ایک نہ لکھی جانیوالی کتاب کا دیباچہ

اس دیباچے کے لکھے جانے سے قبل اور شاید اب بھی جبکہ آپ اسے پڑھ رہے ہیں یہ اتنا ہی ادھورا ہے جتنا کہ وہ کتاب جو لکھی جا چکی ہو لیکن اس کا دیباچہ لکھا جانے والا ہو. ممکن ہے دیباچہ لکھوانے کیلئے کسی کے پاس بھیجا گیا ہو. یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تک بھی سوچا نہ گیا ہو کہ اس کا دیباچہ لکھے گا کون. آیا کہ دیباچہ لکھنے والا اس کتاب کے اندر مندرجات سے متفق ہے, اسے پڑھ چکا ہے یا آپ کا بھرم رکھنے کی خاطر دو یا تین صفحات کالے کر دے گا. اور ابھی تو آپ نے کسی کے نام انتساب بھی کرنا ہے. جیسے گورنمنٹ کالج کے ادبی رسالے "راوی" کے ایک مدیر نے کیا تھا. اس نے " ان کے نام جنہوں نے گورنمنٹ کالج سے محبت کی" کو " ان کے نام جنہوں نے گورنمنٹ کالج میں محبت کی" سے بدل دیا. کیا یہ مزید رومانوی نہیں ہو گیا تھا؟
یہ دیباچہ جس کی اصل کا تعین نہیں کیا جا رہا ہے کہ اسکی نوعیت کیا ہوگی، آیا وہ ایک ناول ہوگا یا چند انشائیے اور خاکے، تاریخ ہوگی یا سیاست کے کسی پہلو کا احاطہ کرنے والا کتابچہ، ایک ہتھیار ہے جسے جنگل میں داخل ہونے سے قبل پرکھا جا رہا ہے کہ یہ کس کے شکار کیلئے موزوں رہے گا؟ کیا یہ شیر مار سکتا ہے یا اس کی کاریگری کوے اڑانے تک ہی محدود ہے. اور یہ بیک وقت شکاری بھی ہے جو اتنا با صلاحیت ہے کہ کمزور ہتھیار سے بھی شیر مار سکے اور یہ جانتا ہے کہ آنکھ پہ نشانہ باندھ کر ایسا کیا جا سکتا ہے. اور یہ دیباچہ اس نوجوان ادیب کا اعتماد بھی ہے جو اپنے مسودے، جسے کوئی ناشر چھاپنے کو تیار نہیں ہوتا، کو اپنے کپڑے اور جوتے تک بیچ دینے کے عوض اپنے دم پر چھپواتا ہے. اور ایک بیروزگار نوجوان بھی جو کچھ کمانے کی خاطر بندوق تک اٹھا لینے کو تیار ہو جاتا ہے حالانکہ یہ عمر نظمیں کہنے کی ہوتی ہے.
لیکن اسے ایسی کسی چیز سے گھبراہٹ نہیں بلکہ یہ تو آوار گاؤں کا وہ نوجوان ہے جو گھر سے نکلتا ہے، اور اسکی ماں ایک چراغ جلا کر کونے میں رکھ دیتی ہے, اس امید کیساتھ کہ وہ ایک دن کامیاب لوٹے گا. اور یہی دیباچہ مقدونیہ کا سکندر ہے, لیکن اس کا مصنف اسے بیچ راستے میں نمونیہ سے نہیں مرنے دے گا.
یہ دیباچہ وہ بدھ بھکشو ہے جو اپنا استاد خود ہے. یہ اپنا مقابلہ اپنے اندر موجود قوت سے کرنا چاہتا ہے اور اپنے دھیان کو اندر کی آواز سننے کے علاوہ ہر چیز سے تیاگ دیتا ہے.
اور یہ دیباچہ تو ہما نامی پرندہ ہے جس کی ہستی جہاں ختم ہونے لگے گی اس کی آخری چنگاری سے اک نیا ہما جنم لے گا جو اس کے مصنف کے کندھے پر بیٹھ کر اسے اس کتاب کی شکل میں نئی سلطنت عطا کرے گا.
ساز بجنا شروع ہوتا ہے.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply