وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے

مختلف سیاسی جماعتوں کے سیاسی اکھاڑے سج رہے ہیں جہاں ایک دوسرے پر الزاموں کے تیر برسائے جا رہے ہیں وہیں ایک دفعہ پھر سے عوام کالانعام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں اور بے بس عوام دکھائے جانے والے سبز باغوں کی چھاؤں تلے آرام محسوس کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک سردار جی گھر سے نکلے تو دروازے کے سامنے کیلے کا چھلکا پڑا تھا اس پر پاؤں آیا اور پھسل کر چوٹ لگوا بیٹھے۔ اگلے دن بھی ایسے ہی ہوا۔ تیسرے دن نکلے تو زور زور سے رونا شروع کر دیا کسی نے پوچھا سردار جی کیا ہوا تو بتایا کہ آج پھر پھسلنا پڑے گا۔ کیلے کا چھلکا آج بھی پڑا ہوا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت ہماری بھی ہے، ہم ووٹ دیتے ہیں ۔ حکمرانوں کی آسائشوں پر پانچ سال کُڑھتے ہیں جلتے ہیں۔ پانچ سال گزارتے ہیں پھر سے انتخابی مہم شروع ہوتی ہے وہی وعدے وہی ارادے وہی سبز باغ۔ ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ اب ووٹ تو انہیں دینا ہی پڑے گا۔ اتنے بڑے بڑے دعوے کسی اور نے کئے ہیں بھلا؟
میں نے سوچا ان وعدوں اور دعووں کا احاطہ کروں جو چار سال قبل ہونے والے الیکشن سے قبل ہمارے مجوزہ حکمرانوں نے ہم سے کئے تھے کسی نے روشن پاکستان کے خواب دکھاتے ہوئے تو کسی نے تبدیلی کا نعرہ لگاتےہوئے اور کسی نے ایک واری پھر کے نعرے سے ہمیں ڈراتے ہوئے۔ لیکن ذہن پہ زور دینے کے باوجود کسی کا کوئی وعدہ یاد نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیا ہو گیا ہے ہمارے ذہن کو ہم اپنے مہربانوں کے وعدے تک بھول جاتے ہیں۔ کیسے چلے گا۔ ہم نے اپنے دماغ پہ زور دیتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کی کہ اس نے جلے بھنے لہجے میں بتایا کہ جب یہ تمام ڈیٹا سوشل میڈیا پر مل سکتا ہے تو کیوں ایسے کاموں کے لئے بار بار ہمیں تنگ کرتے ہو۔ ہم نے شرمندہ ہوتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور اسے دوبارہ سونے کے لئے چھوڑ کر اپنے مطلوبہ ہدف کی تلاش میں نکل پڑے ۔ اگر آپ کا ذہن بھی میری طرح بھلکڑ ہے تو آئیے کچھ دوہرائی کر لیں۔ بلکہ ایک کھیل کھیلتے ہیں۔ میں صرف ان وعدوں اور دعوؤں کا ذکر کروں گا جو مختلف پارٹی لیڈرز نے 2013 الیکشن میں کئے تھے۔ آپ نے متعلقہ پارٹی کا نام بتانا ہے۔
1۔ کیا آپ کو خوشحالی سے ہمکنار پاکستان چاہئے؟ یا پاکستان کے لئے بدامنی ،دہشتگردی اور افرا تفری چاہئے؟
٭ میں پاکستان کی تقدیر کو بدلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روشن پاکستان نظر آ رہا ہے۔
٭قوم کو بھکاری بنا دیا ہے مجھے یہ قبول نہیں ہے۔
٭اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔
٭ ہم پاکستان کو دنیا کی پہلی اقتصادی قوت بنائیں گے۔
٭ نوجوانوں کو باعزت روزگار اور بغیر سود کے قرضے دیں گے۔
٭ تعلیم سب کے لئے، پینے کا صاف پانی اولین ترجیح، بروقت سستا انصاف۔
٭ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اگر فلاں پروجیکٹ کو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا جا سکتا ہے وغیرہ تو بجلی کا بحران کیوں نہیں حل ہو سکتا؟
٭ اگر اندھیرے دو سال میں ختم نہ ہوئے تو میرا نام۔۔۔۔۔ نہیں ہے۔ ملک میں بجلی کا مسئلہ ہم ختم کر دیں گے۔ہم چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائیں گے۔
٭ بجلی کے ریٹ بڑھے تو چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
٭ کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائیں گے جو کہ سات گھنٹوں میں کراچی سے پشاور جبکہ ساڑھے تین سے چار گھنٹے میں ملتان پہنچے گی۔ کراچی کی وہ خدمت کریں گے کہ کراچی بھی یاد رکھے گا انشاء اللہ۔
٭ ہزارہ کو الگ صوبہ بنائیں گے۔ ٭ چنیوٹ میں لوہے سونے اور تانبے کے انبار ہیں۔ اب ہم کشکول کو اوپر سے پھینک کر توڑ دیں گے۔
٭ میں نے فلاں کو فلاں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام فلاں فلاں نہیں ہے۔
(2)میں ہمیشہ اپنی قوم سے سچ بولوں گا۔
٭ پاکستان سے ظلم ختم کرنے کے لئے ہم جہاد کریں گے۔
٭ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہو گا میری جائیداد ملک سے باہر نہیں ہوگی۔ نہ اقتدار سے فائدہ اٹھاؤں گا نہ رشتے داروں کو نوازوں گا۔
٭ آپکے پیسوں کی حفاظت کروں گا۔ کسی بھی ظلم میں ہر پاکستانی کے ساتھ ہم کھڑے ہوں گے۔
٭ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔
٭ 90 دن میں بلدیاتی انتخابات کرائیں گے۔ کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے۔ ملک کو اسلحے سے پاک کر دیں گے۔
٭ لوڈشیڈنگ کے مسائل تین سال میں حل کر دیں گے۔ صوبائی گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز کو لائبریری یا تعلیمی اداروں میں بدل دیں گے۔
٭ 5 سالوں میں تعلیم پر 2500 بلین خرچ کئے جائیں گے۔سرکاری سکولوں پر پانچ گنا زیادہ خرچ کیا جائے گا۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فروغ۔ وزیروں کو فنڈ دینے کی بجائے لوکل ذمہ داران کو فنڈ دئیے جائیں گے۔
(3) جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنایا جائے گا۔ مردان میں یونیورسٹی کا قیام کریں گے۔
٭ مردان میں خواتین کے لئے الگ سفر کے ذرائع۔
٭ دوسرے فیز میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ 2000 کرنے کا پروگرام اور اس کے دائرہ کار میں اضافہ۔
یہ ہے خلاصہ ان سبز باغات کا جو2013 کے الیکشنز سے پہلے ہمارے مجوزہ حکمرانوں نے ہمیں دکھائے۔
دھاندلی صرف یہی نہیں کہ ملک کا پیسہ چرایا جائے باہر بھیجا جائے یا اپنوں کو نوازا جائے وغیرہ یقیناً یہ بھی دھاندلی ہی کی ایک قسم ہے کہ جب ووٹ مانگنے آئیں تو فلک شگاف نعرے ماریں اور جب منتخب ہو جائیں تو اپنے کئے ہوئے وعدوں کو یکسر بھول جائیں۔
چھوڑیں جی ہم بھی کیسی باتوں میں الجھ بیٹھے ہیں۔ آئیے کچھ سیریس گفتگو کرتے ہیں۔ کیوں نہ ایک تجربہ کیا جائے اور الیکشن سے قبل تمام جماعتوں سے ان کا لائحہ عمل منگوایا جائے۔ جس میں تفصیل سے درج ہو کہ ہم برسر اقتدار آنے کے بعد صوبوں اور وفاق کی سطح پر کون کونسے ترقیاتی پروگرام شروع کریں گے اور کتنی مدت میں کونسا پروجیکٹ مکمل ہو گا۔ صوبائی اور ملکی سطح پر پارٹیوں کے لائحہ عمل کو عوام کے سامنے رکھا جائے پھر عوام جسے سلیکٹ کرے لیکن ایک شرط پر پارٹیز کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے وہ یہ کہ پانچ سال مکمل ہونے پر آپکے بتائے ہوئے لائحہ عمل پر ٪100 عمل ہو چکا ہونا چاہئے۔
جب اگلے الیکشن کی مہم شروع ہو تب جائزہ لینے والا جائزہ لے کہ صوبائی و وفاقی حکومتوں نے اپنے بتائے لائحہ عمل پر کتنا عمل کیا ہے اگر ٪75 حصہ مکمل نہ ہوا ہو تو صوبائی اور وفاقی سربراہ کا مواخذہ کیا جائے۔ مواخذہ کو جتنا سخت کیا جائے اتنا ہی ملک و قوم کے لئے سود مند ہو گا۔اگر کسی ایک کو لٹکا دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو گا۔ ویسے بھی عوام تو آئے روز قربان ہو ہی رہی ہے پھر بھی ملک کی حالت نہیں سدھر رہی تو کیوں نہ ایک قربانی اشرافیہ کی بھی کر کے دیکھا جائے۔ شاید ہماری سنی جائے لیکن مواخذہ کرے گا کون؟ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟شاید الیکشن کمیشن، شاید سپریم کورٹ، شاید آپ، شاید ہم،
لیکن اب کچھ ہٹ کر کرنا ہو گا۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply