بھوت،سڑک اور سنومین۔۔۔روبینہ فیصل

اس کے پاؤں نیچے سے پھٹ چکے تھے، اور ان میں سے خون رس رہا تھا اور وہ جس رستے پر چل رہی تھی وہاں برف کی سفیدی ہی سفیدی تھی۔ منجمد اور شفاف برف۔۔جہاں اب کہیں کہیں اس کے پاؤں سے رسنے والے خون کی سرخی نظر آرہی تھی۔اس عورت کو اپنی منزل کا پتہ نہیں تھا۔ ہاں مگر یہ راستہ اس نے خود منتخب کیا تھا۔۔منزل کے بغیر یا منزل کا تعین کئے بغیر کیونکہ اب وہ خود کو راستے کا انتخاب کرنے کے قابل سمجھنا شروع ہو چکی تھی۔ پہلے پہل اسے اپنی عقل پر بھروسہ کرنے کی عادت نہیں تھی مگر اب وہ کافی ہوشیار ہو چکی تھی اور اب وہ زندگی کی اتنی حیرتیں پڑھ چکی تھی کہ اب حیرت بھی اسے حیران کرنے میں ناکام رہتی تھی اور وہ یہی سوچ کے رہ جاتی کہ اچھا اب زندگی کے کھیسے میں رہ کیا گیا ہے جو مجھے ڈرائے گا؟ اس لئے وہ بے خوف و خطر یہ والا راستہ چن چکی تھی۔۔۔منزل کے بغیر یا منزل کا تعین کئے بغیر۔

اس عورت کے کندھوں پر ایک بڑا سا تھیلہ تھا۔ اُس کے قریب سے گزرنے والے مسافر نہیں جانتے تھے کہ اس تھیلے کے اندر کیا ہے۔۔وہ راہگیروں کے چہروں پر پھیلے سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی مگر ان سب سوالوں کے جواب با آواز بلند بھی نہیں دے سکتی تھی۔اس دنیا کا حصہ تھی تو اس دنیا کے رواجوں کا احترام خود پر واجب سمجھتی تھی۔ وہ ان سب کو بتا سکتی تھی کہ اس تھیلے میں اس کی زندگی کے تمام سال ہیں مگر وہ ان انجانے لوگوں سے یہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ زندگی کی بس پر چڑھی وہ گم شدہ سواری تھی جو اجنبیوں سے اپنے سامان کی حفاظت کرنا خوب جانتی تھی۔
گٹھڑی میں نظر آنے والا دائیں طرف کا ابھار،اس کے بچپن کی تمام یادیں سمیٹے ہو ئے تھا۔ اس میں وہ تمام راتیں تھیں، جو اس کے بچپن میں اس خوف میں آنکھوں میں کٹتی تھیں کہ کہیں کوئی بھوت اسے زندہ نہ نگل جائے۔۔ بچپن کے یہ بھوت کتنی ہی شکلوں میں اس کے گرد گھوما کرتے تھے۔۔جب ابھی وہ گڈیوں کے ساتھ کھیلنے کی عمر میں تھی کہ ایک بھوت کو اس نے ایک دفعہ آدھی رات کو اپنی چارپائی پر بیٹھے پایا تھاجو اس کی شلوار کا آزار بندکھول رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک عجیب سا کھلونا تھا جو اس سے پہلے اس نے کبھی نہ دیکھا تھا، شایدبھوتوں کی دنیا میں بچے ایسے ہی کھلونوں سے کھیلتے ہو نگے۔۔وہ اس جانے پہچانے شخص کو دیکھ کر بھی نجانے کیوں خوفزدہ ہو گئی تھی اور چیخ مار کر اپنی اس رشتے دار عورت کی چارپائی کی طرف دوڑ گئی تھی،جس کا وہ” بھوت” شوہر تھا۔۔ اور پھر وہ “بھوت” اس کے بچپن کی راتوں کے خوف کا سب سے نمایاں جز بن گیا تھا۔۔

پھر اس کی نانی کے گھر کے قریبی قبرستان سے آنے والی جھینگوں کی آوازیں۔۔ موت کے، قبر کے اس بھوت سے اسے ملوایا کرتی تھیں جس سے اس کا ننھا سا دل ساری ساری رات کانپا کرتا تھا۔۔ یہ بوجھ اس کی روح پردن بدن بڑھتا گیا کیونکہ اس کا بوجھ بانٹنے والا کوئی نہیں تھا۔۔ بہنوں کے ساتھ گڈیوں کے گھر بنا نے،کہانیاں پڑھنے اور ان کے ساتھ ریڈیو پر فلمی گیت سننے (جس کی اس وقت اسے سمجھ بھی نہیں آیا کرتی تھی) کے علاوہ وہ ان سے کوئی اور بات نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس کے اور بڑی دو بہنوں کے درمیان ججھک اور حجاب کا ایک ہلکا سا پردہ رہتا تھا۔ تین چھوٹے بھائیوں کے ساتھ پتنگیں اڑانے،گلی ڈنڈا، کرکٹ کھیلنے اور لوگوں کے کوٹھے ٹاپنے کے علاوہ وہ کچھ نہ کرنا چاہتی تھی۔۔ وہ،اپنے بھائیوں کے لئے جان دے سکتی تھی مگر انہیں کسی قسم کے بوجھ میں شراکت دار نہیں بنا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلتی جا رہی تھی کمر پر اٹھائے جانے والے بے حساب بوجھ کی وجہ سے اس کی کمر جھکتی جا رہی تھی۔ وہ رکنا نہیں چاہتی تھی اسے امید تھی کہ یہ راستہ اسے ایک صحیح راستے کے ساتھ ملانے جا رہا ہے۔۔ رسک لینے کی اسے عادت تو نہیں تھی مگر زندگی خود بخود اس کے سامنے دو ایسے راستے لا کھڑے کرتی تھی جہاں ایک میں کم اور ایک میں زیادہ رسک ہوا کرتا تھا۔تو یہ کم رسک والی سڑک تھی جس کے دوسری طرف کھڑا انسان اس کا منتظر تو تھا مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ آنے والی جو اسے اتنی چاہ سے ملنے آرہی ہے۔۔برہنہ پا،خون سے رستے پاؤں لئے جب اس کے پاس پہنچے گی، اپنی گٹھٹری کھولے گی تو اس میں سے کیا نکلے گا؟ بوجھ تو ہو گا مگر کتنا ہوگا، کس قسم کا ہو گا؟ اس کی اپنی زندگی سے میل کھاتا ہوا یا بالکل مختلف نوعیت کا؟اور کتنا بھاری کیا اس کے کندھے اس قابل ہو نگے کہ  وہ ا س انجانی عورت کے بوجھ کو اٹھا سکیں گے؟ پھر بھی اس نے اسے آنے کا کہہ دیا تھا جس کو وہ کبھی ملا نہیں تھا، جسے ٹھیک سے جانتا تک نہیں تھا۔۔ بس اس عورت کے دیس سے آتی ہواؤں میں ایک پیغام ہوا کرتا تھا” میرا الہام کہتا ہے کہ جب میں اپنے دکھوں کی، محرومیوں کی، ناکامیوں کی گٹھری آپ کے سامنے کھولوں گی تو،بس مجھے مکتی مل جائے گی۔۔ان سب سے۔۔۔ میری بھٹکتی ہو ئی روح کو قرار آجائے گا۔۔.”اس نے کہا تھا۔۔۔بہت سوچ بچار کے بعد کہ سوچے سمجھے بنا کچھ کرنا اس کی سرشست میں شامل ہی نہیں تھا، احتیاط اس کی شخصیت کا بڑا اہم عنصر تھی۔پھر بھی کہہ دیا کہ ” آجاؤ۔۔”

اس” آجاؤ “کے اجازت نامے کے بعد اس عورت کا سفید، پتھرائی ہو ئی برف پر چلنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔۔ وہ چلتی جا رہی تھی چلتی جا رہی تھی جانتے ہو ئے بھی کہ وہ شخص ایک راستہ ہے منزل نہیں۔پھر بھی چلنے سے پہلے اس نے اپنے ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں کو سرخ رنگ سے رنگ لیا تھا۔۔وہ چاہتی تھی جب وہ اس انجانے شخص کو ملے جس کے متعلق اسے الہام ہوا تھا یا وہم (ایسی باتوں کے فیصلے تو وقت کیا کرتا ہے) تو وہ اجنبی اسے دیکھ کر بس خوش ہو۔ وہ اس شخص کو جو نہ جانے کیوں اسے پو ری کائنات میں ایک سایہ دار شجر لگنے لگ گیا تھا جس کے سائے تلے وہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو اپنی روح کے اندر اتار سکے گی اور جس کے ہونے کی خبر ایک دن اس عورت کے پاس وقت کا پرندہ لایا تھا۔ وہ پرندہ اس کے کانوں میں اس انجانے شخص کے متعلق وہ گیت گاتا تھا، جس کی دھن اور الفاظ اس کی روح میں اترتے جا رہے تھے۔وقت کا وہ سفید کبوتر، نہ جانے کتنے سالوں سے دو دلوں، دو روحوں اور دو جسموں کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتاآ رہا تھا۔ بہت تجربہ کار لگتا تھا اور اسی لئے سفید کبوتر کے صدیوں پر پھیلے تجربے کی وجہ سے ہی اس عورت کو یقین ہو گیا تھا یا گمان کہ سڑک کے دوسرے کنارے جو شخص کھڑا ہے،وہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔۔۔اگرسفید کبوتر جھوٹ بولنے لگ جائیں تو کوؤں میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا؟یہی سوچتے ہوئے وہ چلتی جا رہی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چلتے چلتے وہ تھک گئی تو ایک پیڑ کے سائے تلے سستانے کے لئے رکی اور اس بات پر غور کرنے لگی کہ۔۔
” پتھرائی، سفیدی سے بھری اس سڑک کے کنارے یہ ہرا بھرا پیڑ نہ ہو تا تو وہ کہاں سستانے کے لئے رکتی؟ اور سانس لینے کو دو پل نہ ملیں تو اس برفیلی پتھریلی سڑک پر کون کتنا چل سکتا ہے اور کہاں میں اسی راستے پر اپنا سارا بوجھ اٹھائے چلی جا رہی ہوں وہ بھی اسے ملنے،جسے میں نے زندگی میں کبھی دیکھا تک نہیں۔۔ یہ ہرا بھرا پیڑ نہ ہو تا تو شائد میں اس سے پہلے آنے والے سفر کو بھی نہ طے کر پاتی۔اس سبز پیڑ کے موجود ہونے کے امکان نے مجھے ہمت دئیے رکھی۔ اور شاید جتنے بھی انسان ہیں وہ سب اس سستانے والے پیڑ کی امید میں ہر طرح کا راستہ طے کرتے آتے ہیں اور اگر وہ اس کے سائے میں تھوڑا سا بھی سستا لیں تو آگے جانے کی ہمت جٹا پاتے ہیں۔”
اسے اپنے سے بھی یہی امید تھی کہ جب وہ بھی یہاں کچھ لمحوں کے لئے سستا لے گی تو اس کے اندر سڑک کا باقی حصہ طے کرنے کی ہمت پیدا ہوجائے گی۔وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے سامان کو ہاتھ سے چھو کر دیکھا کہ اسی وقت گٹھٹر ی کے بچپن والے حصے سے سے کوئی غضب ناک آواز میں چلا یا اووہ کان چیرتی ہوئی آواز اس سڑک تک جو وہ پیچھے چھوڑ آئی تھی اور اس سڑک تک جو اسے ابھی طے کرنا تھی، پھیل گئی۔۔

” جا ؤ جاؤ قرض دار جو دروازہ پیٹ رہا ہے اسے جا کر کہہ دو میں گھر میں نہیں ہوں۔۔” یہ اس بھوت کی آواز تھی جو اس کو دنیا میں لانے کا باعث تھا، او ر وہ ایک بیٹی ہو نے کے ناطے، اپنی حفاظت اس بھیانک آواز کا فرض سمجھتی تھی، مگر بچپن کا یہ بھوت اسے اتنا ڈرادیتا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہو ئے بھی کہ جھوٹ سے اسے نفرت تھی، ہر کتاب میں یہی سبق دہرایا جاتا تھا کہ جھوٹ بولنا سب سے بڑا گناہ ہے مگر وہ ہر کتاب کی نفی کرتی ہو ئی، اپنی ذات کی نفی کرتی ہوئی،اس بھوت کے خوف سے کسی ایک سے نہیں بلکہ ہر دروازہ کھٹکھٹانے والے قرض دار سے جھوٹ بولتی:”وہ جس نے آپ سے پیسے لئے ہیں وہ گھر پر نہیں ہے۔۔ وہ کہیں بھی نہیں ہے۔۔ وہ کہاں ہے؟
میں نہیں جانتی میں کبھی بھی نہیں جانتی تھی اور شاید میں کبھی بھی نہ جان پاؤں کہ وہ کون تھا جس نے مجھ سے اتنے جھوٹ بلوائے۔ وہ کون تھا جسے خدا نے یہ کہہ کر مجھے عطا کیا تھا کہ اس ننھی پری کی حفاظت کرنا اور اس کی ضرورت پو ری کرنا کہ یہ ہر بیٹی پیدا کرنے والے کا فرض ہوتاہے۔۔۔ مگر خود غرضی، لاپرواہی اور خود پرستی کا وہ بھوت اس بچی کے بچپن کے رنگوں، مان سمان، سب کو نگل لیتا تھااور بچی بے رنگ سی رہ جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس وقت وہ عورت اس بچی کا سارا بوجھ کمر پر اٹھائے سوچ رہی تھی کہ:
” اس شخص کو جو سڑک کے دوسرے کنارے کھڑا ہے جسے میں کبھی نہیں ملی، جو مجھے نہیں جانتا اور جو حیران ہوگا کہ ہواؤں کے ذریعے میں نے اسے ملنے کا پیغام کیوں بھجوایا تھا اور وہ حیران ہوگا کہ میں ایسی سرد اورپتھریلی سڑکوں پر چلتے چلتے اس تک کیوں پہنچنا چاہتی ہوں؟”
اس عورت نے ابھی اس شخص کو کچھ نہیں بتایاتھا کہ اس نے ہواؤں کے ذریعے اپنی زندگی کے ایسے اہم اور خفیہ رازوں کو اس تک منتقل کرنے کو خطرناک جانا تھا اسی لئے وہ خود چل کے اس تک پہنچنا چاہتی تھی، جس کے بارے میں وقت کے پرندے نے اس کے کان میں سریلے گیت گائے تھے اور وہ اس کی نکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی زندگی کے سب بے سرے راگ الاپنا چاہتی تھی کہ اسے وہم ہو گیا تھا یا الہام کہ وہ اس کو پھر سے سریلا کر دے گا۔یہ سوچتے سوچتے عورت نے پیڑ کے سائے تلے سے اٹھنے کا فیصلہ کیا تاکہ باقی ماندہ سفر شروع کیا جائے۔ وہ اس شخص کو جس کا چہرہ کسی یونانی دیوتا جیسا تھا ملے بغیر مرنا بھی نہیں چاہتی تھی اور اس تک پہنچنے سے پہلے تھکنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کئی سال پہلے اس نے بچپن سے جوانی میں قدم رکھا تھا تو وقت نے اسے جوانی نہیں ادھیڑ عمری والی زندگی تھما دی تھی۔۔
کام کام اور بہت سا کام۔۔ ہر طرف فرائض کا ڈھیر۔۔ کوئی حق دینے والا نہیں۔۔ کوئی مان دینے والا نہیں اس نے اپنی گٹھٹری کو تھپکا تو اس بیتے ہو ئے زمانے کے دکھ پھول کے کُپا ہو گئے اور اسے احساس دلانے لگے کہ جوانی میں جب لڑکیاں آنکھوں میں خواب سجاتی ہیں، ایک شہزادے کا انتظار کرتی ہیں، تتلیوں اور پھولوں کے رنگوں سے ہونٹوں کو سجاتی ہیں، رات کی سیاہی سے آنکھوں میں کجلا لگاتی ہیں۔۔وہ عمر تو اس پر آئی ہی نہیں تھی۔۔وہ تو اس عمر میں احتیاط سے اپنے ماں باپ کی لاٹھی ٹیکتی ان کے ساتھ روٹی پانی بجلی،گھر کے کرائے کے مسئلے حل کرتی،ایک مشین جیسی زندگی گزار رہی تھی۔۔

اور قدرت کی ستم ظریفی دیکھو جب خواب دیکھنے کا وقت گزر گیا تو ایک دن اس نے گہری نیند میں ایک ایسا خواب دیکھ ڈالا جس میں ایک شہزادہ تھا،جو اسے کہتا تھا کہ روح اور سچ کا رشتہ جسموں کا پابند نہیں ہو تا۔۔ میں ایک دن تمھاری زندگی میں ضرورآؤں گا۔۔ وہ جو ڈراونے خواب دیکھنے کی عادی ہو چکی تھی ایسا میٹھا خواب دیکھ کر چیخ مار کے اٹھ بیٹھی۔ اس صبح اس کا جسم پسینے سے تر تھا۔ان پسینے کی بوندوں میں اسے اپنی کبھی نہ آئی ہو ئی جوانی کی انگڑائی کا عکس نظر آیا تو وہ ڈر گئی۔۔ بھوتوں کا سامنا کرنے کی ایسی عادت پک چکی تھی کہ شہزادے کے عکس نے اسے لرزا دیا۔۔۔ہے نا حیرت کی بات؟ اسے سمجھ جانا چاہیئے تھا کہ جب آنکھیں غلط وقت میں خواب سے حاملہ ہو جائیں تو ان سے جو تعبیر پیدا ہو تی ہے وہ جھوٹ کے سوا کیا ہو تی ہو گی؟ مگر تب تک وہ بچپن کے سارے بھوت اور اپنی “جوانی میں اتری ادھیڑی عمری” کے دور میں سہا جانے والا ایک بہت بڑا جھوٹ نگل چکی تھی اور اس سب سے اس کے جسم میں اس قدر زہریلے مادے پیدا ہو چکے تھے کہ غلط وقت پر درست خواب ان سب کا سائیڈ ایفکیٹ لگ رہا تھا۔۔۔

اوراب سڑک پر چلتے ہو ئے زندگی کے دو جناتی سائز کے جھوٹ اس کی گٹھٹری میں کسی بھاری بوجھ کی طرح پڑے تھے۔۔ جو اس کے بچپن کے بوجھ کو بھی مات دے رہے تھے۔ یہ دو جھوٹ جو محبت کے نام پر اس کی گٹھٹری پر زہریلے پھوڑوں کی طرح اُگے ہو ئے تھے ہر پل اس کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ وہ جھوٹ جب، یکے بعد دیگرے اس کے جسم میں اترے تھے تب تک وہ بچپن کے بھوتوں پر کسی حد تک قابو پا چکی تھی اور وہ بس کسی کچرے کی طرح، راکھ ہوئے ایک طرف ہو کے پڑے رہتے تھے۔۔ مگر ان دو جھوٹوں کا بوجھ بہت ناقابل ِ برداشت ہو گیا تھا اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ابھی اُسے پہلے جھوٹ سے مکمل نجات نہیں ملی تھی اور وہ اس زخم سے کر لا ہی رہی تھی کہ دوسرا جھوٹ اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ ہاں۔۔ ایک اور بڑی اہم بات یہ کہ اگر پہلا جھوٹ اس کا نصیب نہ بنا ہو تا تو دوسرے کی پیدائش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھابلکہ اس کی زندگی میں کسی بھی اور جھوٹ یا دھوکے کا امکان نہ ہو تا۔

مگر اب تو پہلے جھوٹ سے چاروں شانے چت ہو نے کے بعد، موسم ِ خزاں کے ایک رات جیسے سیاہ دن “دوسرے جھوٹ “نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور وہ موسم کے مطابق شاخ سے بچھڑے ہوئے کسی پتے کی طرح اس کی گود میں جا گری۔۔ اور اس کے سینے سے لگ کر اتنا روئی کہ تمام آنسو اس کی شرٹ میں جذب ہو گئے۔ اس عورت کا ایک خیال ہوا کرتا تھا کہ جب کسی مرد کی شرٹ کسی عورت کے تمام نئے پرانے آنسو جذب کر لے تو ان کے دونوں کے درمیان ایک ایسا مضبوط بندھن بن جاتا ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی یا شاید خدا بھی نہیں۔۔آنسوؤں کے اس بندھن پر اسے عورت کو بہت اعتماد ہوا کرتا تھا اسی لئے اس عورت نے دوسرے جھوٹ کے سینے میں نہ صرف پہلے جھوٹ کو دفن کر دیا تھا بلکہ بچپن اور جوانی میں اتری ادھیڑ عمری، اور ان سے جڑے تمام جھوٹ سچ،سیاہ سفید۔۔۔سب کے سب اس کے سینے کے سپرد کر دئیے تھے،پل دو پل اسے لگا کہ وہ ہلکی پھلکی ہو گئی ہے۔ اوروہ سینہ پھلا کر پھرنے لگا تھا۔ اورجیسے جیسے اسے اس مرد پر اعتبار آتا گیا ویسے ویسے وہ اپاہج ہو تی گئی، اس کے ہاتھ پاؤں ساتھ چھوڑنے لگے اور وہ اس کی بیساکھی بنتا گیا۔ اور وہ سوچنے لگتی کہ کیا خواب میں نظر آنے والا شہزادہ وہی ہے۔۔؟
اس سوال کا جواب وقت نے اسے منفی میں دیا اور بہت برے طریقے سے دیا۔

کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نام نہاد شہزادے نے بھی بھوت کا روپ دھار لیا اور چونکہ اس بھوت کے سینے میں اس عورت نے اپنے تئیں ماضی کے تمام بھوت دفن کر دئیے تھے اورپرانے بھوتوں کو کھا کر یہ نیا بھوت بہت توانا ہو چکا تھا اتنا توانا کہ جب شہزادے سے بھوت بنا تو اس عورت کا تمام خون چوس کے اس کی ہڈیاں تک کھا گیا۔ یہ صدمہ زندگی میں آنے والے اب تک کے سب صدموں کا سردار نکلا۔ اس دن اس عورت کو احساس ہوا کہ کسی بھوت کو غلطی سے شہزادہ سمجھنے کا انجام اصلی بھوتوں سے مقابلہ کرتے کرتے زندگی کاٹ دینے سے کہیں سو گنا زیادہ بھیانک ہو تا ہے اور اس کے بعد کسی بھی برفیلی اور پتھریلی سڑک پر چلنے سے ڈر نہیں لگتااور انسان ننگے پاؤں کانٹوں پر بھی باآسانی چل سکتا ہے۔غرض یہ کہ ماضی کے بھوتوں سے پیچھا چھڑانے کا وعدہ کر کے جو خود بھوت بن جائے، وہ سب سے زیادہ ڈراونا اور ناقابل فراموش ہو جاتا ہے۔۔ اس بوجھ سے عورت کی گٹھٹری اتنی بھاری ہو چکی تھی کہ اب اور کوئی بوجھ بوجھ ہی نہیں لگتا تھا۔
مگر ایک کام اور یہ ہوا کہ شہزادے کے بھوت بنتے ہی ماضی کے تمام بوجھ پھر سے طلسم سے آزاد ہوگئے اور اس کی گٹھٹری میں آ موجود تھے۔ پہلا جھوٹ، بچپن، ادھیڑ عمری اور اب جوانی سب غلط ملط مگر سب اس کے پاس موجود، اس کی آنکھوں کو ویران کرنے، اس کے معدے کو الٹنے آپہنچے تھے۔۔ اب سب کچھ اس کے پاس تھا، اس کی کمر پر لدا ہوا، اس کی آنکھوں میں ٹھہرا ہوا، اس کے سینے کو زخمی کرتا ہوا، روح میں شگاف ڈالتا ہوا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب وہ زندگی کا پھر کم رسک والا راستہ لے چکی تھی۔۔ جو سرد تھا، جس پر برف جمی تھی، جس کا رنگ صرف سفید تھا۔۔ مگر برفیلے راستے میں اس عورت کی آخری امید اس راستے کی” شفافیت” تھی۔۔ برف کے سرد اور بے رنگ ہونے کے باوجود۔۔۔۔۔
اور بالاخر وہ عورت،سرد اور سفید برف کے راستے سے ہوتی ہوئی جب اس شخص تک پہنچی، (جس کے متعلق سفید کبوتر نے اس عورت کے کانوں میں میٹھے گیت گائے تھے اور جس شخص کواس نے ہواؤں کے ذریعے اپنی آمد کی اطلاع دی تھی،) کہ اس تک پہنچنے سے پہلے اس کی گٹھٹری اتنی بھاری ہو چکی تھی اور تھکن اس کی روح تک اتری ہو ئی تھی کہ اس اجنبی انسان کو دیکھتے ہی اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ وہ کوئی بھی چیز محسوس کرنے کے قابل نہ تھی۔۔ نہ خوشی، نہ خوف، نہ کوئی حیرانی۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کم رسک والا راستہ اسے کہاں تک لے کر جائے گا۔ مگر زندگی کو زندوں کی طرح جینے کی یہ اس عورت کی آخری کوشش تھی اور وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ دیوتا وں جیسا مدہم مدہم سا، دھیما دھیما شخص اس کے ماضی کے بھوتوں سے اس کا پیچھاچھڑوا دے گا یا اسے انہی راستوں پر پتھر کا بنا دے گا؟ وہ نہیں جانتی تھی مگر اس کے پاس اب نہ سوچنے کا وقت تھا اور نہ کھونے کو کچھ ایسا تھا جسے وہ پہلے نہ کھو چکی ہو۔۔ وہ نڈر ہو کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے باتیں کرتی رہی، اپنے بالوں اور اس کے ہاتھوں سے کھیلتی رہی، اوراپنی خود پر کبھی نہ اترنے والی جوانی کھوجتی رہی اور یہ سب کرتے ہو ئے وہ پل پل پگھلتی گئی بغیر کسی احساس کے۔۔۔۔سرد اور سفید برف والے راستے پر اب رات اتر چکی تھی۔۔ وہ خود کو اس رات کو سونپ چکی تھی۔ اسے اس رات کی صبح کا انتظار بھی نہیں تھا، بلکہ اسے اب کسی بھی صبح کا انتظار نہیں تھا۔ ساری عمر سرد اور برفیلے راستوں پر چلتے چلتے اسے کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ کالی رات میں بھی کبھی کبھی رنگ اترا کرتے ہیں۔۔یا شاید سوچنے کا وقت ہی کبھی نہیں ملا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چاروں طرف جب گلاب کے پھولوں کی خوشبو پھیلی تو اس عورت کی آنکھیں اپنے ہی پانی سے دھندلا گئیں۔یہ خوشی کے چند قطرے تھے جو آنسو بن کر چمک رہے تھے کہ گلاب سے محبت ہونے کے باوجود بھی اس نے کبھی ساری زندگی ایسے گلاب نہیں دیکھے تھے،جن کی خوشبو رات کو ایسے مہکا دے جیسے ہر طرف خوشبوؤں کی بارش ہو گئی ہو،جیسے زندگی سے ساری بدبو دھل گئی ہو اوررات کے اندھیرے میں اتنی روشنی پھیلی کہ اس کی آنکھیں دھندلانے کے ساتھ ساتھ چندھیا بھی گئیں۔۔۔ایسی خیرہ کرنے والی روشنی کی اس کی آنکھوں کو عادت ہی کب تھی۔اس کے سارے کے سارے بوجھوں کی گٹھٹری ایک طرف دھری تھی۔۔۔ دھری ہی رہ گئی۔ وہ شخص جس کے ہو نے کی گواہی عورت کو اس کی طرف سے آنے والی ہوا ئیں دیا کرتی تھیں اس کے سامنے تھا۔وہ اس کو دیکھ سکتی تھی، چھو سکتی تھی محسوس کر سکتی تھی۔۔اس شخص نے اس عورت کی زندگی کی گٹھٹری کھولنے کے بعددھیرے دھیرے اپنے بوجھ کی گٹھری کھولنی شروع کی۔۔کس نے کس کا کتنا بوجھ کم کیا، سب سوال پیچھے رہ گئے تھے اور وہ دونوں وقت کی رفتار سے آگے نکل گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپس جاتے ہو ئے سرد برفیلے راستے پر چلتے ہو ئے وہ عورت ایک دفعہ پھر سے تنہا تھی اور سوچ رہی تھی;
” برف میں گلاب کھل جائیں تو ماضی کے سارے بھوت غائب ہو جاتے ہیں ”
اور وہ شخص اس کی تنہائی کو دیکھتے ہو ئے سوچ رہا تھا کہ
” ساری عمر برفیلے راستوں پر چلنے والوں کی تھکن کتنی ناقابل ِ علاج ہو تی ہے۔”
وفادارہواؤں نے حسب عادت یہ” سوچ” فوراً عورت تک پہنچا دی۔ اسی سمے عورت نے چونک کر پیچھے کی طرف دیکھا تو کیا دیکھتی ہے کہ وہاں تو صرف ایک” سنو مین” کھڑا تھا، سفید اور سرد۔۔تو کیا وہ” ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ” فقط اس کا ایک وہم تھا؟۔۔ تو کیا وقت نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ کوئی الہام نہیں تھا بلکہ ایک وہم تھا؟
سنو مین کی چمکتی آنکھوں کی جگہ دو بے جان سے سرخ بٹن نظر آرہے تھے جن میں اس عورت کی سرد زندگی میں سرخ گلاب نہ بھیجنے کا سندیسہ بڑا واضح تھا۔کم از کم سفید کبوتر کے گیت اور وہ شخص کوئی بھوت نہیں،کوئی جھوٹ نہیں تھے بس زیادہ سے زیادہ ایک” وہم” تھے۔
اس بات کا ادراک ہو تے ہی عورت کی آنکھوں میں چند لمحوں کے لئے غائب ہو جانے والی صدیوں کی تھکن پھر سے اتر آئی کیونکہ سنو مین کوئی وہم نہیں تھا،وہ سرد اور سفیدبُت ایک حقیقت تھا۔۔بہت بڑی حقیقت۔
یکا یک ماضی کے سب بھوت پھر سے اکھٹے ہو کر اس کے سامنے سینہ تانے آکھڑے ہو ئے اور وہ اندھا دھند اسی سڑک پر تن تنہا واپس بھاگنے لگی جن برفیلے راستوں سے وہ چل کر آئی تھی۔۔۔ ابھی ابھی تو آئی تھی۔۔۔ صرف ایک رات پہلے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply