قرارداد مقاصد: سات دہائیوں کے بعد ۔۔تنویر افضال

یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ گزشتہ دس بارہ برس کے دوران اہل علم کے باہمی مباحثے کے نتیجے میں 12 مارچ 1949 کو منظور کی جانے والی قرارداد کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے اثرات پر بات کرنا اب مرکزی دھارے میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ اس معاملے سے آشنا مختلف مکاتب فکر کے حضرات و خواتین کو یقینا اپنے نقطہ نظر کے اظہار کا حق حاصل ہے اور ہمارا ان کی سوچ کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں۔تاہم ان سطور کے ذریعے قارئین کی توجہ صرف ایک نکتے کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا۔

راویتی طور پر قرارداد مقاصد پربات کرنے والے افراد کو دو مکاتب فکر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اول: وہ دوست جو اپنی سیاسی وابستگیوں اور مصلحتوں کی بنا پر یا پھر واقعی اخلاص طبع کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس ملک کے تمام مسائل کا حل اسلام ،بلکہ انہی کے الفاظ میں، ‘شریعت نافذ’ کرنے میں ہے اور ان کی دانست میں قرارداد مقاصد کی منظوری نے اس منزل کی جانب پیش رفت کے لیے بنیاد فراہم کی ۔ آج اگر ان دوستوں کے ساتھ بات کی جائے تو وہ اسی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آئیں گے کہ قرار داد کی منظوری کا نمائشی کام تو کرلیا گیا مگر اس کے بعد کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔

اسی کیفیت کو سیدابوالاعلیٰ مودودی نے کچھ ان الفاظ میں بیان کیا تھا” قرارداد مقاصد کا معاملہ بھی عجب تھا، اس سے پہلے کوئی بارش ہوئی نہ بعد میں کوئی روئیدگی”۔

یہ بھی پڑھیں : مارکسیّت، ترقی پسندی، نئی فکر کا احیاء اور اس کی جدید تر تعبیرات۔۔احمد سہیل

یہ دوست اس ناکامی کے سلسلے میں اُن سینکڑوں دشمنوں اور ہزارہا سازشوں کا ذکر کریں گے جن کی وجہ سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا عالی شان منصوبہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا لیکن اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا تو درکنار، یہ سُننے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے کہ وقتی سیاسی مفادات کی خاطر مذہب اور عقیدے کے اس استعمال نے معاشرے میں منافقت، دورنگی، عدم برداشت ،انتہاپسندانہ سوچ اور متشدد رویوں کے فروغ میں کس طرح اپنا حصہ ڈالا ہے۔

دوسرے گروہ میں وہ دوست آتے ہیں جن کی دانست میں ملک کے ہرمسئلے اور ہر خرابی کی جڑیں قرارداد مقاصد میں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ یہ دوست ملاؤں کو سیاست و حکومت کے معاملات میں دخیل کرنے کی خاطر اس وقت کے ارباب اختیار کے کسی بھی حد تک چلے جانے جیسےغیر معمولی اقدامات اور اس غیر دانش مندانہ حکمت عملی کے مضمرات پر بات کرنے کی بجائے مسائل کا ایک انتہائی غیر منظقی (اور فی الوقت ناقابل عمل بھی) حل پیش کرتے ہیں۔ان کے خیال میں مذہب اور ریاستی معاملات کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی بجائے اگر سرے سے مذہب اور عقیدے ہی کو دُنیا سے ختم کردیا جائے تو ہرجگہ امن و سکون قائم ہوجائے گا۔

چونکہ دونوں مکاتب فکر کی سوچ کے محاسن اور خامیوں پر بات کرنا ان سطور کا بنیادی موضوع نہیں ہے اس لیے اس مباحثے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس استفسار نما اصل نکتے کی جانب آتے ہیں کہ یہ دونوں مکاتب جس طرح اپنے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل لانے میں زور صرف کرتے ہیں، کیا واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کی اصل غرض و غایت پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا تھا؟ کیا اسے سادہ لوحی تصور کیا جائے یا پھر کسی مخصوص سیاسی مصلحت کے تحت بگلہ بھگت بنے رہنےہی میں فائدہ ہے؟

جن لوگوں نے انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل کے برطانوی ہندوستان میں آنکھ کھولی تھی، ان کی ساری کی ساری تعلیم کا ماخذ مغرب سے آنے والی جدید تعلیم اور روشن خیالی ہی پر مبنی تھا۔ حتیٰ کہ دیو بند، ندوۃ العلما یا احیائے اسلام کی دیگر جتنی بھی کوششیں تھیں وہ بھی سائنس، فلسفے اور دیگر علوم کے اس تیز رفتار دھارے کے مقابلے پر بند باندھنے ہی کی کاوشیں تھیں تاکہ بدلے ہوئے حالات کے تحت اسلام کی نئی تفہیم لوگوں کے سامنے رکھی جاسکے ۔ مختصرا ً بیان کیا جائے تو ان سبھی حضرات نے اپنی سوچ، وسائل اور رسائی کے مطابق اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے برطانوی سرکار سے وسائل میں اپنا حصہ بٹانے میں اپنے اپنے انداز میں کوشش کی تھی ۔

یہ بھی پڑھیں :  قرارداد مقاصد کا بھوت۔۔۔ انعام رانا

پھر نئے ملک کے حصؤل کے بعد قوم سازی کے عمل میں اپنے وقت، حالات اور مفادات کے تحت جو فیصلے کیے گئے وہ ایک تاریخی مطالعے کا حصہ تو ضرور ہوسکتے ہیں، آج کے حالات میں پاکستانیوں کو مختلف قومیتی، لسانی ،مذہبی اور نسلی شناختوں پر مبنی سماج کی تشکیل اور کسی جدید ، مہذب اور ترقی یافتہ ریاست قابل احترام اور فخر مند شہری بنانے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے۔ لہٰذا ماضی کے واقعات پر وقت گزاری کرنے کی بجائے ہمیں اپنی توانائیاں آج کے دور کے حالات، اس عالمی سماج میں ہماری حیثیت اور ہمیں درپیش حقیقی مسائل کو سمجھنے میں صرف کرنا چا ہئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب اگر قرارداد مقاصد جیسے معاملات ہی پر بات کی جائے تو یہ قرارداد ہو یا پھر آئین پاکستان اور ریاست کے بنیادی قانونی ڈھانچے کی دیگر اہم ترین دستاویز، یہ سبھی عجب چوں چوں کا مربہ ہیں۔ ان سبھی کے مطالعے اور ملک کے زمینی حالات کے جائزے میں اک عمر کھپا دینے کے بعد نہ جانے یہ بدگمانی کیوں پختہ تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ یہ ابہام اگر جان بوجھ کر نہیں رکھے گئے تھے تو انھیں جان بوجھ کر برقرار ضرور رکھا جارہا ہے اور ایسا کرنے کی وجہ نہایت واضح ہے۔ ملک کے قوانین اور یہاں کا انصاف کا نظام جیسا بھی اچھا یا بُرا ہو، چند طبقات یہ جانتے ہیں کہ ان کی پکڑ عوام ہی کے خلاف ہوگی اور وہ خود اس کی پہنچ سے ہمیشہ ماورا ہی رہیں گے۔ پاکستان کے یہ مراعات یافتہ طبقات اس بات پر کم و بیش اتفاق قائم کرچکے ہیں کہ یہ ملک مستقل طور پر رہنے کی جگہ نہیں، البتہ اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ مستقل طور پر جاری رکھی جاسکتی ہے۔ جب تک داؤ لگے اپنی اپنی زنبیلیں بھرتے چلے جاؤ اور اسے سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، امریکا، کینیڈا، متحدہ امارات یا دیگر محفوظ ٹھکانوں میں منتقل کرتے چلے جاؤ۔ ایسے میں اقتدار اعلیٰ کے سرچشمے میں ابہام،اور اس میں مذہبی پیشواؤں کے گنجلک کردار مزاحمتی آوازوں کو خاموش رکھنے میں انتہائی مفید مطلب ثابت ہوتا ہے اور پچھلی کم از کم چار دہائیوں میں کی جانے والی قانون سازی اس بدگمانی پر مہر صداقت ثبت کرتی ہے۔

Facebook Comments

تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply