ہماری متعصبانہ سوچ۔۔مرزا مدثر نواز

وہ ایک کارخانے میں بطور انچارج ملازمت کرتا ہے جس کے زیر نگرانی متعدد مزدور کام کرتے ہیں جن کا تعلق شہر کے مضافاتی دیہاتوں سے ہے۔ ہر نئے آنے والے اور پرانے ملازم نے اپنے انچارج سے کبھی نہ کبھی یہ سوال لازمی پوچھا کہ سر آپ کا تعلق کس برادری‘ ذات یا قوم سے ہے؟ وہ یا تو ایسے سوال کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے یا پھر اپنے آپ کو کسی غلط برادری سے منسوب کر دیتا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ‘ یہ اچھی بات نہیں ہے‘ ذات‘ برادری یا قبیلے تو صرف پہچان کے لیے ہوتے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ہم جاگیردارانہ اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے جہالت میں ڈوبے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ذات‘ برادری‘ قوم‘ قبیلہ یا نسل کو اعلیٰ و برتر ہونے سے جوڑ دیا گیا ہے لہٰذا جس دن ان کو میری اصل برادری سے تعارف ہو گیا یہ مجھے تعلیم یافتہ اور انچارج ہونے کے باوجود کمی کمین‘ نیچ‘ کمتر ‘ شودر اور اپنے آپ کو نسلی بنیادوں پر اعلیٰ و برتر تصور کریں گے جس کا اثر لا محالہ میری ان سے کام لینے والی کارگردگی پر پڑے گا۔

وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ انتہائی شفیق و بااخلاق‘ ہمدرد‘ پیشے کے لحاظ سے انجنیئر اور زمیندار شخص ہے۔ اسے اپنے انجنیئر بھائی کے لیے ایک طبیب لڑکی کے رشتے کی تلاش تھی جس کے پیچھے ان کا مقصد مستقبل میں ایک فلاحی ہسپتال کا قیام تھا ۔ میں نے اسے کہا کہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے آپ کو رشتہ کیوں نہیں مل رہا؟ رانا برادری میں تو بہت طبیب لڑکیا ں ہوں گی‘ اس کے علاوہ آپ پڑھے لکھے شخص ہیں برادری کی قید سے آزاد ہو کر رشتہ تلاش کر لیں۔ اس نے جواب دیا کہ رشتے تو بہت ہیں لیکن دل نہیں مانتا‘ ہم ایک ایسی طبیب لڑکی کے رشتے کی تلاش میں ہیں جس کے آباؤ اجداد نے تحصیل گورداسپور سے ہجرت کی ہو اور ان کا تعلق رانا برادری سے ہو جسے ثابت بھی کیا جاسکتا ہو۔ اس کے آگے میرا جواب خاموشی تھی۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کا حقیقی پیروکاروہی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی پیروی کرے۔لیکن ہم اپنے مفادات کو دیکھ کر اسلامی تعلیمات کی تشریح کرتے ہیں اور اپنے فعل کی دلیل اپناتے ہیں۔نبوی اور خلافتِ راشدہ کے بعد کسی بھی دور کو آئیڈیل نہیں کہا جا سکتا۔قر آن و حدیث کے ہوتے ہوئے اسلامی تاریخ آپس کے جھگڑوں اور جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے ۔شاید اتنے مسلماں کفّار کے ہاتھوں قتل نہ ہوئے ہوں جتنے اپنوں کے ہاتھوں ہوئے ‘قبروں سے لاشیں نکال کر ان کو پھانسی دی گئی ‘دستر خوان کے نیچے نیم مردہ لاشیں بچھا کران کے اوپر کھانا کھایاگیا‘کلمہ گو بھائیوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے اور نجانے کیا کیا ظلم کیا گیا۔

برِّصغیر پاک و ہند میں آج سے سینکڑوں سال پہلے اسلام کی کر نیں پھیلیں لیکن ہم آج تک  تمدنی طور پر غیر مسلم ہیں۔

ہماری معاشرتی زندگیوں میں جو تبدیلیاں رونما ہو نی چاہیے تھیں وہ نہ ہو سکیں۔ہم میں سے کوئی بھی ایک آئیڈیل مسلم ہونے کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔ہمارا معاشرہ آج بھی جزوی اسلامی معاشرہ ہے اورہندووانہ رسم و رواج کا اثر نمایاں ہے۔ اسے دیکھ کر اقبال کو یہ کہنا پڑتا ہے،
؂وضع میں تم نصاریٰ،تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کہ شرمائیں یہود۔

رشوت،سود،جھوٹ،غیبت،بداخلاقی،دوسروں کا حق مارنا،حسد،بغض،کینہ وغیرہ وغیرہ،کون سی ایسی بیماری ہے جو ہم میں نہیں؟کتنے جاگیرداراورسرمایہ دار ہیں جو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں حصّہ دار بناتے ہیں؟ہم میں سے کون ہے جو جہیز جیسی لعنت کو خوشی خوشی رد کردے ؟کتنے مسلماں خوشی خوشی زکوٰۃ دیتے ہیں؟مملکتِ پاکستان میں کتنی گلیاں اور سڑکیں ہیں جو ناجائز تجاوزات سے بچی ہوئی ہیں؟دوسروں کا حق مار کر کیا ہمیں شرمندگی یا خوفِ خدا ہوتا ہے?

آج کے اس تہذیب یافتہ،مہذّب ،خوشحال اور روشن خیال دور میں بھی طاقتور کمزور کو کھا رہا ہے،غربا ء اور امراء کا فرق نمایاں ہے،برادری اور قبائلی تعصّب کی بناء پر اشرف المخلوقات کی تذلیل جاری ہے۔آج بھی لوگ اپنے حسب   نسب کو مذہب پر فوقیت دیتے ہیں‘راجہ داہر کو محمد بن قاسم سے بڑا ہیرو مانتے ہیں۔بڑے بڑے اہلِ علم اور فضلاء بھی قبائلی تعصّب کی آڑ میں طعنۂ زنی سے باز نہیں آتے‘ان کے اسی علم کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے،
؂علم کز تو ترا نہ بستاند
جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے
جہل زاں بہ بود بسیار
اس علم سے جہل بہتر ہے۔

ہندو معاشرے میں اونچی اور نچلی ذات،برہمن اور دلت کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مسلم معاشرے میں اس فرق کی موجودگی فہم سے بالاتر ہے۔یہ تو وہی معاشرہ ہے جس کے رہبرِ کامل ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اس طرح فرمایا ہو گا،
’’لوگوبیشک تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ ایک ہے۔ہاں عربی کو عجمی پر،عجمی کو عربی پر،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں،مگر تقوٰی کے سبب سے۔
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں۔
تمہارا خون اور تمہارا مال تاقیامت اسی طرح حرام ہے جس طرح یہ دن اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرام ہے۔
ہاں مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے،ہاں باپ کے جرم کا ذمہ دار بیٹا نہیں اور بیٹے کے جرم کا جوابدہ باپ نہیں۔
اگر کوئی حبشی بینی بریدہ غلام بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو‘‘۔
اس معاشرے میں رہنے والوں کا بھی دین وہی ہے جس نے اوس و خزرج،بنوامیہ و بنو عباس اور اس کے علاوہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کئی قبیلوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیااور دشمنوں کو دوست بنا دیا۔لوگ پوچھتے ہیں کہ اے اللہ کے پیغمبرﷺ ہم میں سے زیا دہ مرتبے والا کون ہے تو جواب ملتا ہے کہ جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔کوئی گدی نشین‘ سرمایہ دار‘ جاگیردار ‘سیّد‘ شیخ ‘بٹ ‘خواجہ ‘راجہ ‘ مرزا ‘ راجپوت ‘رانا‘اونچے شملے والا‘ بلند و بالا محل والا‘سیاست دان،جنرل وغیرہ وغیرہ نہیں۔تو کس دلیل پر تم نے معاشرے کی تقسیم کر لی؟اسلام کو ہم نے بطور مذہب تو شاید قبول کر لیا ہے لیکن بطور دین نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج بھی طاقتور کو سات خون معاف ہیں اور کمزور پر حد جاری ہوتی ہے‘سارے قوانین اور دفعات عام آدمی کے لیے ہیں۔یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں تھانے کی عمارتیں ظالم کے ڈیرے بن جائیں اور مظلوم کے کہنے پہ ایف آئی آر درج نہ کی جائے اور الٹا اس پر مقدمات بنا دیئے جائیں۔پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں،طالع آزماؤں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کر دیالیکن آج تک کسی کا احتساب نہیں ہو سکا۔وہ طاقتور شخصیات جن کے بارے میں صدرِپاکستان کہتا تھا کہ اگر عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی تو وہ معاف کر دے گا۔اسی بارے میں آپ ﷺ نے اس طرح فرمایا …
’’تم سے پہلے کی امتیں اسی لیے برباد ہو گئیں کہ  جب معزّز آدمی کوئی جرم کرتا تو تسامح کرتے اور معمولی آدمی مجرم ہوتے تو سزا پاتے،خدا کی قسم اگر محمدﷺکی بیٹی فاطمہؓ سرقہ کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹے جاتے‘‘
اوپر دیئے گئے ارشادات کو ہم ذہن میں رکھیں اور یہ سو چیں کہ کیا ہم واقعی مسلماں ہیں؟ہم نے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کر لیا ہے لیکن کیا ہم باطنی طور پر بھی اسلامی تعلیمات کو قبول کرتے ہیں؟
یوں تو سیّد بھی ہو،مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو،یہ تو بتاؤ مسلماں بھی ہو۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply