سیاہی اور جوتے۔۔منصور ندیم

مبارک ہو قوم جاگ گئی، ایسا لگا مجھے کہ  وقتی طور پر ایک سیاہی اور جوتے نے قوم کو یہ احساس دلا دیا کہ واقعی یہ نازیبا حرکت ہے، کوئی صاحب  فرما رہے ہیں  کہ ، “یہ سیاہی اور جوتا کسی کے چہرے پر نہیں بلکہ ہمارے ملک کے چہرے پر پھینکا گیا ہے ، مجھے بتائیں دنیا کے سامنے یہ شخص جب پاکستان کا موقف رکھے گا تو پاکستان کی کیا عزت ہو گی “۔

عمران خان فرما رہے ہیں کہ “مجھے خوشی ہے کہ سیاہی اور جوتا پھینکنے میں کوئی پی ٹی آئی کا کارکن ملوث نہیں لیکن عام لوگوں سے کہوں گا کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔سیاہی اور جوتا پھینکنا،نہ  ہی ہمارا منشور ہے نہ  ہم ایسی گھٹیا حرکتوں کے حمایتی  ہے ۔ بھر پور مزمت کرتے ہیں اسی حرکتوں کی !! “-  جبکہ سیاست میں سیاہی اور جوتا پھینکنےکے رواج کے حوالے سے  ن لیگ کہتی ہے کہ عدم برداشت کایہ کلچر پی ٹی آئی لے کر آئی ہے۔نثار منہاس نامی ایک وکیل پوسٹ کررہے ہیں کہ ” میری Friends List میں اگر کوئی بھائی لاہور یا سیالکوٹ سے ہے تو برائے مہربانی فوری رابطہ کریں ۔جنہوں نے ملک و ملت کے غداروں  پر عملی لعنت بھیجی ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ خواجہ آصف پر سیاہی کی لعنت ملنے والے مجاہد اور نواز شریف کو جوتے سے سنگسار کرنے کی کوشش کرنے والے مجاہدین کا مقدمہ میں مفت لڑوں گا-  برائے رابطہ ۔۔، چوہدری ناصر عباس منہاس ایڈووکیٹ ہائی کورٹ،اسلام آباد”

یہ بھی پڑھیں:  شہر کی روح تھک گئی ۔۔اسلم اعوان

پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے شاید کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی جماعت، سب کے پیروکار اندھے پیروکار ہیں، وہ اپنے لیڈران کی ہر صورت حمایت کرنے کے عادی رہے ہیں اور سیاست میں یا مذہب کے واعظین کا کمال تو یہ ہے جو جتنا اچھا بھانڈ ، میراثی اور گھٹیا طرز پر اپنے مخالفین کی عزت اور پگڑی اچھالتا ہے  وہ اتنا ہی مقبول بھی ہے، نہ اس قوم کے پاس سیاست دانوں کے انتخاب کا تدبر ہے اور نہ ہی ان کی کسی بھی سطح کی کوئی تربیت ہے،اگر مذمت کرنے والے موجود ہیں تو اس عمل کے کرنے والوں کو مجاہد کا لقب دینے والے بھی اسی معاشرے میں موجود ہیں۔

اس میں تو کوئی  دو رائے نہیں ہوسکتی کہ منہ پر سیاہی اور جوتا پھینکنابے شک غلط ، اور قابل مذمت ہے، ابھی اس کا شکار حکومتی پارٹی ہے، کل یہ کھیل مخالفین کی صفوں میں بھی کھیلا جائے گا،  لیکن مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ صرف آج ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ایسا نہیں ہورہا، بلکہ ۷۰ برسوں سے اس ملک کے عام عوام اور  غریب لوگوں کے منہ پر سیاہی ملی جارہی ہے،جب ان کی جوان بیٹیوں کو اغوا کیا جاتا ہے، جب معصوم  پھولوں کر کچلا جاتا ہے، جب تعلیمی اداروں میں ہی اساتذہ ان معصوم بچوں کے ساتھ ہوس کا کھیل کھیلتے ہیں، گلیوں بازاروں، حتی کہ   ہمارے  اپنے ہی گھروں میں  ہمارے  بچوں کو بدترین  ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔، یہاں عورت کا مطلب  فقط غیرت سے منسوب ہے، یہاں عورت صرف خدمت کی چکی میں پسنے کے  لیے  ہی ہے، جو وارث تو پیدا کرتی ہے لیکن خود وارث بننے کی حقدار نہیں ہے، کنہیا لال کپور کا ایک مقولہ ہے کہ ” ہم نے طوائف کے علاوہ کسی عورت کو خود مختار نہیں دیکھا، اس لئے اب ہمیں ہر خود مختار عورت ہی طوائف لگتی ہے”۔یہاں ایسی تمام  عورتوں پر بھی سیاہی پھینکی جاتی ہے جو خود مختار بننا چاہتی ہیں بلکہ گھروں میں محصور ومجبور عورتوں کے گھر والوں کے چہروں  پربھی  روزہی  سیاہی پھینکی جاتی ہے۔

اس ملک کی عوام کو روز جوتے پڑتے ہیں، بسوں میں لٹک کر جوتے کھاتے ہیں، کسان  پورے سال کی محنت کے بعداس کا اجر نہ ملنے پر جوتے کھاتا ہے، اس دیس کا ہر باسی  جس کے ملک کے ہر  چوک اور گلی میں    پولیس کے ناکے  لگے ہیں، لیکن پھر بھی دھماکے معمول ہیں، جہاں ریاست کے پہرے دار وں سے ہی عوام کی عزت ، جان اور مال کا خطرہ ہے، یہاں کلرکوں کو پینشن لینے کے لئے جوتے کھانے پڑتے ہیں، کسی بھی حکومتی محکمے سے کام کروانے کے لئے بھی جوتے ہی کھانے پڑتے ہیں۔عدالتوں کے باہر یہ عوام انصاف کے انتظار میں جوتے کھا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  ہم لاپتہ کیوں ہورہے ہیں ۔۔عبدالواحد بلوچ

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیں، آج نواز شریف کے ساتھ ہوا، کل زرداری، مولوی فضل الرحمن  ، عمران خان، اور مولوی خادم حسین کی باری بھی آئے  گی، یہ مذمتی بیانات چھوڑیئے ۔ یہ سیاسی لیڈر خود اپنا کردار بلند کریں، تمام اشرافیہ بشمول ، جرنیل، عدلیہ، مذہبی رہنما  اور سیاستدان  اس جرم میں  برابر کے  شریک ہیں، انہیں جو منصب دیا گیا ہے اس کے ساتھ انصاف کریں۔ اگر اس ملک کے ہر  بزرگ ، جوان ، بچے اور عورتوں کے منہ پر روز سیاہی ملی جاتی ہے  اور وہ جوتے کھا رہے ہیں تو آپ بھی جوتے اور سیاہی کے لئے تیار رہیں۔کیونکہ ان لوگوں کو آپ ہی لوگوں نے ایسا بنایا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply