سیاہ تاریخ ( 4 اپریل 1979 )

دل تو میرا اداس ہے ناصر ! ! !
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
لب خاموش آنکھیں ایک دوسرے سے سوال کر رہی ہیں کیا یہ خبر درست ہے ؟
سوال ہی سوال ہیں ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔ساتھ ساتھ ہوٹلوں ، قہوہ خانوں میں بے چین لوگوں کا ہجوم بے یقینی کی کیفیت لئے ریڈیو کی خبروں کا منتظر ہے ۔۔۔ کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں کہ جنرل ضیاء الحق دنیا بھر کے لیڈروں کی اپیلوں کو نظرانداز کردیگا –
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ،سلٹ شمٹ،جکارٹ استانج، پیئر ٹروڈد،جیمز کالیہان ، یاسر عرفات، برز نیف، کرنل قذافی کی طرف سے بھٹو کی جان بخشی کی اپیلیں بے اثر جائیں گی مگر !
راولپنڈی کی اکلوتی سڑک مری روڈ جو جی ایچ کیو اور اسلام آباد کو ملا رہی ہے ۔
فوجی ٹرکوں، جیپوں کے بعد بکتر بند گاڑیوں کا بڑھتا ہوا گشت شک کو یقین میں بدل رہا ہے، امیدیں دم توڑ رہی ہیں ۔۔۔ دوپہر ڈھل رہی ہے پھر اداس شام ۔۔۔ راولپنڈی کی پرانی جیل سے کچھ دور سہالہ ریسٹ ہاؤس ( عارضی سب جیل ) سے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جیل انتظامیہ کی طرف سے اطلاع دی جاتی ہے ۔بھٹو صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں، آپ ان سے ملاقات کرلیں، اسی لمحے جیل کے ایک ہمدرد افسر نے بتایا یہ آخری ملاقات ہے- یہ اطلاع ایک سرد اور بے رحم سکوت میں بدل گئی-
ملاقات میں بھٹو نے اپنی کتابیں ، سلیپر، ڈریسنگ گاؤن اور دیگر ذاتی چیزیں نصرت بھٹو کے حوالے کردیں لیکن جب انہوں نے اپنی شادی کی انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی تو بیگم نصرت نے انتہائی بے چارگی کے عالم میں انہیں انگوٹھی اتارنے سے منع کردیا بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کے چہروں پر گہری اداسی چھاگئی، حوصلے ٹوٹنے لگے ۔۔ اور پھر جب آخری بار نگاہیں ملیں تو بے اختیار دو آنسو بینظیر بھٹو کی آنکھوں سے نکل کر دھرتی میں جذب ہوگئے-
ایک ایسی سیاہ رات جس میں تاریخ کا ایک سیاہ ورق رقم ہوا جس کا ہرلفظ لہو لہو ہے۔
آج کی رات سنٹرل جیل پوری طرح فوج کے قبضے میں ہے جیل کے آس پاس پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں بھٹو کال کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ تک پہنچانے کی تمام ہدایات اور احکامات براہ راست مارشل لاء ہیڈکوارٹر سے آرہے ہیں ۔
جیل حکام محض ’’کٹھ پتلی‘‘ بنے حکم بجا لارہے ہیں اس دوران جب چند اخبار نویسوں تمام پابندیوں کو عبور کرتے ہوئے جیل کے قریب پہنچے تو انہیں حراست میں لیکر قریبی حوالات میں بند کردیا گیا ہے-
آج کیا ہونیوالا ہے ؟
کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے ، ہر آہٹ ہر کھٹکے پر چونک اٹھتے ہیں ان کی نظریں سلاخوں کے باہر لگی ہیں ۔۔ اُدھر سہالہ سب جیل میں بیگم بھٹو اور بینظیر بھٹو کی آہیں سسکیاں اور چیخیں جیل کی سنگلاخ دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ رہی ہیں ۔۔۔ ماں بیٹی اپنے کرب کو ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر آنسوؤں میں تحلیل کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں-بھٹو بالکل بے حس پڑے ہیں جیسے ان کے بدن سے زندگی کی حرارت معدوم ہوچکی ہو۔مجید قریشی گھبرا کر اُلٹے قدموں جیلر کی طرف بھاگتا ہے – "بھٹو جاگ نہیں رہے‘‘ جیل میں افراتفری مچ گئی ہے ، جیلر یار محمد جیل کے ڈاکٹر سید اصغر علی شاہ کو لیکر بھٹو کی کال کوٹھڑی کی طرف بے تحاشا دوڑ پڑتا ہے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں ، ان سب نے دیکھا کہ بھٹو گہری اور پرسکون نیند میں ہیں بلب کی زرد روشنی میں ان کا پروقار چہرہ دمک رہا ہے۔ بالآخر انہیں جگا دیا گیا اس دوران جیل کا حقیقی ’’نگران‘‘ کرنل رفیع عالم بھی پہنچ گیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خالی خالی نگاہوں سے اپنے اطراف نگاہ دوڑاتے ہیں اور اردگرد پھیلے چہروں کو استہزائیہ نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
جیسے سوال کر رہے ہیں
لاؤ تو قتل نامہ میرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
اٹھ کر نہالیں آپ کے آخری غسل کیلئے پانی تیار ہے۔ مجید قریشی سکوت کو توڑتے ہوئے بھٹو سے مخاطب ہوتا ہے ۔بھٹو چند لمحے خاموش رہے اور پھر گویا ہوئے ۔ میں پاک ہوں نہانے کی ضرورت نہیں۔۔ انہوں نے جیلر یار محمد خان کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ میں وصیت لکھنا چاہتا ہوں مجھے کاغذ اور قلم چاہئے ۔۔ میں کافی بھی پینا چاہتا ہوں یار محمد اجازت طلب نگاہوں سے کرنل رفیع عالم کی طرف دیکھتا ہے جس پر کرنل رعونت بھرے مگرکھوکھلے لہجے میں کہتا ہے ۔
کیا یہ وصیت لکھنے کا وقت ہے ؟
پھانسی لگنے میں وقت ہی کتنا رہ گیا ہے ؟
بے اختیار جیلر نے بے بسی سے بھٹو کی جانب دیکھا کرنل کے حکم سے جیلر نے ’’بلیک وارنٹ‘‘ کی عبارت اٹک اٹک کر پڑھنا شروع کی اور پھر کرنل رفیع عالم کے حکم پر دو سپاہیوں نے بھٹو کے ہاتھ پیچھے کرکے ہتھکڑی لگانے کی کوشش کی تو بھٹو نے اس پر احتجاج کیا ،کال کوٹھڑی کی سنگلاخ دیواروں کا کہنا ہے کہ اس لمحے قاتل و مقتول کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے دستاویزات پردستخط کرنے کیلئے جبر آزمایا جاتا ہے۔
بھٹو نے ایک حسرت بھری نگاہ کال کوٹھڑی پر ڈالی جہاں انہوں نے پورا ایک سال گزارا تھا ٹھیک پونے دو بجے یہ مختصر قافلہ ’’کال کوٹھڑی سے پھانسی گھاٹ‘‘ کی طرف روانہ ہوا۔
مقامِ فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
قافلہ پھانسی گھاٹ پہنچا بھٹو کی ہتھکڑی کھول دی گئی ہے، اب وہ جلاد کی تحویل میں ہیں بھٹو کو پھانسی دینے کیلئے پنجاب حکومت کے پرانے جلاد تارا مسیح کو لاہور سے راولپنڈی بلایا گیا ہے، تارا مسیح کی چارنسلیں جلاد در جلا د ہیں جو رنجیت سنگھ کے دور سے نسل در نسل پھانسیاں دینے میں شہرت رکھتا ہے جب تارا مسیح نے بھٹو کو پھانسی دی تو اس وقت اس کی تنخواہ تین سو ستر روپے تھی،دس روپے اسے بھٹو کو پھانسی دینے کیلئے خصوصی معاوضے کے طور پراداکئے گئے ۔ تارا مسیح نے جب بھٹو کے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے رسی باندھ کر ان کے چہرے پر سیاہ نقاب ڈالنے کی کوشش کی تو اس پر بھٹو نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی اور چہرے پر زبردستی سیاہ نقاب چڑھا دیا گیا –
جیل کی سنگلاخ اور بلند و بالا دیواریں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہیں ، جیسے اس منظر سے نظریں چرا رہی ہوں ، ماحول میں عجیب سی بھیانک خاموشی چھائی ہوئی ہے
اور اب بھٹو تختہ دار پر ہیں ۔اس لمحے کی منظر کشی ظہیر کاشمیری نے کچھ اس طرح کی ہے۔
کہاں کا جرم کیسی داد خواہی واقعہ یہ ہے
مجھے منصف پکڑ کوچہ قاتل میں لے آئے
وہ جن کو ممکن کے عرش پر میں نے بٹھایا تھا
پکڑ کر وہ مجھے خود فرش پر مقتل کے لے آئے
بڑھائی آپ ہی خود جان کر ترتیب مے خانہ
مگر الزام سارا ساقی محفل پہ لے آئے
ادھر بھٹو کے آخری سفر کے ایک ایک لمحے کی روداد سے مارشل لاء ہیڈکوارٹر میں جنرل ضیاء الحق کو وائرلیس کے ذریعے بتایا جا رہا ہے ، جو خوفزدہ بھی ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس وقت مولانا طفیل ان کیساتھ تھے جو انہیں تسلی دے رہے تھے –
لمحے طویل ہونے لگے تو بھٹو نے چیخ کر کہا ’’فنش اٹ‘'
اور پھر تارا مسیح نے جیلر کے اشارے پر ٹھیک دو بجے پھانسی کا لیور گرادیا ۔
تختے نیچے کی طرف کھلے اور پھر جمہوریت ، انسانی آزادیوں کا ایک باب بند ہوگیا کروڑوں غریبوں کی آس ٹوٹ گئی۔۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب میں ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
کل پھر "چار اپریل" تھا پہلے کی طرح غمگین اور دردناک –

Facebook Comments

رانا ازی
رانا محمد افضل بھلوال سرگودہا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply