درویشی کی تاریخ اور فلسفہ

ایک دفعہ دائگونیس اپنے درویشانہ انداز میں سڑک کے کنارے سورج کی روشنی میں پڑا ہواتھا کہ اس کے پاس سکندر اعظم آیا اور کہنے لگا، اے عظیم استاد، میں سکندر، آپ کے علم اور فلسفے سے بہت متاثر ہوں اور آپ کی خدمت کیلئے اجازت چاہتا ہوں۔ فرمایئے میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں۔
دائگونیس نے آنکھیں کھولے بغیر استفسار کیا، اچھا تم میرے لئے کچھ بھی کر سکتے ہو؟
سکندر نے جواب دیا، اے علم کے استاد اعظم، آپ حکم کیجئے۔۔۔۔ دائگونیس نے ایک آنکھ کھولی، سکندر کی طرف دیکھا ۔۔اور بڑے لا ابالی پن میں کہا، مہربانی فرما کر بس مجھ سے تھوڑا دور ہو جائیے اور مجھ پر سورج کی روشنی پڑنے دیجئے!

یہ تھے دائگونیس، جنہوں نے فلسفے کی دنیا میں سینک فلسفے کی بنیاد رکھی، جس کا بعد میں روم ہی نہیں بلکہ اسلامی فلسفے پر بھی بڑا گہرا اثر ہوا، اسلامی فلسفے میں دائگونیس کے کئی واقعات اور نظریات کو سقراط کے ساتھ جوڑ دیا گیا کیونکہ کئی عرب فلسفیوں کے نزدیک سقراط اور دائگونیس ایک ہی شخصیت کے دو نام سمجھے جاتے رہے۔ بنیادی سینک فلسفہ یہ تھا کہ اگر ہمیں سچ کی تلاش کرنی ہے تو مادی دنیا سے قطعی طور پر الگ ہو جانا چاہئیے۔ اگر انسان اس مصنوعی زندگی سے نکل کر واپس قدرت کی طرف رجوع کرے، تو ہی اسے حقیقی خوشی حاصل ہو سکتی ہے۔ دائگونیس کا خیال تھا کہ انسان جبلی طور پر ظالم نہیں ہے مگر ان مصنوعی شہروں میں رہ رہ کر انسان اپنی اصل شناخت کھو بیٹھا ہے اور تب سے ہی ظلم، جبر اور فساد کا دور دورہ ہوا ہے۔ تاریخ و فلسفے کا طالب علم ہونے کے ناطے میں جب سینک فلسفیوں کو پڑھتا ہوں، گو کہ کئی سینک نظریات سے اختلاف بھی ہے، میں بلا کا لطف اٹھاتا ہوں، یہ انتہائی دلچسپ لوگ تھے۔

ایک دفعہ دائگونیس دوپہر کے وقت شہر میں مشعل لئے ہوئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا، لوگوں نے پوچھا کہ آپ دن میں مشعل لئے کیا ڈھونڈھ رہے ہیں؟ دائگونیس نے کہا میں انسان ڈھونڈ رہا ہوں جو مجھے کہیں مل نہیں رہے۔ سینک فلسفی جہاں انسان کی بنائی ہوئی مہذب زندگی کے خلاف تھے وہاں انہوں نے یونان میں رائج مذہب کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا، بلکہ وہ مذہبی لوگوں کو اور مذہبی تعلیمات کو عجیب و غریب طنز کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اشرافیہ طبقے کے ساتھ ان کا جو رویہ تھا، وہ آپ شروع میں لکھے گئے سکندر اعظم کے ساتھ ہونے والے واقعہ سے سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے تو انسانی تاریخ میں اس وقت سے پہلے بھی کئی درویش صفت شخصیات کا ذکر ملتا ہے مگر سینک فلسفیوں نے باقاعدہ منطق اور فلسفے کے تحت درویشانہ زندگی گزارنے اور ایسی طرز زندگی اپنانے کی تبلیغ کی، چونکہ سینک فلسفے کے مطابق انسان کی زندگی مکمل طور پر قدرت کے قریب اور تمام پیدا کردہ آرائشوں سے پاک ہونی چاہئے لہذا تمام سینک فلسفی اس پر عمل پیرا ہوئے، وہ گھروں کی بجائے سڑکوں اور جنگلوں میں رہتے تھے، نہ ہی انہیں کپڑے بدلنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، انکے شاگرد کھانے کیلئے کچھ نہ کچھ دے جاتے تھے ورنہ بھوکے رہ لیتے تھے۔ دائگونیس خود ایک لکڑی کے بنے ہوئے ڈرم میں رہا کرتا تھا۔ ایک چھڑی، ایک پیالہ اور ادھر ادھر سے اکٹھا کیا ہوا کوڑے کباڑ سے بھرا ایک تھیلا اس کی کل ملکیت تھی، اس نے ان تین چیزوں میں سے پیالہ بھی اس وقت ایک اضافی آسائش سمجھ کر پھینک دیا جب اس نے ایک بچے کو ندی سے منہ لگا کر پانی پیتے دیکھا۔

موجودہ وقت میں درویشی اور فقیری طرز رہن ایک قسم کا فیشن بھی بن چکا ہے، جو کئی خوبرو نوجوانوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسکا براہ راست تعلق سینک ازم سے تو نہیں جوڑا جا سکتا مگر یہ بات سچ ہے کہ جب سینک ازم کی ابتداء ہوئی اس وقت یونان ایک بہت عظیم سلطنت بن چکی تھی، جس میں ہندوستان تک کے کئی علاقے شامل تھے۔ کئی مورخین کا یہ موقف ہے کہ سینک ہندو ازم سے متاثر تھے، مگر دیکھا جائے تو سینک اور ہندو فلسفے میں کافی فرق نظر آتا ہے۔ بہرحال سارے یونان میں سینک ازم اور سینک طرز رہن سہن نے اپنا دیرپا اثر اور شناخت قائم رکھی اور یہاں ایسے گھل مل گئی کہ اب ہندوستان میں ایسے طرز رہن کو سادھو، سنت، فقیر اور درویش جیسے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سینک فلسفی سے جب کوئی پوچھتا کہ آپ کس ملک اور کس قوم سے ہیں؟ تو کہا کرتے تھے کہ ساری دنیا ہمارا ملک ہے اور ہماری قوم انسان ہے۔ یوں سینک فلسفہ انسانیت کا فلسفہ بھی تھا اور سینک ہی وہ پہلے فلسفی تھے جنہوں نے تاریخ میں سب سے پہلے غلاموں اور عورتوں کے حقوق کی بات کی اور کہا کہ قدرت میں سب انسان برابر ہیں، مگر جب سے انسان نے تہذیب سیکھی تو تفریق پیدا کر کے ایک دوسرے سے آزادی کا حق بھی چھیننے لگا۔ آزادی، حقیقی خوشی، قدرت اور انسانیت کے متعلق جو فلسفہ سینک ازم نے دیا وہ ان سے پہلے کئی قابل اور ذہین فلاسفیوں سے الگ اور ممتاز ہے۔ آج بھی کئی اہل علم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سینک ازم فلسفے کی دنیا میں ایک ایسا بلند مقام ہے جیسے زمین پر موجود سب سے بلند پہاڑ!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply