ایک نئے عنوان کے ساتھ حاضر ہوں۔ اس مضمون کی تیاری میں بخاری شریف ، توکل اللہ از ڈاکٹر طاہر القادری ، جاوید چوہدری کے کالم ، ہارون الرشید کے کالم اور انٹرنیٹ کے کچھ مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ امید ہے کہ احباب توجہ سے نوازیں گے۔
سب سے پہلے یہ کہ توکل کیا ہے ؟ اگر سادہ ترین الفاظ میں توکل کو بیان کرنا مقصود ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ جب آپ محنت پر یقین رکھنے والے ہوں اور آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں اس چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو ۔
اب ذرا ہم توکل کو چند عظیم اور نادر روزگار ہستیوں کے حوالے سے دیکھ لیتے ہیں ۔امام غزالی فرماتے ہیں“توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو“علامہ منادی فرماتے ہیں “توکل بندے کے اظہار عجز اور جس پر توکل کیا گیا ہے، اس پر مکمل بھروسے کا نام ہے“۔ ملا علی قاری اللہ تعالی پر کماحقہ توکل کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں“تم اس بات کو یقینی طور پر جان لو کہ درحقیقت ہر کام کرنے والے اللہ تعالی ہیں ۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے تخلیق و رزق عطاکرنا یا محروم رکھنا، ضرر و نفع، افلاس و تونگری،بیماری و صحت، موت و زندگی غرضیکہ ہر چیز فقط اللہ تعالی کے حکم سے ہے “۔
بےشک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا اور ہر چیز کا خالق ہے اسی کے ہاتھ میں ہر چيز کی بادشاہی ہے اور وہی ہے جس کےپاس آسمان وزمین کی کنجیاں ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالی نے اس جہان کے لیئے کچھ ضوابط تیار کیے ہیں جن پر یہ چل رہا اور قوانین بنائے ہیں جن کے ساتھ یہ منظم ہے اگرچہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ وہ یہ نظام اور قوانین ختم اور توڑ ڈالے اور نہ بھی توڑے یہ سب اسی کا دائرہ اختیار ہے۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالی کافروں کے مقابلہ میں مومنوں کی مدد پر قادر ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ گھروں میں بیٹھے رہیں اور اسباب پر عمل نہ کریں تو اللہ تعالی مومنوں کی مدد کرے گا کیونکہ اسباب کے بغیر مدد ملنا محال ہے اور اللہ تعالی کی قدرت مستحیل سے متعلق نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے اور اللہ تعالی کی قدرت کا تعلق حکمت کے ساتھ ہے ۔
ایک متوکل انسان کے لیے اپنی محنت پر یقین کے ساتھ اللہ کی تائید و حمایت پر بھروسہ ضروری ہے۔ اگر ہم کہیں کہ کیا کوئی بھکاری مومن متوکل کہلا سکتا ہے؟ جواب ہوگا، نہیں، اللہ کے رسولؐ نے مومن کے لیے اوپر والا ہاتھ پسند کیا ہے نیچے والا نہیں اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ غنی مومن کو پسند کرتاہے ۔ متوکل مومن کی تعریف یہی ہے کہ متوکل مومن ایسا انسان ہوتا ہے جو اللہ پر ایمان اور یقین رکھتا ہواور اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر والا ہو ،وہ جیب سے لے کر ذہن تک غنی ہو۔ ایک مومن اس وقت متوکل بنتا ہے جب وہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتا ہے، جب وہ غنی بن جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ غنی ہونے کے لیے مالدار ہونا ضروری نہیں۔متوکل ہونا ضروری ہے۔ انسان کی دو بڑی ضرورتیں ہیں، علم اورمال اور یہ دونوں مادی ہیں اور ان دونوں کا حصول مادیت ہے چنانچہ ایک ایسا غنی مومن جو دولت مندبھی ہو ، جو عالم بھی ہو ، جو ایمان بھی رکھتا ہو اور جو اللہ کی توکل پر دولت اور علم دونوں کے دروازے کھول دیتا ہو، وہ توکل کے درجہ کمال کو پا سکتا ہے۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب توکل کرنے والے کو ضرور رزق ملتا ہے تو ہم حصول رزق کی خاطر جدوجہد اور محنت و مشقت کیوں کریں؟ کیوں نہ ہم مزے سے بیٹھے رہیں کہ توکل کی وجہ سے ہم پر آسمان سے رزق نے خود ہی نازل ہو جانا ہے ۔
اس بارے میں رسول اللہ صلعم نے اللہ تعالی پر کماحقہ اعتماد کرنے والوں کو ان پرندوں سے تشبیہ دی ہے جو صبح سویرے خالی پیٹ اللہ تعالی کے بھروسے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور شام کو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے پیٹ بھر کر واپس اپنے گھونسلوں کی طرف پلٹتے ہیں ۔ حالانکہ ان پرندوں کی دکانیں، فیکٹریاں، ملازمتیں یا کھیت نہیں جن پر وہ رزق کے حصول میں اعتماد کرتے ہوں ۔ طلب رزق کی سعی و کوشش میں ان کا کلی اعتماد صرف ایک اللہ تعالی پر ہوتا ہے ۔ یہ بات نہیں کہ حصول رزق کے لئے کوشش نہ کی جائے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ رزق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی جائےاور جس بات کی تاکید حدیث شریف میں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ان کے آنے جانے اور سعی و کوشش کے پس منظر میں یہ یقین ہو کہ ہر طرح کی خیر صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے تو وہ ضرور اس طرح خیر و برکات اور رزق حاصل کر کے پلٹیں جس طرح کہ سر شام پرندے رزق حاصل کر کے پلٹتے ہیں۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ توکل کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اس سے مراد حصول رزق کے لئے جسمانی کدوکاش اور دماغی سوچ بچار چھوڑ کر پھٹے پرانے چیتھڑوں کی طرح زمین پرگرے رہنا اور ردی گوشت کی طرح تختہ پر پڑے رہنا احمقانہ سوچ ہے ایسا کرنا شریعت میں حرام ہے ۔ توکل کرنے والوں کی اسلام میں تعریف کی گئی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ حرام کا ارتکاب کرنے والے شریعت کی نگاہ میں قابل تعریف قرار دیئےجائیں۔ انسان کو علم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ہے، جب قدرت نے انسان کو لاکھوں سال قبل بے مہر، ننگی، سرد اور گرم زمین پر پھینک دیا، اس کے پاس ہوا، پانی اور روشنی کے سوا کچھ نہ تھا، انسان تھا اور اس کی بے شمار ضرورتیں تھیں، وہ ان ضرورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا، وہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا، یہ ضرورتیں اسے علم کے راستے پر لے آئیں اور علم اس کو ٹیکنالوجی تک لے گیا، آج بھی انسانی جسم میں جب کوئی نئی بیماری پھوٹتی ہے تو یہ ایک نئی ضرورت کو جنم دیتی ہے۔ یہ ضرورت طبی علوم کو جگاتی ہے اور انسان کوئی ایسی ٹیکنالوجی پیدا کر تا ہے جو انسان کی یہ ضرورت پوری کر دیتی ہے،علم اور ٹیکنالوجی انسان کی ضرورت ہیں اور یہ اس وقت تک ضرورت رہیں گی جب تک ہم اور ہماری ضرورتیں موجود ہیں، جس دن ہم نہیں رہیں گے، اس دن ہماری ضرورتیں بھی نہیں رہیں گی اور جس دن ہماری ضرورتیں نہیں رہیں گی اس دن ٹیکنالوجی اور علم بھی نہیں رہے گا۔
توکل صرف قوت ایمانی کی بدولت ممکن نہیں ۔انسان کی پوری تاریخ اس کی گواہ ہے، حضرت داؤد ؑ کی داستان پڑھ لیں، حضرت موسیٰ ؑ کا واقعہ دیکھ لیجیے اور نبی اکرم ؐ کے غزوات دیکھ لیجیے، یہ لوگ تعداد میں کم تھے لیکن اس کے باوجود جیت گئے، اب کیا یہ لوگ صرف ایمانی قوت سے جیتے؟ شاید ہاں۔ یہ شاید اس لیے کہ تاریخ میں ایسے کافر بھی موجود ہیں جو تعداد اور وسائل میں کمی کے باوجود جیت گئے تھے اور ایسے اہل ایمان بھی ہیں جو ایمان اور دنیاوی اسباب دونوں کے باوجود ہار گئے،جیسے انبیاء ؑکے ادوار میں یوروشلم کافروں کے ہاتھوں برباد ہوتا رہا، کافر آئے اور مقدس ترین شہر کو تاراج کر کے چلے گئے، جیسے مقدونیہ کے کافر شہزادے سکندر اعظم نے آدھی دنیا روند ڈالی، جیسے چنگیز خان کے ساتھ چند سو لوگ تھے۔ یہ اٹھا اور دنیا کی عظیم اسلامی اور غیر اسلامی ریاستوں پر کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے،جیسے امیر تیمور کیش گاؤں کے معمولی زمیندار کا بیٹا تھا، اس کے پاس دو سو جوان تھے، یہ ان کے ساتھ دنیا سے ٹکرا گیا اور اس نے اپنے دیکھے اور نہ ہی پرائے، جیسے آج چین اور ویتنام کی مثال لیجیے، چین بھی لادین ہے اور ویتنام بھی لیکن ان دونوں لادینوں نے سپر پاورز کو پسپا کر دیا چنانچہ اگر تعداد کا تعلق صرف مذہب سے ہوتا تو دنیا میں بخت نصر کامیاب ہوتا اور نہ ہی سکندر اعظم، چنگیز خان اور نہ ہی چین اور ویتنام، یہ لوگ تعداد میں بھی کم تھے اور ایمانی قوت سے بھی خالی تھے لیکن یہ اس کے باوجود بھی کامیاب ہوئے ۔ دراصل ان کا اپنے مقصد کے ساتھ کامل یقین ہی ان کا توکل تھا۔
ہمارے پاس تو اللہ تعالٰی پر کامل ایمان کا اعلی ترین رتبہ بھی موجود ہے۔ لیکن اپنے کامل یقین سے محرومی انسان کو مجبور محض بنا دیتی ہے۔انسان اپنے گناہوں ، دکھوں ، پریشانیوں ، کمیوں ، اور بے چینیوں کو دور کرنے کی لئے ہر راستہ اختیار کرتا ہے ۔ مگرتقدیر سے ناخوش انسان یہ نہیں جان پاتا کہ تقدیر لکھنے والا تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب موجود ہے ۔ اسے پکارنے کے لئے کسی آستانے میں جاکر ڈنڈے کھانے یا تپسیا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ وہ جو مہربان ایسا ہے کہ گناہ پہ ایک اشک ندامت بہانے کے بدلے سارے گناہ ہی دھو ڈالتا ہے اور رحمان ایسا کہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے ۔جسے راضی کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ۔ بس عجز سے جھکی پیشانی اور ندامت سے بہتے آنسو ۔ اس کریم مالک کی محبتوں اور رحمتوں کے خزانے پانے کے تمام راستے روشن کردیتے ہیں ۔ پھر کسی پیر یا آستانے کے ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ سکون ِ قلب کی دولت سے مالا مال کردیا جاتا ہے ۔ وہ تو ہر دن اپنے بندے کو پکارتا ہے ۔ فلاح کی طرف آؤ۔ مگر بندہ تباہی اور گمراہی کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے ۔ ایک خدا کو چھوڑ کر کتنے ہی خدا بنا لیتا ہے ۔ دراصل جان و مال کی محبت میں مبتلا ہو کر انسان بہت کمزور ہو جاتا ہے ۔ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں :جان مال کی محبت جاندار انسان کو اخلاقی قدروں سے محروم کر دیتی ہے۔ جب انسان کا توکل کمزور پڑ جائے تو وہ اللہ تعالٰی کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کو جھٹلا کر ان آسائشات کے پیچھے پڑا رہتا ہے جن سے وہ محروم ہوتا ہے۔ اس طرح وہ عجز اور شکر سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک بادشاہ کے سبق آموز واقعے سے بات کو سمجھاتے ہوئے اس امید کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ اس سارے مضمون سے احباب ضرور کچھ کشید کریں گے ۔ ایک بادشاہ تھا۔ بادشاہ نے اللہ کے ولی کے سامنے اپنی پریشانی بیان کی کہ میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میں پریشان رہتا ہوں اور میرا خادم جس کے پاس کچھ بھِی نہیں ہے لیکن وہ بہت مطمئن اور خوش وخرم رہتاہے اسکی کیاوجہ ہے ۔ اللہ کے ولی نے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان کے پاس اللہ تعالٰی کی جو نعمت ہو تو اسے اس کا احساس نہی ہوتا اور جونعمت انسان کے پاس نہ ہو اس نعمت کے نہ ہونے کی وجہ انسان پریشان ہوجاتا ہے ۔ آپکا خادم آپکی طرف اسے دی گئی مراعات پہ خوش ہے اور آپکا شکرگزار ہے اس وجہ سے وہ خوش و خرم رہتا ہے ۔ اور اگر آپ تجربہ کرناچاہے تو ایک تھیلی میں ننانوے اشرفیاں ڈال کر اس پہ سو اشرفیاں لکھ کر اپنے خادم کے راستے میں رکھ دیں اور پھر تماشہ دیکھیں ۔ بادشاہ نے تھیلی میں ننانوے اشرفیاں ڈال کر تھیلی خادم کے گھر کے راستے میں رکھ دی ۔ خادم جب رات کو گھر آنے لگا اور راستے میں اس تھیلی کو دیکھا تو بہت خوش ہوا گھر جاکر اس نے اشرفیاں گنی تو وہ ننانوے نکلی تو یہ خادم گھر سے باہر آیا اور ایک اشرفی ڈھونڈنے لگا کبھِی گھر جاتا کبھی باہر نکلتا پھر اس نے اپنے بچوں کو بھی اس ایک اشرفی کی تلاش میں لگا دیا اور رات دیر تک پریشان رہا یہاں تک کہ صبح جب بادشاہ کے دربار میں آیا تب بھی غمگین تھا ۔ جس کو دیکھ کر بادشاہ کو سبق ملا کہ واقعی انسان ننانوے نعمتوں کو جو اس کو اللہ نے دی ہوئی ہوتی ہے یاد نہیں رکھتا لیکن ایک نعمت جو اسے نہیں ملی ہوتی تو اسے یاد رکھتا ہے اسے نہیں بھولتا ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
(علامہ اقبال)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں