ تم کسی کے جذبات نہیں سمجھ سکتی۔۔۔۔ تمہیں کوئی مسئلہ ہو تو ساری دنیا کو عذاب میں  ڈال دیتی ہو لیکن میں تم سے صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ میں تمہارے ساتھ صرف باتیں کرناچاہتا ہوں۔

وہ تمام باتیں جو پچھلے چوالیس سال میں تم سے نہیں کیں۔۔۔ میرے دل کی باتیں ۔۔۔ میں ان باتوں کو دل میں رکھ کر نہیں مرنا چاہتا۔

تنگ آکر اس نے کروٹ لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ نیند کوسوں دور تھی اور اچانک کہیں دور سے ایک کھنکتی ہوئی آواز آئی “سجاد ۔۔۔۔ یار یہ تم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے میرے ساتھ محبت کیسے نبھا لیتے ہو۔ سچ میں اگر میری شادی ہوگئی تو میرا نہیں خیال کہ  میں تمہارے ساتھ محبت نبھا سکوں گی۔” اسی لمحے اس نے اپنی بھینچی ہوئی آنکھیں کھول کر دیکھا تو کمرے میں اندھیرہ تھا اور اسے ایک بھینی بھینی جانی پہچانی خوشبو محسوس ہونے لگی اور وہ بڑبڑانے لگا۔ ” مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ حنا ۔۔۔۔ میں اب اور جینا نہیں چاہتا۔ تمہارے بعد زندگی میں کوئی مزا نہیں ہے۔” یہ کہتے ہوئے اس نے کروٹ تبدیل کی تو وہاں نہ تو کوئی آواز تھی نہ ہی کوئی خوشبو۔
بس یہی سوچ کے راتوں کو میں نہیں سوتا
نیند آئی تو تیرا خواب چلا آئے گا
پھر صبح جب کھلیں گی آنکھیں میری
تُو بھی صبح کے ستارے سا چلا جائے گا

یہ کوئی پہلی بار تھوڑی تھا کہ سجاد کوئی سپنا دیکھ رہا ہو لیکن حنا تو اس کیلئے ایک سپنا ہی تھی۔ انسان بھی بہت عجیب ہے جس کے ساتھ صرف چند گھنٹے کی رفاقت میسر آئی اس کے اثرات پوری زندگی پہ بھاری ہوگئے ۔ وہ اٹھ بیٹھا کہیں دور مسجد سے فجر کی اذان آرہی تھی۔ وہ آرام سے اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا۔ کمرے میں واپس آکر وہ نماز پڑھنے لگا۔ دعا مانگتے ہوئے اسے حنا کا خیال پھر سے آیا اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگنے۔ انسان جیتے جی قدر نہیں کرتا جب مر جاتا ہے تو قدر آجاتی ہے ۔ وہ پوری زندگی میں کبھی بھی باقاعدہ نمازی نہیں تھا کبھی جب چھوٹا تھا تو ماں زبردستی سب بچوں کو نماز پڑھاتی تھی۔ بڑے ہوکر زندگی کی رنگینیوں میں کھو گیا۔ دفتر کی وجہ سے جمعہ کی نماز پڑھ لیتا تھا۔ سعدیہ نے کبھی بچوں کو نماز کا نہیں کہا تو اس کو کیسے کہتی؟ حنا اکثر اسے یاد کرواتی کہ نماز پڑھا کرو اور کچھ نہیں تو رب العزت کی دی ہوئی نعمتوں کا شکرانہ ادا کرنے کے طور پر ہی پڑھ  لو۔

حنا اس کے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتی تھی پُراعتماد اور خوش شکل۔ اس زمانے ميں وہ ہاسٹل میں رہتا تھا اور وہاں انگریزی ادب میں ایم اے کررہا تھا۔ سیشن شروع ہونے کے پہلے ہی ہفتے ان کی دوستی ہوگئی۔ وہ ہمیشہ ساتھ ساتھ دِکھتے تھے کہ ان کے کلاس فیلو ایک کی خبر دوسرے سے دریافت کرتے۔ پہلے سال کے سیشن کے اختتام پر چھٹیاں ہوئیں تو سجاد واپس اسلام آباد آگیا۔ اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ حنا کے بغیر کچھ ادھورہ ہے۔ واپسی پر اس نے پہلے ہی دن حنا کو اپنی دِلی کیفیت سے آگاہ کردیا۔ اس نے حنا سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے کیونکہ حنا کا تمتماتا ہوا مسکراتا چہرہ ہی اس کی رضامندی کا گواہ تھا۔ دن پر لگا کر اُڑ رہے تھے اور کالج کے سیشن کا آخری دن آن پہنچا۔ “آج تم میرے ساتھ گھر چلو ۔۔۔۔۔ میں تمہیں اپنے گھر والوں سے ملوانا چاہتی ہوں۔ میں نے امی کو بتا دیا ہے لیکن وعدہ کرو تم میرے خوابوں کے رستے میں نہیں آؤ گے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں لیکچرر شپ کرنا چاہتی ہوں۔ ایک ریسرچ سکالر بننا میری زندگی کا مقصد ہے۔” سجاد کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا وہ خوشی خوشی اس کے گھر چلا گیا۔

کرشن نگر کی مضافاتی گلیوں میں سرخ اینٹوں والا دس مرلے کا قدیمی گھر جہاں نچلی منزل پر حنا کے چچا اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ تنگ ڈیوڑھی عبور کرکے قدرے کشادہ سیڑھیاں آئیں جو پہلی منزل کے صحن میں کھلتی تھیں اور صحن کی بھرپور روشنی آنکھوں کو چکاچوند کردیتی تھی۔ بیچ  صحن کے ارد گرد دالان اور کمرے تھے۔ حنا کا چھوٹا بھائی صحن میں کرکٹ کی پریکٹس کررہا تھا جس کی عمر دس بارہ سال تھی۔ ایک عام سا متوسط طبقے کا گھر جہاں کی صفائی ستھرائی اس گھر کی منتظمہ کے سگھڑ ہونے کا ثبوت دے رہی تھی ۔ حنا کے چھوٹے بہن بھائی بھی طالب علم ہی تھے اور مختلف سکول کالجوں میں پڑھتے تھے۔ گھر کے افراد کی بےتکلفی اور محبت سجاد کو متاثر کررہی تھی کیونکہ اس کے اپنے گھر کا ماحول کافی خشک تھا۔ “جناب ایم اے کے بعد میرا ارادہ ہے کہ مقابلے کا امتحان دیا جائے۔ میرے والد بیوروکریٹ ہیں اس وقت وہ حکومتِ سندھ میں ہوم سیکرٹری ہیں ۔ ہم سرگودھا کے رہنے والے ہیں وہاں ہماری زرعی اراضی ہے۔ دادا فوج میں تھے” وہ اپنے تئیں حنا کے گھر والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

امتحان آئے اور ختم ہوگئے اور وہ واپس اسلام آباد آگیا۔ اس وقت اسلام آباد کو بسے محض دس سال ہی ہوئے تھے۔ ابھی شہر ویران ہی تھا۔ اس نے حنا سے وعدہ کیا تھا کہ اسے  خط لکھتا رہے گا۔ اس نے اسلام آباد آتے ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کردی۔ ساتھ میں وہ ماں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔ اور ماں اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرتی رہی کہ اگر اس کا رشتہ خاندان میں نہ کیا تو اس کی بہنوں کے رشتے خاندان میں کیسے ہوں گے۔۔ اور اگر وہ لوگ ان کے سٹیٹس کے نہ ہوئے تو۔۔

وہ بےحد مشکل سے ماں کو راضی کرکے لاہور لے گیا کرشن نگر یوں بھی متوسط علاقہ ہے۔ وہاں پہنچتے پہنچتے ماں کا موڈ خراب ہوگیا۔۔۔ اب تم ان بھول بھلیوں والی گلیوں میں لے آئے ہو کہ بندہ دوسری بار نہ آسکے۔

میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہم لوگ چاہتے کیا ہیں؟  ہمیں رشتے کرتے ہوئے طبقاتی فرق، حُسن، نمود و نمائش ہی کیوں نظر آتے ہیں جبکہ کردار،  اقدار اور بحیثیت انسان ہونا ہمیشہ پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔  لڑکی یا اس کا گھرانہ اگر آپ کے معیار کے مطابق نہیں ہے تو آپ انکار تو کرتے ہیں ہی لیکن دوسروں کی دلآزاری کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ اگر لڑکی آپکے بیٹے کی پسند ہو تو کیا ضروری ہے کہ لازماً وہ لڑکی حرافہ ہی ہوگی جس نے آپکے معصوم بیٹے کو اپنے چُنگل میں پھنسا لیا ہے۔اور اس بات کا آپ برملا اظہار اس کے منہ پر کردیتے ہیں۔ کچھ یہی سلوک میری ماں نے بھی حنا کے ساتھ کیا۔ حنا کا کیا تھا وہ تو دوسرے کمرے میں  نظریں جھکائے اپنے اوپر الزام تراشی سن رہی تھی لیکن اس کی ماں ہکا بکا ہماری طرف دیکھ رہی تھی کہ چند مہینے پہلے تو یہ لڑکا بہت ملنساری سے مل کے گیا ہے اب اس کی ماں ایسے کیوں کررہی ہے؟  اب پچھلے کوئی اٹھارہ بیس سالوں سے زمانہ بہت ایڈوانس ہوگیا ہے لوگوں کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ آگیا ہے لیکن یہ سن ستر کی بات تھی زندگی ابھی پُر تعیش نہیں ہوئی تھی لیکن میری ماں اپنے خاندان،  امارت اور بیوروکریسی کا رعب ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی وہ بھی سرکاری کالج کے لائیبریرین کی معمولی تعلیم یافتہ بیوی پر۔ میں نے ماں کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا آخر اٹھا اور حنا کی والدہ کو اللہ حافظ کہہ کر ماں کو ان کے گھر سے لے گیا۔ میں نے تمام راستے ماں سے کوئی بات نہ کی۔ ہم جی او آر اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچے جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو ماں نے مجھے خاندانی اقدار،  اچھے مستقبل وغیرہ پر مفصل لیکچر دیا کہ وہ میری شادی وہیں کریں گی جہاں انہیں میرا مستقبل تابناک نظر آئے گا۔ اگلے روز اسلام آباد جانے سے پہلے میں نے حنا کے نام ایک معذرتی خط لکھا اور اسے جواب دینے کی ہدایت کی۔

اس خط کا کبھی جواب نہ آیا۔۔۔ ہر روز بہت امید کے ساتھ میں اپنی ڈاک دیکھتا ۔۔۔ گھر کے ملازموں کو بھی کہہ رکھا تھا کہ میری ڈاک فوراً مجھ تک پہنچائی جائے اور کسی اور کے حوالے نہ کی جائے۔ ۔ چند ہفتے بعد یہ ترکیب نکالی کہ ہر تیسرے دن حنا کو خط لکھا جائے۔ لیکن یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ اسی طرح چھ مہینے گزر گئے اور میرے امتحان قریب آگئے۔ مجھے راولپنڈی میں ایک انگریزی اخبار میں پروف ریڈنگ کی ملازمت مل گئی تھی اور میں یہ نوکری صرف وقت گزاری کیلئے کررہا تھا۔ بالآخر مقابلے کے امتحان کا نتیجہ آگیا۔۔۔۔ میری پورے پاکستان میں اٹھائیسویں پوزیشن آئی تھی۔ امید واثق تھی کہ فارن سروس کا چانس بنے گا۔ میں ٹریننگ کیلئے کراچی گیا تو ابا سے ملاقات ہوئی تو ان سے بھی اس موضوع پر بات کی۔ ان کی گفتگو سے لگتا تھا کہ امی نے ان سے اس بارے میں تفصیل سے بات کر رکھی ہے۔ ان کی طرف سے امید افزاء جواب نہ پا کر میں مایوس ہوگیا۔ ہمارے زمانے میں لڑکی کو بھگانے کا اتنا رواج نہ ہوا تھا اور یہ بات جتنی معیوب آج ہے اس سے کہیں زیادہ معیوب تب سمجھی جاتی تھی۔ یہ خیال دل میں آیا تو خود پر اتنی لعن طعن کی کہ ارادہ بدلنا پڑا۔

ٹریننگ کے بعد مجھے فارن سروس پہ برما بھیج دیا گیا۔ میں نے کبھی زندگی میں سیاحت نہیں کی تھی۔ کبھی فرصت ہی نہ ملی۔۔۔ اب اللہ کی ذات نے موقع دیا تو میں خوشی سے اپنی نئی منزل کی جانب چل پڑا۔ حنا کو میں کبھی نہیں بُھولا ۔۔۔ اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتا رہا کہ اس کے خاندان والے کب تک اسے بٹھائے رکھیں گے اس کی شادی ان تین سالوں میں ہوچکی ہوگی۔ اب کیا ہوسکتا ہے اللہ اسے جہاں رکھے خوش رکھے۔ دو سال بعد میں پاکستان لوٹ کے آیا تو والدین کو میرے سر پہ سہرہ سجانے کا چاؤ چڑھ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری خالہ زاد سعدیہ سے میری شادی ہورہی ہے۔ میرے خالو برگیڈئیر تھے اور ان کی تین بیٹیاں تھیں انتہائی مغرور اور نک چڑھی۔ پتا نہیں میرے والدین نے کیا سوچ کے یہ رشتہ طے کیا تھا۔ خیر شادی ہوگئی لیکن سعدیہ اور میں ایک نہ ہوسکے۔ زندگی کے چوالیس سال ساتھ گزارنے کے باوجود ہماری ایک دوسرے کیلئے حیثیت ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پہ کھڑے دو مسافروں سے زیادہ نہ ہوسکی۔ جو اپنی اپنی ریل گاڑی کے آنے کا انتظار کررہے ہیں ۔

کچھ دنوں میں یہ تاثیر ہوتی کہ وہ وقت کے تابع نہیں ہوتے،  ہماری دلی کیفیت کے مطابق رہتے ہیں۔ کچھ ایسا میرے ساتھ بھی ہوا۔۔۔۔ برما کی خوبصورتی نے میرے تخیل کو جلا بخشی اور دفتر کے علاوہ میرا باقی وقت حنا کو سوچتے ہوئے گزرتا۔ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا اور تین سال گزر گئے اور میں چھٹیوں پر گھر آیا تو میرے آتے ہی والدین نے شادی کی تاریخ مقرر کردی جس کو میں پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ٹالتا آرہا تھا۔ لیکن دل میں امنگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اپنی ہونے والی بیوی کے مزاج سے بخوبی آگاہ تھا اور یہ کچھ کچھ باعثِ تکلیف بھی تھا۔ میں بہت باتونی تو نہیں تھا،  کچھ قریبی دوست میرے مزاج سے واقف تھے، جن سے خوب گپ شپ لگتی۔۔۔ ان میں حنا بھی تھی۔ دل میں خوشی کی جگہ کچھ وسوسے جنم لے رہے تھے۔ پتا نہیں میرے ساتھ بیوی کی بنے گی یا نہیں ۔۔۔۔ ماں اور ان کی بھانجی میں سلوک رہ پائے گا یا نہیں۔ میرا تخیل اور میری ذاتی زندگی کس حد تک آزاد رہ پائے گی وغیرہ وغیرہ۔

اور کچھ ہوا یا نہیں۔۔ شادی ہوگئی جس کے سائیڈ افیکٹ آج تک بھُگت رہا ہوں۔ شادی سے پہلے ہی میری پوسٹنگ وزارتِ داخلہ میں ہوچکی تھی۔ اب کہیں جانے کا سوال ہی کیا تھا۔ چپ چاپ شادی شدہ زندگی گزارنے لگا۔ زندگی جینا کچھ اور ہے اور گزارنا کچھ اور۔۔۔سعدیہ کے بارے میں جتنے بھی خدشات تھے ساتھ رہنے کے بعد کئی گنا اضافہ کے ساتھ سامنے آئے۔ اگرچہ  اس وقت رابطے کے ذرائع محدود تھے لیکن وہ میری اور میرے گھر کی تمام رپورٹ خالہ کو دینے کی عادی تھی۔ اسے بارہا منع کیا لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔ سختی سے بھی کہہ کے دیکھ لیا لیکن ہنوز وہ آج تک باز نہیں آئی،  اب خالہ تو حیات نہیں ہیں لیکن اپنی دونوں بہنوں سے سارا کچھ ڈسکس کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے ۔۔۔ کچھ یہی حال میری دونوں سالیوں کا بھی ہے ان کے گھر کی پل پل کی خبر ہمارے گھر پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری بیٹی نہیں ہے ۔۔۔۔نہیں تو وہ بھی اس گھٹیا عادت کا شکار ہوتی۔ امی اس رویے پر کُڑھا کرتی تھیں لیکن وہ کر کچھ نہیں سکتی تھیں ۔ پتا نہیں بیٹیوں کی تربیت کرتے ہوئے ہم یہ معمولی بات نظر انداز کیوں کردیتے ہیں جو بعد میں گھر برباد ہونے کا سبب بنتی ہے  ۔ خالہ سے جب بھی سعدیہ کے رویے پر بات ہوئی ان کا موقف یہی ہوتا کہ ابھی بچپنا ہے بچوں کے بعد میچور ہوجائے گی۔ ماؤں کا یہ موقف ان گنت مردوں کی پوری زندگی اجیرن رکھتا ہے۔

یوں تو پہلی اولاد والدین کو زیادہ عزیز ہوتی ہے اسی طرح میرا بڑا بیٹا ذیشان مجھے بہت عزیز ہے۔ وہ اس وقت چار برس کا تھا اور میں اس کیلئے چند رنگین تصویروں والی کتابیں ایک دکان سے خرید رہا تھا کہ کسی نے میرا نام پکارا۔۔۔۔ میں نے چونک کر دیکھا تو عادل تھا میرا کلاس فیلو۔ میں بہت خوشی اور ملنساری سے اسے ملا۔ وہ گورڈن کالج راولپنڈی میں لیکچرار تھا۔ اوکاڑہ سے ٹرانسفر ہوکر آیا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے پتے اور ٹیلیفون نمبر نوٹ کئے اور پھر سے ملنے کے وعدے بھی کئے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ مہینے میں کم از کم ایک چھٹی کا دن اپنی مرضی کا گزارتے۔ کبھی کسی ادبی محفل میں چلے جاتے۔ کبھی کسی ریستوران میں گپ شپ لگاتے۔ کبھی شہر کے مضافاتی علاقوں میں ٹریکنگ کیلئے نکل جاتے۔ ایک دن عادل کا فون آیا کہ لاہور سے ہمارے ایک کلاس فیلو نے بذریعہ ٹیلیفون ہمیں کالج کی المنائی میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ مجھے سوچ کے ہی سرُور آگیا کہ تعلیم ختم ہوجانے کے دس سال بعد اپنے کلاس فیلوز سے ملاقات ہوگی۔ دل کے ایک کونے میں امید کی ایک کرن یہ بھی جاگی کہ شاید حنا سے ملاقات ہوجائے ۔۔ شاید وہ بھی المنائی میں آئے۔

اسی امید پہ دفتر میں چھٹی کی درخواست دیدی اور مقررہ وقت پر لاہور چلا آیا۔ المنائی کا پنڈال اوول میں سجا تھا۔ گورنمنٹ کالج کے گیٹ میں داخل ہوتے ساتھ ہی میں اپنی زندگی سے بیگانہ ہوگیا۔۔۔۔ دس سال پرانا وقت لوٹ آیا۔ روشنی سے  سجی عمارت اور سامنے گراؤنڈ میں روشن شامیانے۔ عادل اور میں اپنا پرانا وقت یاد کرتے ہوئے شامیانے میں داخل ہوئے تو میری نظر سب سے پہلے کپتان پہ پڑی۔ کپتان اشفاق ہم سے ایک سال سینئر اور کالج کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ میں بہت تپاک سے اسے ملا اور پھر اساتذہ کی جانب گیا تو وہاں مجھے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔ وہ جانی پہچانی آواز حنا کے علاوہ کس کی ہوسکتی تھی۔ ایک لمحے کیلئے یوں لگا کہ گویا دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ہو۔ ہاں۔۔۔۔ وہ حنا ہی تھی۔۔۔ ویسی ہی۔۔۔ خوبصورت۔۔۔ آنکھوں میں چمک۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بیچ کے دس سال اسے چھوئے بنا ہی گزر گئے ہوں۔ میں فوراً اس کے سامنے جاکھڑا ہوا وہ چونک گئی اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی “آخر تم آہی گئے۔”

اس کی آنسو بھری آنکھوں میں کیا تھا کہ میرا دل اس فنکشن سے اچاٹ ہوگیا۔ میں جس مقصد کیلئے آیا تھا وہ پورا ہوگیا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھاما اور پنڈال سے باہر نکل گیا۔ فنکشن میں کیا ہوتا رہا۔۔ اساتذہ اور طلبہ کون کون سے واقعات سناتے رہے۔ ہمیں آوازیں تو آتی رہیں لیکن وہاں ان سب کو سننا کون کافر چاہتا تھا۔ اس کا ہاتھ تھامے میں برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تو اس کے وجود کا اضطراب مجھ پر طاری رہا۔ دھیرے دھیرے اس نے بولنا شروع کیا۔ وہ سوال پوچھتی گئی اور میں جواب دیتا رہا۔ والدین،  بہن بھائی،  نوکری،  شادی،  بیوی،  بچے اور آخر میں مَیں۔۔۔۔ پتا نہیں ان دس سالوں میں کتنا عرصہ اس نے صرف میرے بارے میں سوچتے گزار دیا۔ اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے ان دس سالوں میں کیا کِیا؟  تو اس نے جواب اس طرح دیا کہ جیسے اس کی زندگی کے دس سال نہیں دس دن گزرے ہوں۔ “میں اپواء کالج میں لیکچرار ہوں سجاد ۔۔۔۔  بہنوں کی شادی ہوگئی ہے۔ مجھ سے بڑا بھائی رضا ابو ظہبی میں ایک ریفائنری میں کام کرتا ہے۔ چھوٹا بھائی ہیلے کالج سے بی کام کررہا ہے۔ ابو اور چچا اپنے اسی پرانے کاروبار میں مصروف ہیں۔ ہم نے کرشن نگر والا گھر بیچ دیا ہے۔ اب ہم علامہ اقبال ٹاؤن میں رہتے ہیں ۔ عید پر رضا آرہا ہے چچا کی بیٹی سے اس کی شادی ہوجائے گی۔” میں یہ سننے کیلئے منتظر تھا کہ کب وہ اپنے بارے میں بات کرے گی لیکن وہ خاموش ہوگئی ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے اپنے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ڈھیٹ بن کر میں نے خود ہی پوچھ لیا۔ “اور تم نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا حنا۔۔۔۔ تمہاری شادی کہاں ہوئی؟  تمہارا شوہر کیا کرتا ہے؟  کتنے بچے ہیں؟  کہاں رہتی ہو؟”

اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ تھوڑے وقفے کے بعد بولی ” کیا تمہیں لگتا تھا کہ میں شادی کرلوں گی؟  میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔” اب پریشان ہونے کی باری میری تھی۔ “تم نے ایسا کیوں کیا حنا؟  زندگی ایسے نہیں گزرتی۔۔ کیا تم اب بھی میرا انتظار کررہی ہو؟ ” وہ مسکرائی اور بولی “میرا انتظار تو کب کا ختم ہوچکا ہے ۔۔۔۔ یہ سچ ہے کہ میں نے تم سے محبت کی لیکن تم مجھے کبھی میسر ہی نہ آئے تو مجھے تمہاری محبت کے احساس سے محبت ہوگئی۔ میں نے تمہیں محسوس کیا ہے سوتے جاگتے،  چلتے پھرتے، تہواروں پہ۔۔ ہر لمحہ۔۔ ” وہ خاموش ہوگئی۔ اچانک ہی ہمارے ڈپارٹمنٹ سے گانے کی آواز  گونجنے  لگی۔

جِنہیاں تن میرے لگیاں تینُوں اک لگے تے تُو جانے
غلام فریدا دل اوتھے دئیے جتھے اگلا قدر وی جانے

اس آواز سے ہم دونوں بہت اچھی طرح واقف تھے۔ یہ مبین تھا ہم سے کافی سینئیر اس کی آواز پر ہمیشہ المنائی کا فنکشن ختم ہوا کرتا تھا ۔ مجھے حنا کی صحبت میں وقت گزرنے کا احساس نہ ہوا لیکن میں ابھی بھی حنا سے ملنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ ہم یہیں بیٹھے رہیں۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ “کیا تم مجھے کل مل سکتی ہو؟ ” میں نے پوچھا۔ “سجاد تم نے میرے دل کی بات کہہ دی،  کل جمعہ ہے صبح ملتے ہیں وہیں جہاں ہم اپنی دوپہریں گزارا کرتے تھے۔ باغِ جناح میں لائبریری کے سامنے والی پہاڑی پہ۔ دیکھو انکار مت کرنا قسمت سے ملے ہو۔۔۔ ابھی تمہیں ٹھیک سے دیکھا نہیں کہ وقت ختم ہوگیا۔ میں صبح گیارہ بجے آجاؤں گی۔ تم بھی پہنچ جانا۔۔

صبح مقررہ وقت سے چند منٹ قبل میں مقررہ جگہ پر پہنچ گیا وہ ابھی نہیں آئی تھی۔ باغِ جناح ویسا ہی تھا جیسا دس سال پہلے تھا۔ یہاں کی خوبصورتی دیکھ کر یقین آتا ہے کہ لاہور کو باغوں کا شہر کیوں کہتے ہیں ۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا وہ نہ آئی مجھے لگ رہا تھا کہ وہ نہیں آئے گی۔ تقریباً چالیس منٹ بعد کسی کے قدموں کے چاپ سنائی دی۔ دیکھا تو سورج کی تمازت سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ وارد ہوئی۔ وہ آج بھی اتنی ہی اچھی لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے صحرہ میں بارش کا پہلا قطرہ۔ “یہ سچ ہے کہ آج بھی تم سے محبت کرتا ہوں،  تم میری زندگی کا محور ہو۔ آج تک میں تمہیں بھول نہیں سکا ۔ مجھے معاف کردو کہ میں اس وقت کوئی سٹینڈ نہیں لے سکا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میرے دل نے آج تک تمہارے علاوہ کسی کو قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کہ شادی کے چھ سال ساتھ گزارنے کے باوجود میں نے دل سے سعدیہ کو قبول نہیں کیا۔ مجھے تمہاری محبت کے ساتھ ہی جینا ہے۔ تم میری امید ہو۔ مجھے اس بار ناکام نہیں کرو۔۔۔۔ میں بکھر جاؤں گا۔” وہ خاموشی سے میری بات سُن رہی تھی مجھے لگا کہ وہ انکار کردے گی۔ دفعتاً اس نے اپنے ہاتھ میں میرا چہرہ  تھام لیا اور مجھ سے مخاطب ہوئی   “سجاد ۔۔۔۔عورت اپنا محبوب کبھی نہیں بدلتی۔ یہ میری قوتِ ارادی ہے کہ میں نے کسی کو قبول نہیں کیا۔ تم میری زندگی کا سب سے بڑا سچ ہو۔ میں تمہیں اپنی محبت کی حرارت سے زندہ رکھوں گی۔

فروری کی خوشگوار دھوپ میں مَیں کھڑا ہوا اور سامنے گھاس پر لیٹ گیا۔ میں اس دھوپ کو اپنے اندر جذب کررہا تھا، آنکھیں موندے سو نہیں رہا تھا لیکن میں اس کی موجودگی سے باخبر تھا۔ گھاس، بہار کی آمد کی خوشبو، اس کے سینٹ کی مہک اور سب سے بڑھ کر اس کے اپنے جسم کی خوشبو۔ وہ میرے قریب بیٹھی مجھے محبت بھری نظروں سے تک رہی تھی۔ اس وقت ہم دونوں دنیا سے بیگانے وہاں نہ جانے کتنی دیر خاموش بیٹھے رہے۔ کچھ دن وقت اور حالات کے تابع نہیں ہوتے،  وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ مجھے نہیں پتا اس کیفیت میں کتنا وقت گزرا۔ میں ایک سرُور میں تھا جب اس نے جانے کی اجازت چاہی میں نے وقت دیکھا تو ہمیں وہاں بیٹھے چار گھنٹے سے زائد وقت ہوچکا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے سے رابطے  کیلئے پتے نوٹ کئے اور واپس آگۓ
میں اسی دن اسلام آباد  لوٹ آیا تھا۔ اگلے دن میں نے دفتر سے اس کو ایک عرصے بعد خط لکھا اور جواب دینے کی تاکید کی۔ تین دن کے بعد خط کا جواب میری  میز پر تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا ہم ہر دو تین دن بعد ایک دوسرے کو خط لکھنے لگے اور رابطہ مستقل کی بنیادوں پر ہونے لگا۔ حنا سے رابطے کے بعد میں بیوی سے کچھ کٹ سا گیا۔ ایک عارضی سا شرعی تعلق جو تھا اسے بھی روا رکھنے سے گریز کرنے لگا۔ اس کے بعد سعدیہ سے میری نوک جھونک مستقل بنیادوں پر ہونے لگی۔ میں اس کو وقت دینا چاہتا تھا لیکن میرا دل راضی نہ ہوسکا۔ میں کیا سوچتا ہوں اور کیا محسوس کرتا ہوں سعدیہ اس معاملے میں دماغ اور دل کے بجائے زبان کا وافر استعمال کرنے لگی۔ لیکن وہ بیوقوف عورت اس بات سے بےخبر تھی کہ جب کوئی عورت مرد کے دل سے اترتی ہے تو وہ لاتعلق ہوجاتا ہے۔ انہی دنوں میرا چھوٹا بیٹا سفیان پیدا ہوا۔ سب کی نظروں میں میری فیملی مکمل ہوچکی تھی جبکہ خود کی نظر میں مَیں ادھورہ تھا۔

گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز سے میں قدرے چونکا،  نظر گھڑی پر گئی صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ لازمی بات ہے کہ ذیشان بچوں کو سکول چھوڑنے جارہا ہے۔ میں اب تک نماز کے بعد صوفے پہ ہی بیٹھا تھا۔ جانے کب آنکھ لگی اور بیتی ہوئی زندگی فلم کی طرح چلنے لگی اور میں جاگتی آنکھوں سے سب کچھ اپنی آنکھوں سے محسوس کرنے لگا۔ بستر پر سعدیہ بے سُود سوئی پڑی تھی۔ پوری زندگی میں نے اپنی بیوی کو کبھی صبح سویرے اٹھتے نہیں دیکھا تھا۔ اس بارے میں بات کرنا تو بالکل ہی فضول تھا۔
میں ہمت کرکے کمرے سے نکلا اور ٹی وی لاؤنج میں جا بیٹھا کیونکہ اندر سعدیہ سورہی تھی۔  اتنے میں ذیشان بچوں کو سکول چھوڑتا ہوا اندر داخل ہوا اور مجھ سے استفسار کرنے لگا “ڈیڈی!  رات آپکی مما سے بحث ہورہی تھی؟ ” میں قدرے جھینپ گیا کہ اب اولاد کے سامنے کیا کہوں
“یار وہ مجھے بولنے ہی کب دیتی ہے۔ کچھ کہہ دو تو اونچا بول کر سچا بننے کی کوشش کرتی ہے”۔
ذیشان “ڈیڈی آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے مجھے پتا نہیں ۔ بچپن سے یہ ڈرامہ دیکھتے آرہے ہیں ۔ آپ منہ پر تنقید کردیتے ہیں مجھے دیکھیں۔۔۔۔ میں نے اپنا منہ بند رکھا ہوا ہے۔ اور وہ بھی اس لئے کہ میری بیٹی ہے”۔
“میں تمہیں کیا کہوں ۔۔۔۔تم اور میں تو ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ثوبیہ بھی تو تمہاری ماں کا پرتو ہے۔ ”
میری بات کے جواب میں ذیشان ایک ٹھنڈی آہ بھر کے بولا
“Dady….  You know sometimes we have to adjust,  whether I love my wife or not,  but now this ridiculous married life has become responsibility for my children.”
“تم ٹھیک کہتے ہو پوری زندگی نہ نگل سکا اور نہ اُگل سکا۔ بس بچوں کی طرف ہم دونوں متوجہ رہے ایک دوسرے کی فیلینگ کا خیال ہی نہیں کیا۔ اور اب جب میں دل کی بات تمہاری ماں سے کرنا چاہتا ہوں تو وہ میری بات کو اہمیت نہیں دیتی۔ میرے دل کی باتیں سننا نہیں چاہتی،  اگرچہ کہ دوسرے کو سننا سُکھ کا باعث ہے۔ ”
آج شاید میرے بیٹے کا دل بھی بھرا ہوا تھا میری بہو ثوبیہ خالصتا سعدیہ کی پسند تھی اور ہوتی کیوں نہ اس کی سگی بھانجی جو تھی۔ “لیکن ڈیڈی رات آپ لوگ بحث کیوں کررہے تھے۔؟” اتنے میں ملازم چائے لے آیا۔ “او یار اب ہم دونوں مل کے باتیں کررہے ہیں ۔۔۔۔ نہ ہم نے ٹی وی آن کیا،  نہ موبائل دیکھا ۔۔۔ بس ایک دوسرے سے بات کررہے ہیں ایک دوسرے کے جو دل میں ہے وہ ڈسکس کررہے ہیں یہ تمہاری ماں سے نہیں ہوتا۔ اس کے پاس بکواس ڈراموں کیلئے وقت ہے میرے لئے نہیں ہے۔ اب بندہ اس بات پہ بولے بھی نا۔ یار چوالیس سال شادی کو ہوگئے ہیں،  میرے دل میں بہت باتیں ہیں جو میں مرنے سے پہلے کرنا چاہتا ہوں اور بہتر ہے کہ میں اپنے دل کی بات اپنے جیون ساتھی سے کروں مگر تُف ہے اس عورت پہ کہ اس کے پاس میرے علاوہ سب کیلئے وقت ہے۔” میرے اس طرح کے شکوے سے ذیشان کو محسوس ہوا کہ عمر کے آخری دور میں وہ بیٹے کے سامنے بیٹھا شکوہ کررہا ہے۔ اس نے طے کیا کہ وہ اپنے باپ کے  دل کی بات سنے گا۔ اس میں حرج بھی نہیں ہے،  ڈیڈی خاموش طبعیت بندے ہیں اس عمر میں اگر ان کے ساتھ زیادہ وقت گزار بھی لیا تو کیا ہے۔ وہ نوکری میں اتنا مصروف تھا کہ کبھی باپ کی تنہائی کا خیال نہ آیا۔ الٹا ماں کے ہی شکوے سنتا رہتا کہ ڈیڈی کی وجہ سے ان کی زندگی اچھی نہیں گزری۔ وہ یہ شکوے شکایتیں بچپن سے سنتا آرہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس نے اپنی ماں سے یہ الفاظ بھی سنے تھے کہ تمہارا کسی اور عورت کے ساتھ کوئی چکر ہے جو تم گھر نہیں ٹکتے وغیرہ وغیرہ ۔ “ڈیڈی!  اگر آپ شام کو فری ہوں تو ہم دونوں ذرا واک پہ چلیں،  آپ بھی فریش ہوجائیں گے اور آپ مما کو چھوڑیں ۔۔۔۔میرے ساتھ بات کیا کریں۔”
میں کافی حیران ہوا کہ میرے بیٹے کے پاس میرے لئے وقت کدھر سے نکل آیا۔ زندگی مکافاتِ عمل کا نام ہے میں اپنی شادی کے معاملے کے بعد والدین سے کچھ کٹ سا گیا تھا۔ ان کے ساتھ رہتے ہوئے بھی کچھ اجنبی سا تھا اسی اجنبیت میں دھیرے دھیرے سب سے اس حد تک دور ہوگیا کہ ان کی آخری سانسوں تک خیال ضرور کیا،  احساس کیا لیکن جان بوجھ کے وقت نہیں دیا۔ وقت   نہیں دیا اس کی وجہ صرف میری لاحاصل محبت تھی جس کی تشنگی آج بھی مجھے دنیا بھر سے بیزار کردیتی ہے۔ مجھے امید تھی کہ میں نے والدین کو وقت نہیں دیا یہ بچے مجھے بالکل وقت نہیں دینگے۔ لیکن اب جبکہ میرا بیٹا مجھے کہہ رہا تھا تو پہلے تو میں نے یقین ہی نہ کیا ۔ “یار تم دفتر جاؤ،  شام میں بات کریں گے۔ ابھی تو تمہیں دفتر سے دیر ہوجائے گی۔” یہ کہہ کر جان چھڑائی اتنے میں ملازم نے ناشتہ لگا کر ہم دونوں کو آواز دی۔ اب ہم گھر کے مرد ناشتہ کریں گے اور گھر کی خواتین ابھی بیدار نہیں ہوئیں۔

میں اپنی روزمرہ کی ہلکی پھلکی مصروفیت میں بھول گیا کہ مجھے ذیشان کے ساتھ باہر جانا ہے۔ میں سہ پہر کے وقت کچھ آرام کررہا تھا تو کمرے میں ذیشان آن دھمکا۔ “ڈیڈی آپ تیار نہیں ہوئے؟” میں بھول چکا تھا لیکن وہ الماری سے میرے لئے کپڑے نکالنے لگا۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہم دونوں گھر سے نکل گئے ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میں کچھ چوکنا سا ہوگیا کہ اسے کیا پڑی ہے کہ مجھے یونہی باہر لے کے جارہا ہے۔ ایک شک سا گزرا ہو نہ ہو اسے لازماً اس کی ماں نے کہا ہے کہ باپ سے اُگلواؤ۔ وقت بدل گیا ہے لیکن میں یہ نہیں بھولا کہ گریجویشن میں جانے سے پہلے تک ذیشان ماں کا جاسوس ہوا کرتا تھا میرے پہ کافی نظر رکھتا تھا خاص طور پر جب میں فون پر مصروف ہوتا تھا۔ اس زمانے میں موبائل فون کا تو رواج نہیں تھا لیکن سعدیہ کو شک تھا کہ میں کسی اور کے ساتھ تعلق میں ہوں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی تو تھی نہیں انسان کا رویہ ہی بتا دیتا ہے لیکن اس معاملے میں عورت کا دل مرد سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔ میں نے بھی کوئی کچی گولیاں تو کھیلی نہیں تھیں میں تقریباً روز ہی حنا سے بات کرتا تھا لیکن دفتر سے۔ خیر گاڑی جیسمین گارڈن کی پارکنگ میں داخل ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر ہوا کے پہلے جھونکے نے گویا میرا استقبال کیا ہو۔ اگرچہ   بہار کی آمد آمد ہے لیکن اسلام آباد میں ابھی بھی کسی قدر خنکی چل رہی ہے۔ ویسے بھی زندگی کے اڑھائی سال جو لاہور کی سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے، باغوں میں گھومتے ہوئے آزادی کا جو احساس اس وقت تھا مجھے ہوا کے اس جھونکے نے تروتازہ کردیا۔
سورج غروب ہونے میں کچھ وقت تھا ہم دونوں ارادتاً ایک ایسے  حصے  کی جانب بڑھے جو آباد نہیں تھا۔ میز کے گرد چند خالی کرسیاں زندگی کی بےثباتی بیان کررہی تھیں میں ان کی جانب بڑھا اور سورج کی جانب رُخ کرکے بیٹھ گیا۔ حنا کو سردیوں کی دھوپ کس قدر پسند تھی،  دھوپ میں اس کی رنگت تمتمانے لگتی۔  کالج کے شروع کے دنوں میں مَیں اسے چور نظروں سے دیکھا کرتا تھا۔ جب ہماری بے تکلفی ہوگئی تو تب بھی اسے اسی طرح بےتکان دیکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ اپنی ناک کس طرح سکیڑتی ہے،  کچھ سوچتے ہوئے کس طرح بال پین کی نوک منہ میں دباتی ہے،  ہوا اس کی لہراتی ہوئی زلفوں کے کون کون سے زاویے بناتی ہے۔ ہائے۔ میں کیا یاد کروں اور کیا بھول جاؤں؟
یادِ  ماضی  عذاب  ہے  یارب
چھین لےمجھ سےحافظہ میرا
ڈوبتے ہوئے سورج کی  چند کرنیں بادلوں کو نارنجی کرتی ہوئی شعاؤں کی صورت میں افق پر پھیل رہی تھیں ۔ میں یہ منظر دیکھنے میں اتنا مگن تھا کہ مجھے نہیں پتا چلا کہ کس وقت ویٹر چائے کا آرڈر لے کے چلا بھی گیا۔ تازہ چائے کی مہک سے چونک کر میں اپنی خیالی دنیا سے لوٹا تو ذیشان انہماک سے مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔  میں کسی قدر جھینپ گیا،  لیکن زیشان نے بلا تمہید ہی بات شروع کردی۔ “ڈیڈی۔۔۔۔ اتنی گہری اور مخلصانہ محبت ہی ہے کہ آپ ابھی تک بہت فِٹ ہیں۔” میں اس بات کیلئے ابھی تیار نہیں تھا تھوڑا لفظوں سے کھیلنے لگا ۔ “میرے بچے!  انسان خود کیلئے جیتا ہے،  جس دن اگلے دن کی امید ختم ہوجائے گی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گی۔” وہ اس طرح مسکرایا کہ گویا میرے اندر تک اتر گیا ہو۔ “سچ سچ بتائیے نہ ڈیڈی۔۔۔آپ نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور یہ لازمی طور پر مما کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ ان میں وہ خوبیاں ہی نہیں ہیں جو ایک مرد کو اپنی جانب م راغب رکھ سکے۔” میں اپنے بیٹے کی سچائی سن کے حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے کسی قدر سنجیدہ اور حیران پاکر اپنی بات کو بڑھایا۔ “آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں لیکن ہم میں بہت فرق ہے۔ ہم دونوں باپ بیٹا ہیں میرے چہرے پہ ویرانی اور اداسی ہے شاید کرختگی ہے اور آپ کا چہرہ سنجیدہ ضرور ہے لیکن اس پر زندگی کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔”
“کیا تم نے کسی سے محبت کی ذیشان؟” میرے سوال کے جواب میں اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ “پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کردی آپ نے اور پھر بچے ہوگئے۔۔۔۔ خیال ہی نہیں آیا تمام عمر۔۔۔” وہ بیزاری سے بولا ۔ہوا کے جھونکے میرے چہرے سے ٹکرائے،  فضا ميں سبزے اور گیلی مٹی کی ملی جلی خوشبو تھی۔کہیں دور کسی پرندے کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔ اس تمام منظر نے میرے چہرے پہ قوسِ قزح کے رنگ بکھیر دیئے اور میں اس سے اپنی زندگی کے تجربات شئیر کرنے لگا۔
“اب بتاؤ۔۔۔۔ تمہاری ماں نے تمہیں کیا کہہ کر میرے ساتھ بھیجا ہے؟” میں نے چھوٹتے ہی ذیشان سے سوال کیا۔ وہ میرے غیر متوقع سوال سے پریشان ہوگیا۔ “ڈیڈی ۔۔۔۔ آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟  اور امی ایسا کیوں کریں گی؟” میں تھوڑا غصے میں کہنے لگا ” تم تو بچپن سے ہی ماں کے جاسوس ہو۔۔۔۔ میں یہ بُھولا تو نہیں ہوں تم تو مجھ پہ ہمیشہ چیک رکھتے تھے کہ میں کس سے بات کررہا ہوں کس سے مل رہا ہوں”۔ ذیشان اب خود کو جسٹیفائی کرنے لگا ” ڈیڈی یار ۔ تب میں بچہ تھا لیکن یہ یاد کریں کہ بڑے ہونے کے بعد میں نے ایسی حرکت کبھی نہیں کی اور چھوٹے بھائیوں کو بھی اس حرکت سے باز رکھا۔ لیکن آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کے دل کی بات مما نہیں سُنتیں تو میں نے سوچا کہ ایک عمر میں جاکے باپ بیٹا دوست ہوجاتے ہیں تو کیوں نہ میں آپ سے باتیں کروں تاکہ آپ کی تنہائی کچھ کم ہو۔” ذیشان کی بات سن کر میرا غصہ تو قدرے کم ہوا تو میں نے اسے سمجھانے کی غرض سے بات شروع کی۔ “یہ بتاؤ کہ اگر کوئی عورت اپنی خوشی سے اپنے شوہر کیلئے چائے بناتی ہے یا اس کی پسند کا کھانا بناتی ہے تو کیا وہ اس کی نوکرانی بن جاتی ہے؟” ہرگز نہیں ڈیڈی۔۔۔۔ محبت تو نام ہے توجہ اور کئیر کا ۔۔۔۔ایسا کرنے سے دل میں جگہ بنتی ہے ناکہ نوکرانی۔” اس نے فوراً ہی میری بات کی تائید کی۔ میں نے اس کی بات سن کر اپنی بات جاری رکھی۔ ” یہی اختلاف ہے میرا اور تمہاری ماں کا ۔۔۔ اس کے خیال میں ملازم کا کام ہے گھر کا کام کرنا ناکہ بیوی کا۔ جبکہ شوہر کے چھوٹے چھوٹے کا م کرنے سے اپنائیت رہتی ہے اور محبت بڑھتی ہے۔” ذیشان گویا ہوا “ڈیڈی! میرے حالات بھی آپ سے کچھ مختلف تو نہیں ہیں،  لیکن کیا کِیا جاسکتا ہے؟”
“میری اس بے اعتناعی زندگی میں حنا ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ حنا ۔۔۔۔ میری پہلی محبت ۔۔۔۔۔جس کی محبت کے سحر میں مَیں اتنا کھو چکا ہوں کہ مجھے کسی کی کوئی۔۔۔”
ذیشان حیرت سے میرے چہرے کو تک رہا تھا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی میرے کالج کے زمانے سے اور میں بےتکان بول رہا تھا۔ میں خود حیران تھا کہ واقعات کی ترتیب اور اتنی تفصیل تو شاید مجھے یاد بھی نہیں تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کتنا وقت گزرا میں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتا رہا اور ذیشان حیرت سے بت بنا مجھے سن رہا تھا۔ اچانک مجھے وقت کا خیال آیا تو دیکھا ساڑھے دس بج رہے تھے۔ “اب ہمیں چلنا چاہیے یار تمہاری ماں سوچے  گی  کہ آج تم مجھے ڈیٹ پہ لے گئے ہو۔” یہ کہہ کے میں نے چھیالیس سالہ  تمام واقعات کو ہنسی میں اڑانے کی ناکام کوشش کی۔ اس تمام دورانیے  میں میرا بیٹا ایک لفظ نہ بولا وہ کچھ حیران سا تھا ۔ پارکنگ کی جانب جاتے ہوئے اس نے سوال کیا “ڈیڈی ۔۔۔۔ جس عورت نے آپ کو تمام زندگی اپنی محبت میں مبتلا رکھا آپ نے اس سے شادی کیوں نہ کی؟” میں ان کسی قدر پچھتاوے میں تھا “یار جب تم لوگ چھوٹے تھے تو خیال آیا تھا لیکن شاید میں بزدل تھا۔۔۔اس کی اشاروں کنایوں والی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ دل سے یہی چاہتی ہے کہ میں اس سے خود شادی کا کہوں لیکن اس اللہ کی بندی نے کبھی بھی نہیں کہا۔ وہ تمام عمر میرا انتظار کرتی رہی اور میں حسبِ ضرورت اسے انتظار کرواتا رہا۔” ذیشان اب میرے بجائے حنا سے ہمدردی محسوس کررہا تھا “ڈیڈی۔۔۔۔ میں محترمہ حنا سے ملنا چاہونگا،  اتنی زبردست شخصیت لگ رہی ہیں” میں خاموش رہا۔ “یار وہ جہاں ہے ۔۔۔۔ وہاں سے کوئی لوٹ کے نہیں آتا،  وہ اپنے چھوٹے بھائی کے پاس امریکہ گئی  تھی اور وہیں اس کا انتقال ہوگیا مجھے اس کی موت کا چوتھے دن پتا چلا جب میں نے اسے کال کی اور فون اس کے بھائی نے اٹھایا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ جب میں مروں گا تو مجھے کوئی طاقت اس سے ملنے سے نہیں روک سکے گی۔” ہم گھر کے اندر داخل ہوئے تو وہاں وہی لاتعلقی تھی۔
مجھے یہ تو نہیں پتا کہ میری بہو کیا کررہی تھی لیکن میری بیوی سعدیہ بستر پر نیم دراز ٹی وی پر ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھی۔ اس نے اتنا نہیں کہا کہ تم لوگ کہاں تھے؟ کھانا کھایا یا نہیں ۔۔۔۔میں کھانا لگواتی ہوں؟  یہی سوچتے ہوئے میں کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا۔ باہر آیا تو دیکھا کہ ذیشان ایک ٹرے میں اپنا اور میرا کھانا گرم کرکے لایا ہے۔ میں خاموش ہی رہا اور  کھانا کھانے لگا۔ “بخدا ڈیڈی۔۔۔۔ جس قسم کا رویہ مما کا ہے ۔۔۔ میں ایسی بیوی کی جگہ چار چار بیویاں لانے کو تیار ہوں۔۔۔۔ میرے والی محترمہ تو سو رہی ہیں۔ لیکن میرا آپ جتنا نہ ظرف ہے نہ حوصلہ۔۔۔۔ میں ایسی بیوی سےجان چھڑوا لیتا فوراً یہ سوچے بغیر کہ آگے کیا بنے گا۔ اس گفتگو کے شروع ہونے پر سعدیہ کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“ڈیڈی سارا قصور ہم مردوں کا ہے،  ہم کیوں دبتے ہیں اپنی بیویوں سے؟  ان کیلئے کماؤ،  نان نفقہ کا بندوبست کرو،  ان کی ضروریات کا خیال رکھو،  بچے پیدا کرواؤ اور بعد میں ابھی میں کھانا خود گرم کرکے لارہا ہوں۔ اپنی بیوی ہے تو سوئی ہوئی ہے کہ وورکنگ وومن  ہے کام کرکے تھک جاتی ہے اور آپ کی بیوی ہے اٹھنے کی زحمت ہی نہیں کی مما نے۔ یہ عزت ہے مردوں کی ہمارے گھر میں۔ میں تو ان دونوں عورتوں کے سائے سے اپنی بیٹی کو دور رکھنا چاہتا ہوں کہ اسے بھی اپنے جیسا نہ بنا دیں۔”
سعدیہ کا موڈ تو پہلے ہی خراب ہورہا تھا لیکن اب تو باقاعدہ تیوریاں چڑھی واضح نظر آرہی تھیں۔ “مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟  کیوں فساد برپا کررہے ہو اور یہ گھٹیا خاندان کے چھوٹے لوگوں کی طرح بی ہیو کرنا بند کرو۔ پہلے یہ تمہارے باپ کا مسئلہ تھا اب ہمارا لونگ اسٹینڈرڈ تمہیں بھی مسئلہ لگ رہا ہے،   ہو نہ ہو تمہاری برین واشنگ سجاد نے ہی کی ہے۔” سعدیہ نے اب ہر قسم کا لحاظ چھوڑتے ہوئے اچھی خاصی اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا۔ “مما مجھے کون سکھائے یا سمجھائے گا۔ یہ آپکی وہ  عادتیں ہیں جو ہم تینوں بھائی بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں آپ نے صرف ہمیں پیدا کیا ہے آپ بھول رہی ہیں ہماری پرورش آپ نے نہیں رخسانہ باجی نے کی ہے،  وہ جب تک ہمارے گھر رہی ہیں ہم انہی کے گرد گھومتے تھے۔ تین سال کی عمر میں جاکے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہماری ماں نہیں آیا ہے۔ آپ نے کونسا ہمیں سینے سے لگا کر کبھی سلایا تھا اور میری قسمت خراب تھی کہ میں شادی کا فیصلہ خود نہ کرسکا۔ اور آپ جیسی ہی ایک  عورت  میرے پلے باندھ دی۔ شادی کے پہلے ہی سال میں ثوبیہ سے پیچھا چھڑانا چاہتا تھا لیکن علیزے کے اس دنیا میں آجانے سے میں اپنے ارادے سے باز رہا۔ آپ کی اطلاع کیلئے ارسلان کو خالہ کی بیٹی سے شادی کیلئے میں نے ہی روکا تھا۔ اس وقت تو وہ بیچارہ آپ سے برا بھلا بنتا رہا لیکن آج وہ مجھے اپنا محسن مانتا ہے۔ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اس کی بیوی بہت اچھی اور رکھ رکھاؤ والی ہے اور ویسی ہی تربیت اس نے اپنی اولاد کی ,کی ہے۔ میں اپنے ولید کیلئے اپنی بھتیجی کا رشتہ لوں گا تاکہ وہ اس کرب سے نہ گزرے جس سے اس کا باپ اور دادا گزر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا پرتو ہوتے ہیں او یار ہم دونوں نے اپنی زندگی ضائع کردی ہے اور ادھر بیگمات ہیں کہ انہیں ہماری پرواہ تک نہیں ہے۔” “تو تم اب کیا چاہتے ہو؟  طلاق کروانی ہے اس عمر میں میری اور اپنے باپ کی یا تم نے طلاق دینی ہے اپنی بیوی کو؟ اور تم ماں کے سامنے بیٹے کو کھڑا کردیا ہے خود مظلوم بن رہے ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔ جوانی میں اس کلاس فیلو کے چکر میں آہیں بھرتے رہے ہو۔ تم سمجھتے ہو کہ مجھے پتا نہیں چلتا۔ تم جیسا منافق اور دوغلا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ اگر میں تمہیں اتنی ہی ناپسند تھی تو مجھے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ آج اولاد کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہو۔ خود کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں میری زندگی کو مزید اجیرن نہ کرو”۔  سعدیہ کے تیور وہی تھے ہمیشہ کی طرح سب کو ذلیل کرنے والے۔ “مما آپ حد سے بڑھ رہی ہیں ۔ آپ کو کیامیسر نہیں آیا؟  بتائیں ۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک اچھا اور مہنگا لباس اور زیور پہنتی رہی ہیں۔ فارن ٹرپس پہ جاتی رہی ہیں، آپ کو کبھی بھی روپے پیسے کی طرف سے تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا،  اپنی مرضی کا وقت گزارتی رہی ہیں کبھی شاپنگ میں. کبھی بہن بھائیوں میں،  کبھی سہیلیوں میں۔۔۔۔ کبھی گھر کو وقت نہیں دیا۔ کھانا تو ایک طرف آپ یہ بتائیں آپ نے آج تک محبت کے ساتھ ڈیڈی کو اپنے ہاتھ سے چائے بنا کردی ہے۔ اگر ان کے دل میں کسی اور عورت کا خیال تھا تو اس کی بنیادی وجہ وہ خلا ہے جو آپ نے ڈالا ہے لیکن کبھی اس کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ڈیڈی کی بزدلی یا شاید بڑاپن ہے کہ انہوں نے آپ سے جان نہیں چھڑوائی۔ میرے جیسا شوہر ہوتا تو کب کا چھوڑ دیا ہوتا۔”
میں کھانا کھا چکا تھا اور دونوں کی بات بہت تحمل سے سن رہا تھا۔ “ذیشان!  آج جو ہمارے بیچ بات ہوئی اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ تم گھر آتے ہی ماں کے ساتھ الجھنا شروع کردو۔ یار وقت میں بڑی خوبی ہے کہ وہ بہرحال گزر ہی جاتا ہے۔ اب اچھا گزرا یا برا یہ ہماری سوچ پر منحصر ہے۔ مجھے وہ تمام شکایتیں یا expectations جو اپنی بیوی سے تھیں پوری تو نہیں ہوسکتی نا۔۔۔ اب میں ان سب چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا کیا کروں جن کا وقت گزر چکا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں لاحاصل خواہشوں کیلئے کڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ یاد رکھو جب وقت گزر جائے تو چاہے خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو اس میں کشش باقی نہیں رہتی۔ So far so good اب میں کیا شکوے کروں کیا شکایتیں کروں؟ میں خود اپنی زندگی کے اختتام کی طرف جا رہا ہوں میں نے جو وقت گزارا اچھا گزار دیا۔ ہاں آخری عمر میں تشنگی ضرور رہی کہ تمام عمر گزر جانے کے باوجود میری بیوی میرے دل کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وہ اپنی لذتوں میں پڑی ہوئی ہے،  اس کیلئے میری کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تو میں اس کو کیوں اس بات پر مجبور کروں کہ میری بات سنے۔ میری زندگی رہ ہی کتنی گئی ہے۔ شاید چند ہفتے یا چند مہینے،  ہوسکتا ہے کہ سال کا اضافہ ہو۔ اسے یہ اعتراض ہے کہ میں کسی اور کی محبت میں مبتلا رہا تو اس کو یہ سوچنا چاہیئے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟  یہ سوچنے کی ضرورت کبھی بھی اس نے محسوس نہیں کی۔ ایک شخص کے دل و دماغ پر مہر لگ جائے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مجھے مرنے سے پہلے اپنے دل کی بات کرنی تھی اور وہ بات میں اپنے جیون ساتھی سے کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس تو وقت نہیں ہے،  تو میں نے اپنے دل کی بات بیٹے کے ساتھ کرلی ہے۔ میں جتنا بھرا ہوا تھا تم سے بات کرکے میں نے اپنا کتھارسس کرلیا ہے ذیشان۔ اور یاد رکھو کسی سے بات تب کی جائے جب اس شخص کی نظر میں ہماری بات کی کوئی اہمیت ہو۔ سعدیہ کیلئے یہی کافی ہے کہ شادی کے وقت بھی اس کی میری نظر میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں تھی اور اب آخری عمر میں بھی اس کی میری نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔” میں نے اپنی بات ختم کرکے گویا زندگی کے اس باب کو تقریباً ختم کردیا تھا کیونکہ مجھے اب اس کے ساتھ کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply