سینچری ایئر سیلیبریشن!

مولانا آپ نے صد سالہ اجتماع میں عورتوں کو مدعو کیوں نہیں کیا؟ جمیعت کے ہر کارکن میں اپنی عورتوں کی نمائندگی کی مکمل صلاحیت موجود ہے، ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔!! جمیعت اپنا سو سالہ تاسیسی جلسے کا انعقاد کر رہی ہے. پاک و ہند کی کئی نامور شخصیات مدعو ہیں. ترک صدر رجب طیب اردگان سے لیکر امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس تک کی آمد کی خبریں گردش میں رہیں. یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ آپ گردش ایام کی نظر نہیں ہوئے، کتنے سیاسی اتحاد اور پارٹیاں بنیں اور ٹوٹیں لیکن جمیعت اختلافات کا شکار بھی رہی، ڈسپلن کی کمی اور ڈس اورگنائزڈ بھی لیکن ان تمام تر مسائل کے باوجود نہ صرف اپنا وجود قائم رکھا بلکہ مختلف محاذوں پر اپنے موقف کی تائید میں ڈٹ کر کھڑی رہی اور ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کیا. قرارداد مقاصد اور آئین پاکستان کی بالا دستی کے لیے ہمیشہ لیڈنگ رول پلے کیا. یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جمعیت ملکی دینی طبقے کی آواز ہے، ملکی اساس کو زندہ رکھنے کے لیے سیاسی محاذوں پر فکری و نظریاتی جنگ بخوبی لڑی اور مخالفین کو اپنے موقف پر سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا.تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود جہاں عصر حاضر میں جمعیت کو ہونا چاہیے تھا وہاں نہیں ہے. سو سال گزارنے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے سو سال پہلے جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں، بس وقت اور چہرے بدل گئے لیکن نتائج اور تجربے کے اعتبار سے اسی سالہ بزرگ جیسی سمجھداری اور تجربہ شاید نہ آیا، ویسے بھی عمر میں سینیارٹی کوئی معنی نہیں رکھتی اگر عمر کیساتھ ساتھ میچورٹی اور ذہنی بالیدگی نہ آئے. وہی سو سالہ قدیم لائحہ عمل اور وہی پرانا انداز سیاست، اگر تھوڑا سا بھی مورڈنائز اور اپگریڈ کیا جائے تو موثر نتائج برآمد ہوں.جمعیت اپنی تمام تر قدامت کے باوجود بھی کہیں سے اورگنائزڈ اور ڈسپلن کی حامل نہیں لگتی، بلکہ اس سے کم عمر پارٹیاں زیادہ منظم و مستحکم ہیں. اگر ایک پارٹی کی تشکیل اور انتظام و انصرام سے آپ عوام کو مطمئن نہ کر سکیں تو عوام شاید آپ سے ملکی ایڈمنسٹریشن چلانے کی توقع نہ رکھیں اور نہ ہی ایسی غیر منظم سیاسی پارٹی عوامی پذیرائی کی امید رکھ سکتی ہے. یہی وجہ ہے کہ سو سالہ سیاسی کیرئر کی حامل جماعت بمع تجربہ و تعلقات نوزائیدہ سیاسی قوت کے سامنے بے بس نظر آئی. اب وقت ہے کہ اس اجتماع کو غنیمت جانتے ہوئےنیا لائحہ عمل طے کیا جائے اور اپنی کارکردگی کا احتساب کیا جائے، عوامی توقعات اور اپنی پرفارمنس کا موازنہ کیا جائے.امام کعبہ کی آمد متوقع تھی لیکن شاید اب جناب تشریف نہیں لا رہے. ان کی آمد باعث مسرت ہوتی لیکن نہ آنے کی خبر بھی زیادہ مایوس کن نہیں ہے. ان کی آمد سے عوامی شرکت کا تناسب شاید زیادہ رہتا لیکن اس اجتماع کا سیاسی پہلو بیک فٹ چلا جاتا. اب ایک خالص سیاسی جلسے کے انعقاد کی توقع ہے جہاں سیاسی کارکن قائدین کی کارکردگی کا احتساب کریں، مستقبل کے حوالے سے خالص سیاسی فضا میں پلان تیار ہو اور ماضی پر ایک ناقدانہ نظر بھی ڈالی جائے.
میرا خیال ہے سیاست میں عقیدتیں اور محبتیں نہیں ہونی چاہیں، بلکہ سیاست میں یہ چلتی ہی نہیں. سیاسی نقطہ نظر ایک سوچ اور نظریے کی بنیاد پر ہونا چاہیے، عقیدت اور محبت کی بنیاد پر نہیں. بسا اوقات ہم عقیدت و احترام میں ایک سیاسی طور پر نا اہل شخص کے سیاہ و سفید کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں.نظریاتی سیاست اپنی جگہ لیکن آج تک مالیاتی امور یعنی معیشت و معاشی صورتحال کے بارے میں جو کہ ملکی انتظام چلانے میں کی پوائنٹ ہے، شاید ہی کوئی پلان دیا ہو. کم از کم مجھے نہیں یاد اور نہ ہی کوئی ایسا بیان. کاروباری اور معاشی منصوبہ بندی بھی کامیاب سیاست کا حصہ ہے، جس کی کمی نظر آتی ہے.نعروں سے باہر نکل کر عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے. ہمارے ہاں نعرہ نعرہ تو بخوبی کھیلا جاتا ہے لیکن عملی طور پر صفر سے بھی نیچے رہتے ہیں. مانا کہ سیاست اب ایک کاروبار ہے اور ایڈورٹائزنگ بھی کاروباری ضرورت ہے لیکن اتنی بھی اشتہار بازی نہیں ہونی چاہیے کہ کاروبار ہی ٹھپ ہو جائے اور فائدے کی بجائے نقصان اٹھانا پڑے.انداز سیاست بھی بدلنے کی ضرورت ہے. ٹھیک ہے منہ پھٹ ہونا قطعا ًاچھی صفت نہیں، دو ٹوک اور صاف گو ہونا اگرچہ سیاسی لحاظ سے بے وقوفی ہے لیکن اتنی بحث اور مفاہمت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ تمیز ہی ختم ہو جائے اور ایسا لگے یہ تو سب ایک ہی کھیت کی مولی ہیں. اپنا پوائنٹ آف ویو دنیا کے سامنے رکھیں، اس میں لچک بھی ضرور دکھائیں لیکن سودا نہ کریں.میرے مطابق جو قیادت جمعیت کے پاس ہے شاید ہی اتنی باصلاحیت اور میچور قیادت کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پاس ہو، اس صلاحیت کے باوجود بھی جمعیت سیاسی قوت کے طور پر بہت کمزور ہے. قیادت کو فعال اور چیلنجنگ ہونا چاہیے اور اپنے فیصلے خود کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے فائیٹ کرنے کی ہمت ہونی چاہیے.مذکورہ بالا نقد و جرح سے مقصود سیاسی خامیوں کا تعین و تدارک مقصود ہے. انہیں سنجیدگی سے ضرور لیجئے مگر دل پر مت لیجئے گا، کیوں ان سے مقصود تنقید برائے اصلاح ہے.

Facebook Comments

عبدالقدوس قاضی
اپنا لکھا مجھے معیوب لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وقت لکھے گا تعارف میرا ۔ ۔ ۔ !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply