یوگا یوگاکردی نی میں آپے۔۔۔۔اسد مفتی

بیس سال کے اندر اندر یورپ میں سو سال کی عمر تک جینا عام بات ہوگی۔
یہ میں نہیں  کہہ رہا بلکہ سائنس دان کہہ رہے ہیں ،کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بھارتی نژاد ڈاکٹر شرد تلجا پور کے مطابق اوسط  زندگی میں اضافہ جو علاج اور بیماری کی روک تھام کے شعبوں کی ترقی کی وجہ سے ہورہا ہے،اس دنیا میں رہنے والوں کی زیست کو بدل دے گا۔اس کے ساتھ گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں گی ،جن میں بوڑھوں کی تعداد میں ایک بہت بڑا اضافہ بھی شامل ہے۔
ایک نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ یا پنشن کی عمر بڑھا کر 85  سال کردی جائے،دوسرا اولڈ پیپلز ہوم(جن کو ہالینڈ میں گیسٹ ہاوس کہتے ہیں )کی تعداد بڑھا دی جائے ۔
یہ سب کچھ 2018 کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے جب انسانی زندگی اتنی تیزی سے بڑھنی شروع ہوگی کہ ساٹھ ستر برس میں بیمار پڑنے والوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے گا،ڈاکٹر تلجا پور کر کی تحقیق کے مطابق یہ عمل جس میں تیزی جار ی رہے گی،2040 تک کا ہوسکتا ہے۔اس دوران اوسط زندگی میں 20 سے 25 سال کا اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں اوسط زندگی 80 سال تک پہنچ جائے گی۔
انسان نے تقریباً ساری دنیا کھنگال ڈالی ہے،بے شمار خفیہ گرم سرد اور مختلف نمکیات سے پُر چشمے بھی مل گئے ہیں ،لیکن “جوانی کا چشمہ”اور آبِ حیات نہیں مل سکا۔علم و تحقیق کے مطابق بڑھاپے یا عمر میں اضافہ کا سلسلہ پیدائش کےدن سے ہی شروع ہوجاتا ہے،بچے کا بڑا ہو کر بالغ ہونا پھر بڑھاپے میں قدم رکھنا جس کے بعد اضافہ ء عمر کے سبب انسان کی کارکردگی گھٹنے لگتی ہے،جو بلآخر موت پر ختم ہوجاتی ہے،گویا عمر میں اضافہ بڑھاپے کاانجام موت ہوتا ہے۔
بڑھاپے آغاز کب سے ہوتا ہے؟
آدمی کب بوڑھا ہوتا ہے؟
جسم میں تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

بڑھاپے کے حوالے سے یہ اہم سوالات ہیں ۔جن کے جوابات یقیناً قارئین کے علم میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے۔
میرے حساب سے سائنس جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور موت کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کرتی ہے،لیکن دو سوالوں کے جواب دینے سے فی الحال قاصر ہے۔(جس کی تگ و دو میں وہ بڑا مصروف ہے)
پہلا سوال  یہ ہے کہ اضافہ عمر اورموت کا کوئی مقصد ہوتا ہے؟
اور اگر ہے تو مقصد کیا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ طویل عمری یا طویل شباب کی تلاش میں انسان صدیوں سے سرگرداں ہے،آبِ حیات “چشمہ شباب”،”امرت” وغیرہ وغیرہ اس کے ثبوت ہیں ۔
سکندر اعظم سے بھی پہلے لوگ یقیناً اس کی آرزو اور تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے،سکندر اور خضر کا واقعہ صدیوں سے مشہور چلا آرہا ہے۔چشمہ شباب کی تلاش اور اس کا پانی پینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسان ہمیشہ  جوان اور توانا و صحت مند رہے اور لمبی عمر پائے۔تلاش کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔محققین اور سائنسدان بڑھاپے کے عمل کو کنٹرول یا سست کرنے ،اسے جوانی میں تبدیل کرنے اور موت کو شکست دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اس تلاش کے سلسلے میں گزشتہ صدی میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔جن کے نتیجے میں یورپ اورامریکہ میں عمر کے اوسط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔،لوگ اب محسوس کرتے ہیں کہ نمایاں طور پر کمی واقع ہوچکی ہے۔دوسرے امراض اور معذوری کی شرح میں بے حد کمی آچکی ہے۔صحت و صفائی،علاج معالجہ اور غذا کی بہتری نے نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔آج یہ اہم حقیقت ہے کہ سائنس دانوں نے انسان کو کم از کم 100 سال تک زندہ رہنے کی نوید دی ہے،لیکن اس کے باوجود جوانی کامطلوبہ چشمہ نہیں مل سکتا ۔
کہتے ہیں کہ ہمارے برصغیر میں امرت کی تلاش میں کبھی یہ تصور لیا گیا تھا کہ آملے کے درخت پر چڑھ کر اس کے پکے پھلوں کو کھانے سے عمر بڑھتی ہے،آیورویدک کی کتابوں میں ایسے طریقے اور عمل بھی درج ہیں جن کے نتیجے میں جسم کے پرانے اور بوسیدہ حصے الگ ہوکر نئے خلیات پر مشتمل حسین بدن جنم لیتا ہے۔لیکن بدقستی سے کتابوں میں اس کے صرف تذکرے ہی ملتے ہیں اصل نسخہ تجدید شباب”وہاں بھی ناپید ہے”۔۔۔اہل تلاش و تحقیق نے البتہ تین ایسی تدبیر کی نشاندہی ضرور کی ہے جس کے ذریقے اچھی صحت مند اور قدرے طویل عمر حاصل کی جاسکتی ہے۔ایک تدبیر ورزش،دوسری خاص قسم کی غذائیں اور تیسری غذا میں حراروں کی تعداد یا مقاد میں کمی ہے۔ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں باقائدگی سے ورزش کرنے والے اچھی صحت اور اسکے فوائد سے لطف  اندوز ہوتے ہیں ۔کم روغنی غذا اور زیادہ سبزیاں اور پھل کھانے والے زیادہ نشاستہ اور چکنائیاں کھانے والوں کی نسبت زیادہ صحٹ مند اور توانا رہتے ہیں ۔اسی طرح غزا میں کم حراروں کی وجہ سے جسم کے خلیات زیادہ چست اور توانا رہتے ہیں اس سے مطلب حراروں میں خطرناک حد تک کمی نہیں ہے،صرف کم خوراکی ہے یعنی پیٹ کا ایک چوتھائی حصہ خالی رہے اور غذا میں بھی حرارے کم رہیں ۔
ان تین مقاصد یا اہداف کے حاصل کرنے کے لیے اکثر لوگوں کو اپنے رہن سہن یا طرز حیات میں تبدیلی لانی ہوگی۔یقیناً انہیں صحت مند اور توانا دیکھ کر دوسروں کو بڑھاپے کی رفتار سست کرنےکی تحریک ملے گی۔اس سلسلے میں اگرچہ قارئین بہت کچھ بڑھ چکے ہیں ،لیکن تکرار کا مقصد انہیں ان کی نوعیت اورصحت و توانائی کے برقرار رکھنے میں ان کی اہمیت بتاتا ہے۔
یہاں مشرق کے قدیم تجربات کا ذکر بھی مناسب ہوگا جن کے مطابق یوگا،تائی چی اور چی گانگ جیسی نہائیت کارآمد ورزشیں عمر بڑھاتی ہیں ۔ان ورزشوں کی بنیاد ان نظریوں پر ہے کہ صحت دراصل جسمانی ،جذباتی ،ذہنی اورروحانی توازن کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ان ورزشوں کے علاوہ جسم کی حالتِ آرام میں لانے کے طریقوں کے علاوہ سانس لینے کی ورزشیں ،غذا اور مراقبہ بھی شامل ہے۔
ایک ماہر یوگی بہت طویل عرصہ تک بغیر کوئی تکلیف محسوس کیے اپنی سانس روک سکتا ہے ۔اپنے دل کی دھڑکنوں کے مدوجذر پر قابو حاصل کرسکتا ہے،گرمی اور سردی کی شدتوں کو برداشت کرسکتا ہےاور فاقہ کشی کے باوجود تندرست رہ سکتا ہے۔یہ یوگی لوگ اپنی صلاحیتوں کے پورے استعمال کے ساتھ اکثریت طویل عمریں پاتے ہیں ۔اور یہ ہوگی کیا ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔نہیں سمجھتے تو کسی سمجھدار سے پوچھ لیں ۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply