عبدالباسط کی تحاریر

کالے ہاتھی

دو بھاری حجم دار پَٹّوں پر مشتمل پھاٹک جس کی لکڑی وقت کی بے اعتنائی اور موسموں کی شدت سے سیاہ ہو چکی تھی۔ خشکی اور دھوپ سے انچ انچ فاصلے پر عموداً پھٹی ہوئی سیاہ لکڑی پر ٹھسے ہوئے←  مزید پڑھیے

بے مہارے

ہم لوگ کتنے سادہ ہیں، ڈر اور خوف کی فاضل حد کے اندر بنی ہوئی پگڈنڈی پر ہی قدم اٹھاتے ہیں۔ کم از کم میرے نزدیک تو عام آدمی کی سمت حیات حلوے کی تھالی میں انگلی سے کھینچی ہوئی←  مزید پڑھیے

نہ ملے زہر تو اپنا لہو پیتے ہیں

شہر کے سب سے بڑے مقدس گھر میں جس چبوترے پر عظیم خدا زیوس کا مجسمہ کھڑا ہے وہاں یہ الفاظ کنندہ ہیں۔ “اپنی تقدیر پہچانو”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر یہ تقدیر ہے کیا؟ جسم پر سادہ سی چادر لپیٹے، ننگے پاؤں ایک شخص←  مزید پڑھیے

درویشی کی تاریخ اور فلسفہ

ایک دفعہ دائگونیس اپنے درویشانہ انداز میں سڑک کے کنارے سورج کی روشنی میں پڑا ہواتھا کہ اس کے پاس سکندر اعظم آیا اور کہنے لگا، اے عظیم استاد، میں سکندر، آپ کے علم اور فلسفے سے بہت متاثر ہوں←  مزید پڑھیے

ادیب سے ادیب تک

اللہ درجات بلند فرمائے دادا جان ایک فلسفی انسان تھے۔ بھلے وقتوں میں اعلی تعلیم حاصل کر گئے تا دم مرگ کتاب سے ان کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ کوئی بھی مذہبی، فقہی، ادبی اور فلسفے کا موضوع ان←  مزید پڑھیے

تماشا

گھڑی کی سوئیاں رات کا ایک بجانے کیلئے آگے رینگ رہی تھیں۔ زیرو پاور بلب کی سبز روشنی میں ڈوبا ہوا کمرا، کمرے میں موجود سازوسامان، گھڑی کی ٹک ٹک، یہی ایک مدھم مگر تیکھی سرگوشی کمرے کے سکوت میں←  مزید پڑھیے