گھروندا ریت کا(قسط28)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ایک ڈر پوک دبّو اور سہمے سہمے چہرے والی بیوی کی خواہش کبھی کبھار اُس کے سینے میں اُس وقت مچلتی تھی جب طاہرہ زندہ تھی اور کلب میں برج کھیلتے۔پینے پلانے یا اپنی کسی گرل فرینڈکے ساتھ کسی ہوٹل میں خوش گپیوں میں آدھی رات ہوجاتی۔وہ جب گھر لوٹتا تو اتنا پرلُطف وقت گذارنے کا نشہ ہرن ہو جاتا۔طاہرہ خوابگاہ میں کرسی پر کسی کتاب کے مطالعے میں،نٹنگ یا بچوں کے کسی کپڑے کی سلائی میں مصروف ہوتی وہ جب کمرے میں داخل ہوتا وہ تیکھی نظروں سے اُسے دیکھتی اور یہ نظر اُسے کیاکیا نہ کہہ جاتی۔
پھر پل چھپکتے میں وہ اٹھتی اور ساتھ والے کمرے میں غائب ہو جاتی۔کٹ کھڑاک دروازے بند ہوتے اور کھُلتے۔بچے گہری نیند میں ڈوبے اس ہنگامے سے جاگ جاتے۔پورا گھر شور سے یوں گونجتا جیسے۔گھر پر کوئی ایرریڈ ہوگیا ہو۔اب وہ لاکھ چاہتا کہ کسی طرح اُس کا بگڑا موڈ درست ہو جائے پر تو بہ جس کمرے میں وہ اپنے آپ کو جبری بند کرتی۔وہ چاہے پھر ”طاہرہ طاہرہ“ دروازہ تو کھولو۔میری بات تو سنو۔کہتا کہتا صبح بھی کر دیتا نہ اُس پتھر کو جونک لگتی اور نہ دروازہ کھلتا۔
علی الصبح وہ برتنوں کو زور زور سے بجاتی۔جوتے گھسیٹ گھسیٹ کر خوامخواہ شور پیدا کرتی۔نوکروں کو اُونچے اُونچے ڈانٹ ڈپٹ کرتی۔بچوں پر بلاوجہ ناراض ہوتی اور یہ سب وہ اُسے تنگ کرنے، جلانے اور ستانے کو کرتی۔وہ برتنوں کے شور سے بڑا الرجک تھا۔اُسے گھر میں سکون اچھا لگتا تھا۔عورت کا گلا پھاڑ کر چیخنا چلانا اور اُونچے اُونچے بولنا اُسے ناپسند تھا۔اِن دنوں گھر میں ٹینشن کی ایک فضا قائم کرنا اُس کا محبوب مشغلہ بن جاتا۔
اور پھر اُسے منانے کے لیے اُسے ایک طرح ناک ہی رگڑنی پڑتی۔
یوں طاہرہ بہرحال ایک محبت کرنے والی بیوی تھی۔اُس میں اکڑتھی۔دبدبہ تھا۔تنتنا تھا۔اور یہی چیزیں جب حد سے بڑھ جاتیں تب ان میں زور دار جنگ ہوتی۔طعنوں وتشنیع کے گولے ایک دوسرے کو زخمی کرتے۔

اور پھر وہ ہفتوں کے لئے ایک دوسرے سے دُور ہوجاتے۔
لیکن اب تو جیون کا پانسہ ہی پلٹ گیا تھا۔ایک کمزور دبّو اور سہمے سہمے چہرے والی بے حد خوبصورت لڑکی اُس کی ہر بات پر اپنا سرجھکاتی تھی اس کی شریک زندگی تھی۔جس کی محبت چاہت اور خدمت کے انداز طاہرہ سے بہت مختلف تھے۔
بچوں کے آنے سے وہ بہت مُصروف ہوگئی تھی۔اس لیے اب رحمان بھی دیر سے آنے لگا تھا۔لیکن تھوڑے دنوں بعد اُسے احساس ہوا کہ وہ سوتی نہیں ہے۔بلکہ سونے کا بہانہ کرتی ہے۔
یہ شک اُسے یوں ہوا تھا۔کہ وہ رات کو جس طرح گر پڑ کر سو جاتا صبح قرینے سے لیٹا ہوتا۔چادر سے ڈھنپا ہونے کے ساتھ ساتھ پاؤں سے جرابیں اُتری ہوئی ہوتیں۔ٹانگیں سیدھی اور سر کے نیچے دوتکیے ہوتے۔وہ ہمیشہ سے دو تکیئے رکھنے کا عادی تھا۔
صبح ناشتے پر وہ اُسے دیکھتا۔اس کی آنکھوں کے پپوٹے بھاری بھاری سے لگتے۔چہرہ تکان زدہ ہوتا۔
ایک صبح وہ بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
”نجمی کیا بات ہے۔رات ٹھیک سے سوئی تھیں۔“
اُس نے نگاہیں اوپر اٹھائیں۔اُسے دیکھا اور نرم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیر کر بولی۔
”جی ہاں۔میں نے تو پوری نیند لی ہے۔“
اور وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوتے صرف اتنا بولا۔
”لگتا نہیں۔“
اُس نے پلکیں اٹھا کر پل بھر کے لیے اُس کی آنکھوں میں جھانکا اور پھر فوراً انہیں جھکا لیں۔
وہ خاموش رہا۔رفتر کے لئے تیاری کے دوران بھی اُس نے خاموشی اپنائے رکھی اور جب وہ اسے بریف کیس تھما رہی تھی اُس نے پریشانی سے پوچھا تھا۔
”آپ اتنے چُپ کیوں ہیں؟“
”نجمی بھلا تم اس کی وجہ نہیں جانتیں۔“
وہ گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا۔اس رات وہ پھر دیر سے آیا۔بستر پر خاموشی سے لیٹنے کی بجائے وہ اس کی طرف آیا۔وہ کروٹ بدلے بظاہر گہری نیند سوتی جان پڑتی تھی۔جھک کر اُس نے اُس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا جو تکیے پر بکھرے پڑے تھے اور پھر پیار بھری آواز میں بولا۔
”نجمی“
بند آنکھیں کھُلیں اور اُس نے دیکھا کہ اُن میں نیند کا شائبہ بھی نہ تھا۔
“چور دھوکے باز۔میرے ساتھ ہیرا پھیری کرتی ہو۔”
اس نے اُسے بازؤوں میں بھینچ لیا۔

”تمہاری یہ خاموشی مجھے مار ڈالے گی۔یہ بیگانگی اور اجنبت کیسی ہے؟میں آجکل دیر سے گھر آرہا ہوں۔تمہیں اس دیر کی وجہ نہیں پوچھنی چاہئیے۔تمہیں تو مجھ سے لڑنا چائیے۔جھگڑنا چاہئیے۔میرے دامن کو تھام کر جواب طلبی کرنی چاہئیے یہ جمود جو تم نے اپنے اوپر طاری کر رکھا ہے۔میرا اس سے دم گھٹتا ہے۔“
”نجمی“ اُس نے اس کی پیشانی پر پیار کیا۔
بند پلکوں پر آنسو موتیوں کی طرح چمکنے لگے تھے۔
وہ بے چین ہوگیا۔
تمہاری یہ بے بسی تمہاری آنکھوں پر مچلتے یہ آنسو مجھے پاگل کر دیں گے میں تمہاری پریشانیوں سے آگاہ ہوں۔انہیں سمجھتا ہوں۔تمہارے دُکھوں سے واقف ہوں۔نجمی تم کیا سمجھتی ہو میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر رہا ہوں۔دیکھو جو کچھ ہو چکا ہے اُس پر افسوس اور پچھتاوا بیکار ہے۔ہم ذہنی رفاقت کی اُس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں ایک دوسرے سے الگ ہونا موت تھی۔تمہاری مسکراہٹ اب میری زندگی ہے۔
اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی۔
اپنے سینے پر اس کا سر رکھے اور اس کے بالوں سے کھیلتے ہوئے وہ بول رہا تھا۔اپنے آپ سے جیسے باتیں کرتا ہو۔

انسان بھی کیا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ کیسے اُس کی خواہش بدلتی رہتی ہیں کبھی وقت تھا کہ جب طاہرہ مجھ سے جھگڑاکرتی،الجھتی تب میں چاہتا میری بیوی بڑی دبّو قسم کی ہو۔پر اب تمہاری یہ خاموشی مجھے بے چین کر دیتی ہے۔
میں چاہتا ہوں تم میری جواب طلبی کرو۔ مجھ سے لڑو۔ مجھ سے ناراضگی کا اظہار کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply