گنہگار اور اس کا خدا۔۔قاری حنیف ڈار

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد !

پر طبیـعت ادھـــر نہـیں آتـی !

مولوی ہونا یا مولوی کا بیٹا ہونا ! ایک ہی درجے کا جھٹکا دیتا ہے !

آپ اللہ سے ڈریں یا نہ ڈریں لوگوں سے ڈرنا واجب ہو جاتا ہے !

لوگوں سے ڈرنا اس وجہ  سے واجب نہیں ہو جاتا کہ لوگ بہت پرہیز گار ہیں ،بلکہ اس لئے کہ لوگ آپ کو امام بناتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ آپ روحانی طور پر صحتمند ہیں اور قربانی صحتمند جانور ہی کی لگتی ہے !

ویسے تو مولوی ، مولوی ہی ہوتا  ہے  گنہگار ہو یا بے گناہ ! کیونکہ گوشت یعنی سالن جل بھی جائے تو سالن ہی کہلاتا  ہے۔ دال نہیں بن جاتا ! ویسے تو کل بنی آدم خطاؤن، و خیر الخطائین توابوں کے فرمانِ نبویﷺ کے مطابق ،آدم کے  ہر  بیٹے سے خطا ہوتی  ہے اور خطا کاروں میں بہترین وہی ہیں جو پلٹ آتے ہیں ! مگر امام صاحب کی خطا کا ریٹ بھی ایک کے سات سو لگتا ہے،جبکہ عوام اپنا گناہ سستا بیچ دیتے ہیں یعنی ایک کے دس ، اس معاملے میں وہ بہت انکساری سے کام لیتے ہیں ! امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عام آدمی کا گناہ چھپانا واجب جبکہ عالم کا گناہ چھپانا فرض ہو جاتا ہے  کیونکہ لوگ اس سے دلیل پکڑتے اور گناہ پر جری ہوتے ہیں !

خیر گنہگار تب تک ہی کام کی چیز رہتا  ہے  جب تک اسے احساس رہتا  ہے  کہ وہ گنہگار ہے  ! اس احساس کے تحت اللہ پاک اسے اپنی رحمت کے آئی سی یو وارڈ میں رکھتا  ہے اور اس کے قلب کا دورہ کرتا رہتا  ہے، مگر جب وہ سمجھتا  ہے  کہ وہ گنہگار نہیں  ہے  تو اللہ بھی اسے آئی سی یو سے جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیتا  ہے  جہاں ہاؤس جاب والے ہی اسے ڈیل کرتے ہیں، بندے کو یہ گھمنڈ ہو جائے کہ وہ نیک  ہے  یا یہ گمان ہو جائے کہ وہ بے گناہ  ہے ! نتیجہ دونوں کا رب کی رحمت سے دوری  ہے !! قصہ ابلیس اس معاملے میں ایک عبرت ناک مثال  ہے ، سجدے سے اسے اس گھمنڈ نے روکا کہ وہ آدم سے بہتر  ہے، تو توبہ اسے اس گمان نے نہیں کرنے دی کہ اس کی تو کوئی غلطی  ہے  ہی نہیں توبہ کس بات کی ؟ مولوی جب خود نیک بن کر اور گناہگاروں کا وکیل بن کر تصور میں کالا کوٹ پہن کر رب کی عدالت میں پیش ہوتا  ہے تو دھتکار دیا جاتا ہے ، مگر جب خود کو بڑا پاپی سمجھ کر پاپیوں کے ساتھ جھکی اور ندامت زدہ آنکھوں کے ساتھ ، شرمسار دل اور ضمیر کے ساتھ مجرم بن کر اللہ کے سامنے پیش ہوتا  ہے تو پھر اپنے ساتھ دوسروں کی بخشش کا سامان بھی کر دیتا ہے  !

ایک اللہ والے کے پاس بستی والے حاضر ہوئے کہ ” حضرت قحط سالی نے تباہ و بدحال کر کے رکھ دیا  ہے  – آپ اللہ کے مقبول و محبوب بندے ہیں ، اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں اور ہماری خطائیں معاف کر دے ! وہ چونکہ اصلی اللہ والا تھا، اور اللہ پاک کا مزاج شناس تھا، وہ تڑپ اٹھا ، اس نے کہا لوگو ! جس کے کئے پر پکڑے گئے ہو اسی کو سفارشی بنانے چلے آئے ہو ؟ میں نے مانگا تو بارش کی بجائے لاوا برسے گا ! مجھے اس بستی سے نکل جانے دو پھر اللہ سے مانگو گے تو بارش برسا دے گا ! اس نے اپنے کپڑے سمیٹ کر ایک تھیلے میں ڈالے جوتے پہنے اور رو رو کر اللہ سے دعا کی ” یا اللہ میرے گناہوں کی سزا ان معصوموں کو نہ دے ، میں یہ بستی چھوڑ رہا ہوں ،میری وجہ سے روٹھی ہوئی رحمت کو ان کی طرف متوجہ کر دے ،بزرگ کے ساتھ لوگ بھی رو ر ہے  تھے کہ آسمان بھی رو پڑا، اس طرح ٹوٹ کر رحمت برسی کہ جل تھل کر دیا ! نہ صرف سات آسمان بلکہ خود اللہ کے ڈیرے بھی انسان کے اندر ہیں ،خ، حدیث قدسی میں فرمایا  ہے  کہ میں زمین آسمان میں نہیں سماتا مگر بندہ مومن کا قلب مجھے سمو لیتا  ہے ! بارش انسان کے اندر سے برستی  ہے اور اندر سے ہی روکی جاتی، جب تک انسان کی آنکھ نم رہتی  ہے آسمان بھی نمناک رہتا  ہے، جب انسان کے اندر شقاوت اور سختی پیدا ہوتی  ہے تو آسمان بھی سختی اور خشکی سے تڑخ تڑخ جاتا  ہے !

خیر عرض کر رہا تھا کہ گنہگار دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو گنہگار ہوتے بھی ہیں اور اپنے آپ کو سمجھتے بھی ییں، دوسرے وہ جو گنہگار ہوتے تو ہیں مگر اپنے کو گنہگار سمجھتے نہیں بلکہ آداب کی وجہ سے انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے کو گنہگار کہتے ہیں اور اس پر بھی اجر کے امیدوار ہوتے ہیں کہ انہوں نے گنہگار نہ ہوتے ہوئے بھی گناہ کا اعتراف کیا  ہے،جس طرح آپ مشین پہ بل جمع کراتے ہوئے بڑا نوٹ جمع کرا دیں تو مشین ایکسٹرا پیسے ایڈوانس آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کر دیتی  ہے۔
دعا مانگنے کا مزہ اصلی گنہگار کے پیچھے ہی آتا  ہے، نہ کہ اس کے پیچھے جو دعا کو احسان چڑھا کر مانگ رہا  ہو ! جس طرح اصلی مریض کی چیخ و پکار اور درد سے تڑپنا دوسرے انسان کے رونگٹے کھڑے کر دیتا  ہے  یہی کیفیت اصلی گنہگار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہوتی  ہے!

حج کے دوران میدان عرفات میں تھے ، 3 بجے کے لگ بھگ ہم دو تین ساتھی باھر نکلے کہ جبلِ رحمت کی طرف چلیں ! خیمے سے نکل کر کوئی 200 گز دور گئے ہونگے کہ اچانک رونے دھونے اور چیخ و پکار کی آوازیں کان میں پڑیں ، سوچا کوئی حاجی بےچارہ اللہ کو پیارا ہو گیا  ہے  ،خیمے کے  پاس جا کر دیکھا تو مجمع لگا ہوا تھا، ایک موٹا تازہ اور لمبا دھڑنگا گنہگار رو رو کر اور بلک بلک کر اللہ سے معافیاں مانگ رہا تھا، وہ اردو میں دعا کراتے کراتے اچانک پنجابی میں دہائی دینے لگتا ، بس جناب دل کے سوتے کھل گئے سوچا رحمت تو ادھر برس رہی  ہے  ہمارے خیمے کے پاس ، چونکہ وہ بھی بار بار مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈال ر ہے  تھے ہم نے بھی ریت کی مٹھی بھری اور سر پر ڈال کر شروع ہو گئے، رونے میں ہمیں بچپن سے کمال حاصل تھا، ماسٹر حسن اختر صاحب دوسری صف کو مار ر ہے  ہوتے تھے اور ہم سامنے کی صف میں ایڈوانس رو ر ہے ہوتے تھے ! دعا جب ختم ہوئی تو میں اس گنہگار کے ہاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھا جس نے ہمیں دھوبی کی طرح نچوڑ کر گند نکال دیا تھا، اگر وہ ” گنــد “ہم میدانِ عرفات سے بھی واپس لے آتے تو پھر وہ کسی لانڈری میں نہیں دھل سکتا تھا ! پاس پہنچے تو پتہ چلا کہ ” آنجناب ” کا نام الیاس کاشمیری تھا جو غالباً پنجابی فلموں کے ولن تھے اور بڑے قد آور شخص تھے ! بس جو مزہ الیاس کاشمیری کے پیچھے دعا میں آیا وہ پھر کبھی نصیب نہ ہوا اگرچہ کئی چکر عرفات کے لگ گئے مگر کوئی الیاس کاشمیری نہ ملا جو ہمیں نچوڑتا !

Advertisements
julia rana solicitors london

مولوی کی اولاد ہونا بھی ایک مسئلہ  ہے، آپ گناہ سے اس لئے نہیں بچتے کہ وہ بری چیز  ہے ، بلکہ اس لئے بچتے ہیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ہیں ! اسی طرح نیکی کو نیکی سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ آپ امام صاحب کے بیٹے ہیں، بس گویا نیکی ایک چونگی  ہے  یا ٹول ٹیکس  ہے جو آپ کو مولوی کا بیٹا ہونے کے ناطے ادا کرنا  ہے، آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی کا بیٹا ہو کر کرکٹ کھیلتا  ہے ! آپ ٹوپی سر سے ہٹا کر اپنے کنگھی کردہ ریشمی بال کسی کو نہیں دکھا سکتے کیونکہ آپ امام صاحب کے بیٹے ہیں،بلکہ سر کو  ہر  وقت اس طرح کس کر باندھے رکھنا  ہے  جس طرح دیہات میں لوگ پنجیری والے گڑوے کا منہ کپڑے سے کس کر باندھتے ہیں، ہاں اگر ابا جی کو مسجد سے فارغ کر دیا جائے تو اب آپ بھی آزاد ہیں، یا محلہ تبدیل کر لیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ! بچہ بچہ ہوتا  ہے امام صاحب کا ہو یا وسیم اکرم کا ،اس کا دل بچہ ہوتا  ہے، اللہ نے اسے جو گریس پیریڈ دیا  ہے ،جس میں وہ مرفوع القلم  ہے اس کی برائیوں کی ابھی فائل نہیں بنی، اس عرصے میں اسے اپنا بچپن انجوائے کرنے دیجئے ورنہ ابنارمل بچپن آگے چل کر مسائل پیدا کرتا  ہے، اور پھر جب ایسا بچہ مولوی بنتا  ہے تو دل پشوری کرنے کے لئے وہی کچھ کرتا  ہے جو ہمارے بدعتی مولوی میلاد کے نام پر   ہر  سال نئے نئے میلے ٹھلے ایجاد کرتے ہیں ! یہ ان کا immature بچپن ہی  ہے جو دین کو بگاڑ کر خراج وصول کر رہا  ہے۔

Facebook Comments

قاری حنیف ڈار
قاری محمد حنیف ڈار امام و خطیب مسجد مرکز پاکستان ابوظہبی متحدہ عرب امارات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گنہگار اور اس کا خدا۔۔قاری حنیف ڈار

Leave a Reply