عابد باورچی اور لکھاری۔۔ سلیم مرزا

عابد کو برسہ گروپ اسلام آباد میں ہیڈ، باورچی میں نے ہی رکھا، مری کے نواح کا تھا،صرف دو ہیلپرز کے ساتھ دو سو ورکرز کا لنچ، ڈنر تیار کرنا  اس کے  لیے   مسئلہ ہی نہیں تھا، مگر اس میں ایک خوبی اور بھی تھی، وہ عجیب طرح کے مکس سالن پکاتا، جب وہ پہلی دفعہ آلو ٹینڈے مکس پکا کر لایا تو میں بیس منٹ تک صرف پہچانتا رہا کہ پلیٹ میں آلو کون سا  ہے  اور ٹینڈا کون ساہے ؟

اگلا شاک اس نے چنے کی دال میں میتھی مکس کر کے دیا،اس کی جو رنگت بنی ۔۔۔؟ خدارا تصور بھی مت کیجئے،آپ کو دونوں سے نفرت ہو جائے گی،

وہ انتہائی اعلی اخلاق والا بندہ تھا، مگر جس دن اس نے بیف اور چکن مکس کیا، میں سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو ایجنسیوں کا بندہ  ہے، ایسی حرکتیں جی ایچ کیو والے ہی کر سکتے ہیں، مرغا بھینس پہ بیٹھا تو دیکھا تھا، مرغے کا بھینس کے ساتھ پکنا، زرداری، عمران اتحاد جیسا لگا،
میں لاہوریا نہ سہی، لاہور کے مضافات کا تو ہوں، مجھے زیادہ حیرانگی تب ہوئی جب سارے پنڈی وال یہ مرکب مزے لے لے کر کھا رہے  ہوتے،

یہ بھی پڑھیں :  کنے بُوئے تے کِنی باریاں نیں ۔۔محمد اظہار الحق
میری پریشانی جلد ہی ختم ہوگئی جب میں نے” بالا تکہ ” پہ باربی کیو ہونے کے بعد بھی چکن کو ٹماٹروں کا تڑکہ لگتے دیکھا، اب مجھے ریفرشمنٹ پہ دو تازہ کبابوں کے ساتھ آدھ کٹے پرا نے نان پہ بھی حیرت نہیں ہوتی، ل

ہم لاہوریے تو کھوتا کڑاھی میں بھی کالی مرچ اور مکھن کی ٹکی ڈلواتے ہیں،کسی کا مغز، کسی کا گردہ پکڑ کر کہیں کہ  کپوروں کے ساتھ یوں مکس کرکے ٹکا ٹک بنواتے ہیں کہ ذائقہ تو ایک طرف، مغز سالہا سال کپوروں سے آگے نہیں سوچتا، گھر والی یاد آجائے  تو ایک دو چانپیں بھی مکس کروالیتے ہیں کہ حقوق نسواں کی بھی نمائندگی ہو جائے،

ان دنوں فیسبکی ادب کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ چل رہا ہے، کسی شاعر کی، دانشور کی وال چیک کر لیں، سبھی عابد کک بنے ہوئے ہیں،مذہب، سیاست، اور ادب کے ایسے ایسے مکس سالن پکا کے رکھے ہیں کہ بھوک مر جائے،
سیاسی اور ادبی وابستگی ایسے ہی عجیب لگتی  ہے جیسے بندہ اپنی گرل فرینڈ سے ملنے جائے اور ساتھ سالے کو لے جائے۔

خالد قیوم تنولی یار  ہے، اور پکا یوتھیا  ہے، پیرنی سے پہلے کا مرید  ہے، میری پوسٹ پہ دو سو لفظوں سے کم کا “نیوندرہ” کبھی نہیں بھیجتا، اس کی یوتھی پوسٹوں کو میں “کانی اکھیں ” دیکھ کر گذر جاتا ہوں، میں سیاست پہ نہیں لکھتا، ایک بار لکھا تھا تو سعید سادھو نے آڑے ہاتھوں لیا،
“سلیم مرزا، ہم رائٹر لوگ ہیں، موجودہ ملکی سیاست، اور خسرے ہمارا موضوع نہیں،”
میں تو ہوں ہی ” کگو گھوڑا” میں نے فورا ً اس کی بات مان لی، اور پھر کبھی سیاست پہ نہیں لکھا، جب بندے کو حسب ضرورت ذلت گھر سے ہی مل رہی ہو تو  سٹیٹس اپلوڈ کرکے بے عزتی کروانے کا فائدہ؟
اب خسرے پہ کیوں نہیں لکھنا،؟
یہ بات پوچھنے میں پنڈی گیا تو سادھو، ایم۔ایچ ہاسپٹل جاکے چھپ گیا، خسرے  ہر چوک میں جابجا ملے، میرا گرو نہ مل سکا،
تو میرے ہم وطنوں،
ةم کہاں تھے، ؟
خالد قیوم تنولی پہ
شریف آدمی،
ایک ایسے ن لیگی شاعر کی پوسٹ پہ جس سے کبھی خالد جی نے اپنی کتاب پہ تبصرہ لکھنے کا بھی کہا تھا،کمنٹ کر دیا، اور وہ بھی یوتھیا اسٹائل میں،
وہ صاحب بھی مستند شاعر اور سکہ بند پٹواری تھے،

یہ بھی پڑھیں : سڑیل لوگوں کی نشانیاں۔۔ گل نوخیزاختر
دوران لڑائی ان صاحب کو خالد کی کتاب پہ تبصرہ بھی یاد آیا، انہوں نے باربی کیو کو ٹماٹر کا تڑکہ لگا دیا،
اوئے  نوازشریف اور پیرنی کی عدت کی مدت سے شروع ہونے  والی لڑائی ادب تک جاپہنچی،
بیچ میں دوسرے احباب کی دانہ گیری بھی جاری تھی،
خالد اور شاعر موصوف دونوِ ں بہترین انسان ہیں۔مگر سیاست کے موجودہ عدم برداشت رویے سے دونوں مجھے اپنی بیگم جیسے لگے،
کاش کہ یہ خواتین ہوتے۔۔۔
برائے مہربانی خالد آئندہ آپ خیال رکھیے  کہ آپ ہمارا آئیڈیل  ہو، عمران خان  نہیں، اور شاعر صاحب سے گزارش  ہے  کہ آپ  ہر لحاظ سے نواز شریف سے افضل ہو۔
اب کچھ روز پہلے کا واقعہ  ہے۔۔ایک نوجوان رائٹر خرم بٹ سے میں نے استدعا کی کہ میرے حالات کافی دگرگوں ہیں، کسی اخبار میں نوکری ہی دلادو، نان وجویں تو میسر ہیں کبھی ہم بھی میکڈونلڈز دیکھ لیں، خرم بٹ بالا تکہ کھانے کے باوجود نیک انسان   ہے، تہذیب پہ پیزا کھا کر بچنے والے کیچپ کے سارے ساشے ذمہ داری سے گھر لے کر آتا  ہے۔
اس نے مجھے مشورہ دیا ک  ہم سب پہ لکھو، تاکہ کچھ کالم۔اکٹھے کرلو تو میں کسی کو دکھا کر تمہارے لیے بات کر سکوں،
میں نے عدنان خاں کاکڑ کو اپنے مکالمہ اور دنیا پاکستان میں چھپے دو آرٹیکل بھیج دیے، اور ساتھ درخواست فدویانہ، اور گذارش عاجزانہ بھی لکھ بھیجی کہ حضور، رہنمائی بھی فرما دیجئے کہ کہاں جھول و غلطی  ہے؟
بہر حال بڑے رائٹر کا ظرف بھی بڑا ہوتا  ہے،
انہوں نے میرے ساتھ جو کی ،میری اس  معشوق نے بھی نہیں کی تھی جس نے اپنی سہیلی کے ساتھ پکڑا تھا، مجھے اپنی حماقت کا احساس نہیں تھا کہ ایک سائیٹ کے ایڈیٹر  کو، دوسری سائیٹ کے لنک سینڈ  نہیں کرتے،
کاکڑ صاحب اب بھی لکھتے ہیں، میں کمنٹ بھی کرتا ہوِ۔۔مگر  مجال  ہے  جو کبھی انباکس والی کتے خوانی کا، حوالہ دیا ہو

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی پڑھیں :  لڑکپن کا عشق یاد نمبر 87۔۔منصور مانی
شاہ جی، شاید خالد آپ سے بڑا، لکھنے والا ہو  پر آپ کو سیاسی لڑائی میں ادبی حوالہ نہیں دینا چاہیے  تھا،
برائے مہربانی، عابد نہ بنیں، سیاست کو ادب کاتڑکہ اور ادب کو سیاست کا بگھار نہ لگائیں،
قسمیں، وہ دن دور نہیں، جب آپ دونوں اپنے اپنے پسندیدہ لیڈرز کی جان کو رو رہے  ہوں گے، ملک کی صورتحال دیکھ کر۔۔۔بالکل ایسے ہی جیسے آج میں اپنی بیروزگاری، اپنے گھر کی حالت، بچوں کی فیس پہ رو رہا ہوں،
اور اگر قومی غیرت جاگ بھی جائے تو عدناں خاں کاکڑ کے انباکس میں محفوظ میسیج دیکھ لیتا ہوں، افاقہ ہوجاتا  ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply