کڑوا درخت…مبشر علی زیدی

گھر سے نکلتا ہوں تو دوڑتی بھاگتی گلہریاں ٹھہر کر استقبال کرتی ہیں۔ ماکنگ برڈ سیٹیاں بجاتا ہے۔ چڑیاں چُرخ چُرخ کرکے ہنگامہ مچا دیتی ہیں۔
اس علاقے میں بہت زیادہ درخت ہیں اس لیے پرندے بھی بہت ہیں۔ یہ لوگ بستی بسا کر درخت نہیں لگاتے۔ جنگل کے بیچ میں گھر بنا لیتے ہیں۔ نہ ٹیلا صاف کرتے ہیں، نہ ندی کا راستہ بدلتے ہیں، نہ درخت کاٹتے ہیں۔
خزاں رخصت ہونے کو ہے۔ بے بُو کی سیاہ کھاد نے کرشمہ دکھانا شروع کردیا ہے۔ درخت ابھی بے برگ و بار ہیں لیکن جھاڑیوں میں نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ گھاس پھونس میں تازگی آرہی ہے۔
میرے گھر کے عقب میں ندی بہتی ہے۔ میں دن میں کئی بار اپنی کھڑکی سے باہر جھانکتا ہوں۔ کبھی لال تاج والا کھٹ بڑھئی درختوں کو ٹھونکتا پیٹتا ملتا ہے۔ کبھی سرمئی طوطا قلابازیاں کھاتا نظر آتا ہے۔ کبھی گلہریاں آنکھ مچولی کھیلتی دکھائی دیتی ہیں۔
امریکا میں ایک پرندے ناردرن کارڈینل کے سریلے نغمے سننے کو ملتے ہیں۔ یہ سات ریاستوں کا نشان ہے۔ ماکنگ برڈ بھی ایک طرح کی چڑیا ہے لیکن اس کے گیت کے کیا کہنے۔ ویسے یہاں کوئل بھی سنائی دیتی ہے۔ ہمنگ برڈ بھی دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں ایک بلی ہے جو کبھی کھڑکی میں آکر بیٹھ جاتی ہے، کبھی بالکونی میں۔ گھر والے کام پر چلے جاتے ہوں گے۔ بے چاری خانہ دار خاتون کی طرح بور ہوتی ہے۔ اس کی صورت پاکستانی بلیوں جیسی ہے۔ کراچی میں ہمارے پاس دنیا کی خوب صورت ترین بلیوں کا جوڑا تھا۔ یعنی پرشین پیکی فیس۔ ان کے بعد کسی اور نسل کی بلی کیسے پسند آئے! لیکن ہم ترسے ہوئے اور بلیوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں پڑوسن بلی بھی حور پری لگتی ہے۔
امریکا میں کتوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ کوئی انھیں کتا نہیں کہتا۔ ان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے ڈوگی کو بیٹا کہتے ہیں۔ ڈوگی بھی مہذب ہیں۔ منہ کم کھولتے ہیں۔ کسی کو کاٹنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ سفر کے دوران کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ میں نے انھیں کاروں میں اگلی سیٹ پر بیٹھے پایا ہے۔ البتہ ابھی تک کسی کو کار چلاتے نہیں دیکھا۔
میں بہت زمانے سے حسین فطرت سے دور تھا اس لیے یہ سب بہت اچھا لگ رہا ہے۔ خانیوال یاد آرہا ہے۔ میرے بچپن میں بائیں طرف خالو کے گھر میں اور دائیں جانب آپا نیفاں کے ہاں بھینسیں پلی ہوئی تھیں۔ خالو نے ایک کتا بھی رکھا ہوا تھا۔ سفید بالوں والا موتی آتے جاتے سلامی دیتا تھا۔ ہمارے گھر میں فقط مینڈک تھے جو نالیوں میں پھدکتے پھرتے تھے یا دم کٹی چھپکلیاں جو دیواروں پر پینٹنگز کی جگہ لٹکی رہتی تھیں۔
ہاں، ہمارے روشن دانوں میں چڑیوں کے گھونسلے بھی تھے۔ نانی اماں کہانی سناتی تھیں، ایک تھی چڑیا، ایک تھا چڑا۔ چڑا لایا چاول کا دانہ، چڑیا لائی دال کا دانہ۔ دونوں نے مل کر ہپّا پکایا۔ ہپّا یعنی کھچڑی۔ چڑے چڑیا کی کہانی سچی لگتی تھی کیونکہ دونوں ہمارے سامنے صحن میں پُھرر پُھرر اُڑتے تھے۔ ہر دوسرے دن ہمارے گھر میں کھچڑی بھی پکتی تھی۔
گزشتہ سال خانیوال گیا تو شہر میں کسی گھر کے سامنے بھینس دکھائی نہ دی۔ اس کے بجائے ہر دوسرے گھر کے سامنے گاڑی کھڑی تھی۔
کراچی میں اتنے بہت سے آدمی آکر بس گئے ہیں کہ جانوروں پرندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔ جو ڈھیٹ شہر میں باقی ہیں ان میں گھروں میں خون چوسنے والے کھٹمل، ڈینگی کے ٹیکے لگانے والے مچھر، گلیوں میں آوارہ پھرنے والے بلی کتے اور فضا میں کائیں کائیں کرنے والے کوے شامل ہیں۔ مہاجر پٹھان پنجابی سندھی بلوچ سرائیکی گلگتی بنگالی ایک دوسرے کو شہر سے نہیں نکال سکے لیکن سبزہ اور پرندے نکالتے جارہے ہیں۔
جنگ کے سینئر رپورٹر بھائی جمشید گل نے ایک بار کہا تھا کہ کراچی کے مقامی درخت کاٹ دیے گئے ہیں اور باہر سے درخت لاکر کھمبوں کی طرح گاڑے جارہے ہیں۔ کبھی غور کیجیے گا، ان درختوں پر کوئی پرندہ نظر نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ یہ کڑوے درخت ہیں۔
ہاں دوستو! درخت بھی کڑوے ہوتے ہیں۔ درخت بھی میٹھے ہوتے ہیں۔ پرندے کڑوے درختوں سے دور رہتے ہیں، کیونکہ وہ میٹھی بولی بولنا چاہتے ہیں۔ انسانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ کڑوے مشروب پیتے ہیں، کڑوی باتیں کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کڑوا درخت…مبشر علی زیدی

Leave a Reply