بھنگ کے رنگ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ وقت کے تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی سطح پر کرہ ارض میں موجود ہر شے پر ریسرچ ہو رہی ہے اور ہر روز مختلف ریسرچز کے نت نئے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بہت سی بیماریاں لاعلاج تھیں اور لوگ مر جاتے تھے۔ اس کیلئے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ٹی بی جس کی تازہ مثال ہے۔ پھر تحقیق ہوئی اور اس پر قابو پا لیا گیا۔ الحمد للہ ماضی میں ٹی بی جیسے جان لیوا سمجھے جانے والے مرض کا تقریباً سو فیصد علاج آج ممکن ہے۔ آج پاکستان کے اندر نومولود بچوں کو بیشتر جان لیوا اور خطرناک بیماریوں سے حفاظت کیلئے ویکسینیشن بہت کامیابی سے دی جا رہی ہے۔ یہ ریسرچ ہی کا نتیجہ ہے۔

چند روز قبل پاکستان میں بھنگ کی کاشت کو قانونی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مستقبل میں اس کے ادویاتی، صنعتی اور تجارتی استعمال کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا ہے کہ بھنگ سے اگلے تین سال کے اندر ایک ارب ڈالر کا ریونیو متوقع ہے۔ ابتدائی طور پر یہ تین اضلاع میں تھوڑے سے مخصوص رقبہ پر فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی نگرانی میں بھنگ کی فصل اُگائی  جائے گی۔ بعدازاں اس کا دائرہ کار دوسرے اضلاع تک بڑھا دیا جائے گا۔ اس حکومتی فیصلے نے بہت سے دوستوں کو نہ صرف حیرت میں ڈال دیا بلکہ بلا تصدیق سوشل میڈیا پر تمسخر کا بھی موقع دیا۔

ویسے بھی ہماری قوم ایسا موقع ہاتھ سے کہاں جانے دیتی ہے۔ بہرحال خاکسار نے اس حساس موضوع پر لکھنے کی جسارت کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک حساس موضوع ہے لیکن اس پر کچھ لکھنا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بھلے اس پر مجھے “بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا” کے مصداق تنقید کا نشانہ ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ مجموعی طور پر بھنگ کا تاثر ایک نشہ آور پودے کے طور پر لیا جاتا ہے جو کہ درست بھی ہے۔ میں نے جب بھنگ کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ بھنگ کا طب میں استعمال قبل مسیح سے ہو رہا ہے اور آج تک کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ بھنگ کی فصل دنیا کی قدیم ترین فصلوں میں سے ایک ہے۔ طب یونانی میں بھنگ کے پودے کے پتے، تنا، پھول اور بیج کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھنگ کی دو قسمیں انڈکا اور سٹیوا پائی جاتی ہیں۔ ہمارے جید حکماء مخصوص مقدار خوراک کیساتھ مختلف ادویات میں بھنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ اکثر علاقوں میں یہ خود رو پودے کے طور پر پایا جاتا ہے۔ طب یونانی میں بھنگ کے پتوں سے درد کش ادویات بنائی جا رہی ہیں جو جوڑوں کے درد اور دیگر جسمانی دردوں میں بیحد مفید ہیں۔ گویا بھنگ کو کئی صدیوں سے ایک بہترین پین کلر یعنی درد کش دوا کے طور پر کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ چین میں بہت سی ادویات کے اندر بھنگ کا استعمال بہت کامیابی سے جاری ہے۔ ماہرین نباتات کے مطابق بھنگ میں پروٹین، اومیگا اور امائنو ایسڈز بکثرت پائے جاتے ہیں جو دل کی صحت، پٹھوں کی طاقت، قوت مدافعت کی حفاظت کرنے کیلئے انسانی جسم کی لازمی ضرورت ہیں۔ بہت سے ممالک میں باڈی بلڈنگ کے سپلیمنٹس میں بھی بھنگ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کینسر میں بھی اسے مفید پایا گیا ہے۔ اب تو دنیا بھر میں ایلوپیتھک ادویات میں بھی اس کے اجزاء کا استعمال ہو رہا ہے۔ کینسر اور بعض نفسیاتی بیماریوں کے علاج کیلئے بھنگ پر ریسرچ جاری ہے جس میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے۔ بھنگ کا مزاج تیسرے درجے میں سرد خشک ہے۔ بھنگ جو کہ اپنے پتوں میں موجود نشے کی وجہ سے بدنام ہے، میڈیکل سائنس کے مطابق اس کے بیجوں میں رتی برابر بھی نشہ نہیں ہے اور افادیت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اگر آپ دنیا کی بڑی مارکیٹوں میں جائیں تو وہاں آپ کو بھنگ کے بیجوں کا تیل ہر اچھے سٹور سے ملے گا۔ اس تیل کو زیت الخشیش کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں بکثرت استعمال ہو رہا ہے۔ یہ تیل اعلیٰ قسم کی پٹھوں کو مضبوط کرنے والی درد کش دوا ہے۔ اس کے علاوہ بالوں کی مضبوطی کیلئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ بھنگ کے پتوں سے کاغذ اور کپڑا بنتا رہا ہے۔ بعض ماہرین بتاتے ہیں کہ زمانہ قدیم میں جہاز کے رسے بھی بھنگ کے پتوں سے بنائے جاتے تھے۔

بعض لوگ حکومت کے اس فیصلے سے ناخوش نظر آتے ہیں کہ بھنگ ایک نشہ آور پودا ہے اور اس کی کاشت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ انکے تحفظات اپنی جگہ بجا ہیں لیکن کیا مارکیٹ سے تمام کھانسی کے شربت بھی اٹھا دئیے جائیں کہ کھانسی کی تقریباً تمام ادویات میں الکوحل جو ایک نشہ آور دوا ہے کا استعمال ہوتا ہے اور روزانہ ڈاکٹر حضرات لاکھوں کی تعداد میں نسخہ جات کے اندر تجویز کرتے ہیں۔ کیا درد کش ادویات بھی مارکیٹ سے اٹھا دی جائیں کہ ان میں بھی نشہ ہوتا ہے۔ کیا پاکستان میں آج بھی آئس، صمد بونڈ اور بعض پین کلرز اور کچھ دیگر مخصوص ادویات کی صورت میں نشہ کے طور پر استعمال نہیں ہو رہا؟ کیا ہومیوپیتھی پر بھی پاکستان کے اندر پابندی لگا دی جائے کہ تقریباً تمام ہومیوپیتھی ادویات میں نوے فیصد سے زائد الکوحل استعمال ہوتی ہے یعنی الکوحل ہومیوپیتھی ادویات کا بنیادی جزو ہے۔ ہمارے دوست مایہ ناز ہومیوپیتھک ڈاکٹر غلام یاسین نے بلڈ کینسر کے سینکڑوں بچوں کا علاج اسی الکوحل والی ہومیوپیتھک ادویات کیساتھ بہت کامیابی سے کیا ہے اور کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھنگ کے اجازت دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملکی ضروریات اور معیشت کی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدامات کرے البتہ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج اس کے مثبت استعمال کو ممکن بناتے ہوئے اس کے منفی استعمال کو روکنا ہے۔ اس معاملے میں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بھنگ کا مثبت استعمال کس طرح ممکن ہے اس امر پر سخت ترین قواعد و ضوابط بنانے کی ضرورت ہے۔ ضروری قانون سازی کی جائے۔ ٹچ فون آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس کا استعمال مثبت کر رہے ہیں یا منفی۔ آپ چاہیں تو اس پر اپنی مذہبی کتاب پڑھیں یا سنیں، اپنی کلاس کے لیکچر سنیں یا نصابی کتب پڑھیں۔ اگر چاہیں تو اسی ٹچ فون پر فخش موویز دیکھیں یا دیگر منفی سرگرمیوں کیلئے استعمال کریں۔ گویا آپ کے ہاتھ میں موجود چند گرام کا ٹچ فون نسلوں کو سنوار بھی سکتا ہے اور تباہ بھی کر سکتا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔  سوچیے  گاضرور!

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply