• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کے تناظر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور معاہدہ کراچی کا معاملہ۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان کے تناظر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول اور معاہدہ کراچی کا معاملہ۔۔شیر علی انجم

قوموں کی زندگی میں عروج و زوال کے حوالے سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ دنیا کی تاریخ میں ایک پیچیدہ، پراسراراور غم و اندوہ سے بھرپور عمل ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو انسانی ذہن کو افسردہ کردیتا ہے اور وہ اس اُتار چڑھاؤ کے عمل سے نا امیدی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسانی ذہن نے عروج و زوال کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر اب تک یہ ایک نہ حل ہونے والا معمہ ہے کہ ایک قوم کن حالات میں عروج حاصل کرتی ہے، تہذیب و تمدن میں کمال تک پہنچتی ہے اور پھر ایک شاندار ماضی کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے۔

ہم اگر دنیا کی  دوسرے اقوام کے بارے میں بحث کئے بغیر مسئلہ  کشمیر سے منسلک پچھلے ستر سالوں سے بنیادی سیاسی اور آئینی حقوق خطہ گلگت بلتستان کی بات کریں تو تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے کا شاندار ماضی رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جب کسی قوم میں بہتر حکمران اور باشعور عوام کی کمی ہو تو اس قوم کا زوال یقینی ہوجاتا ہے۔ ماضی بعید میں جائے بغیر ہم اگر تقسیم ہند کے بعد کی صورت حال کا ذکر کریں تو یہ بات ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان اُس وقت مہاراجہ کشمیر کے زیرنگین تھے لیکن جب مہاراجہ نے عوام سے رائے لئے بغیر ریاست جموں کشمیر کا بھارت کیساتھ الحاق کیا تو کہیں خاموشی تو کہیں مزاحمت دیکھنے کو ملی۔یوں موجودہ آزاد کشمیر کو پاکستانی قبائلوں نے ڈوگروں سے آزاد کرکے مقامی افراد کے حوالے کیا تو دوسری طرف گلگت اور بلتستان کے عوام نے بغیر کسی غیر مقامی عسکری امداد کے ڈوگروں سے بغاوت کا علم بلند کیا جس کے نتیجے میں یکم نومبر 1947 کوجمہوریہ گلگت کے نام سے ایک آزادریاست دینا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آئی ۔لیکن بدقسمتی سے اس نومولودسٹیٹ کے قائدین کی جانب سے مسقتبل کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ کچھ مقامی اور غیرمقامی غداروں نے سازش کرتے ہوئے عوام کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ اس خطے کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے ،ایسے میں کس کا دل نہیں چاہے گا کہ اسلام کے نام پر بنے ایک ملک میں شامل نہ ہو۔

یہی وجہ تھی کہ ایک غیر مقامی پولیٹیکل ایجنٹ کے ہاتھوں الحاق کے نام پر جنگ آزادی کے کئی ہیروز کو سرنڈر کروایا اورفاتح جی بی کو دیوار سے لگا کرپاکستان سے الحاق کا ڈرامہ رچانے کے بعد ان علاقوں میں پاکستانی قوانین کورائج کرنےکے بجائے یہاں سرحدی قوانین ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز، جنہیں عرف عام میں کالے قوانین کا نام بھی دیا جاتا تھا،کو دوبارہ رائج کرتے ہوئے بغیر کسی ٹیبل ٹاک کے گلگت بلتستان کا انتظام سنبھال لیا۔اس درمیانی عرصے میں مسئلہ  کشمیر کے حوالے سے کئی معاملات سامنے آئے اور گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کے  ساتھ نتھی کرلیا ۔یوں آگے چل کر خود کو متحدہ کشمیر کا نمائندہ کہلانے والے نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمرانوں سردار ابراہیم، سردار غلام عباس اور   مشتاق گورمانی نے 28اپریل 1949کو ایک سازش کے تحت معاہدہ کرکے عوامی رائے لئے بغیر گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول پاکستان کے حوالے کردیا۔

اس معاہدے کے بعد چونکہ آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر لی تھی لہذا اُنہیں اس بات کی فکر نہیں رہی کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کس قسم کے مسائل کاسامناہوگا   ،یہاں پر جو سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے کیا عوامی اُمنگوں پر  پورا اُتر رہا ہے؟ یعنی گلگت بلتستان کے عوام کو ایک رسی سے باندھ کریہ سمجھ  لیا گیا ہے کہ   یہ لوگ اب ہمارے  قیدی  ہیں۔ اسی طرح  1971  میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بر سرِ اقتدار آ ئے  تو اُنہوں نے 1974  میں ایف سی آر کا خاتمہ کرکے نہ صرف گلگت بلتستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ختم کیا بلکہ پورے پاکستان میں اس وقت موجودریاستیں جیسے ریاست ہائے سوات، کالا باغ، بہاولپور، دیر اور دیگر  کو  پاکستان میں شامل کردیا۔

اس انضمام کے بعد سٹیٹ سبجیکٹ رولز یعنی وہ قانون جسے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں متعارف کرایاتھاجوکہ باشندگان ریاست کی  بنیادی طور پر شہریت اور شہری حقوق کا قانون ہے۔ مذکورہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور ریاستی عوام کے حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے۔ باشندہ ریاست قانون کے مطابق ریاستی باشندگان کو چار اہم حصوں پر مشتمل قرار دیا گیا، پہلے دو میں ان ادوار کا ذکر ہے کہ جن میں یہاں مستقل آباد ہونے والوں کو شہری قرار دیا گیا۔ تیسرے درجے میں جدید شہریت کے تقا ضوں کے تحت دس سالہ مستقل سکونت کے بعد اجازت اور رعایت نامہ کے ذریعے سکونت میں توسیع یا شہریت کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ چوتھے درجہ میں ان صنعتی وکاروباری مراکزجو ریاست و ریاستی عوام کیلئے مفید ہوں ان مراکز کو بھی تحفظ اور شہری حیثیت دی گئی تھی اس کے  علاوہ کئی اور اہم شقیں  ہیں  جو سابق ریاست جموں کشمیر کے تمام خطوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں ۔ یعنی اس قانون کو آج بھی ایک محافظ کی حیثیت حاصل ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں باشندہ ریاست قانون (SSR۔1927) مقامی دستور کا حصہ ہے۔ یہی تو وہ قانون ہے جس نے انڈیا اور جموں کشمیر کے درمیان قانونی دیوار جموں کشمیر آئین اور انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کو آ ج تک بحال رکھا ہواہے۔یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں اس قانون کو معطل کرتے وقت کسی کشمیری حکمران کو یہ تو فیق نہیں ہوئی کہ وہ بھٹو حکومت سے کہیں کہ مسئلہ  کشمیر کے کسی بھی متاثر ہ خطے میں ریاست جموں کشمیر میں رائج قانون کے حوالے سے کوئی رد بدل کرنے کا انہیں حق نہیں۔لیکن 2009 میں وفاق پاکستان نے گلگت بلتستان کو اُس قید سے نکال کر سیلف ایمپاورمنٹ  نامی لالی پاپ دینے کا فیصلہ کیا تو کشمیر ی حضرات نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں کھولنا شروع کیں  اور گلگت بلتستان کو اکیسوں صدی میں بھی پتھروں کے زمانے میں رکھنے کا مطالبہ کرنا شروع کیا جو کہ گلگت بلتستان کی عوام کیلئے بالکل ہی ناقابل قبول تھا ۔کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی خواہش اور گلگت بلتستان کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی صوبہ بنانے کیلئے کوئی قانونی راستہ تلاش کیا جائے لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے قوانین،اور اس حوالے سے خارجہ پالیسی کے مدنظر ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر گلگت بلتستان کے  مسقتبل کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جانا ممکنات میں سے نہیں ہے۔گلگت بلتستان کی  سابق اور موجودہ حکومت کی جانب سے کئی بار آئینی صوبے کیلئے قراداد پیش کرنے کے باوجود وفاق پاکستان کا صاف لفظوں میں انکار اس بات کو ظاہر کرتا  ہے کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ  کشمیر کے مسئلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ لہذااس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہا کہ گلگت بلتستان کی قانونی اورآئینی حیثیت کیا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اٹھائیس ہزار مربع میل اور بیس لاکھ سے  زیادہ آبادی پر مشتمل اس خطے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سابق ریاست جموں کشمیر کے دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کوبحال کریں۔ نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کریں اور یہاں کے  وسائل پر جو اس وقت لوٹ مار کا  بازار  گرم ہے  ا ے  ختم کرکے یہاں کے عوام کو سابق ریاست جموں کے دوسرے تمام حصوں کے برابر مکمل حقوق دیے  جائیں۔کیونکہ ستر سال گزر جانے کے بعد عبوری ،خصوصی وغیرہ وغیر ہ کے نام سے پیکج میں تبدیلی یا اسمبلی اور ایم ایلز کے نام کی تبدیلی سے گلگت بلتستان کا مسئلہ  حل نہیں ہوگا کیونکہ شناخت اس مسئلے کا سب سے اہم جزو ہے۔ اللہ ہم سب  کو قانون اور آئین کے مطابق مادر وطن کی خدمت کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply