قصہ حاتم طائی جدید۔قسط5

غرض کہ تین راتیں اور تین دن یہ فقیر زوجہ مبارکہ کے پاؤں دباتا رہا اور کڑوی کسیلی سننے کے باوجود عقد ثانی کے فوائد اور سوکن کے فضائل سے متواتر آگاہ کرتا رہا-اس محنتِ شاقہ کے نتیجہ میں بالآخر اس نیک بخت کا دل پسیجا اور اس قدر پسیجا کہ وہ خود ہمارے لئے کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈنے پر رضامند ہو گئی-ایک روز جب یہ درویش ظہرانے کے بعد قیلولہ کے واسطے زنان خانے میں داخل ہوا تو زوجہ نے بتایا کہ چک 54 جنوبی میں ایک رشتہ پڑا ہے- لڑکی جوان ہے ، سرو قد اور نہایت شریف- چہاردانگ عالم اپنا ثانی نہیں رکھتی- ماں باپ اتنے غریب ہیں کہ بمشکل سانس لیتے اور حکومت کا شکر ادا کرتے ہیں-

زوجہء خوش خصال نے مشورہ دیا کہ جتنی جلدی بن پڑے ، اسی پری جمال سے عقد فرما لیجئے ، تاکہ اس کی دنیا سنور جائے اور آپ کی آخرت-
میں نے کہا! اے نیک بخت ۔۔۔ خدا تیرا اقبال بلند کرے ( اقبال میرے سالے کا نام ہے)۔۔ یوں کر کہ ایک بار پھر تصدیق کر لے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی والے بعد میں مُرتد ہو جاویں۔۔
اس پر وہ کشور کشاء بولی۔۔ انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- غریب باپ کی کمائی ایک نیک سیرت جوائی ہی ہوتا ہے ۔۔۔ اور آپ جیسا نیک سیرت چراغ ڈھونڈنے سے نہ ملے گا۔

یہ سن کر میں امید سے ہو گیا۔۔
رات خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ گھوڑے پر سوار ہوں ، بارات چل رہی ہے کہ قریب ہی کوئی خود کش آن پھٹتا ہے ، گھوڑا اور باراتی بچ جاتے ہیں ، اور میں مر جاتا ہوں۔پھر دیکھا کہ سفید گھوڑی پر سوار ہوں- بارات چک 54 جنوبی کی طرف جا رہی ہے- ممو والے پُل سے دو چار کُتے برآمد ہوتے ہیں، گھوڑی “ترٹھ” کر بھاگتی ہے اور میں پتنگ کی طرح پھرکیاں کھانے لگتا ہوں۔
غرض کہ اسی بھاگ دوڑ میں صبح ہو گئی۔۔

اگلے روز وہ نیک بخت سویرے ہی سویرے ہمراہ ایک سہیلی کے چک 54 جنوبی سدھاری اور چارپائی پر لیٹ کر ٹینشن لینے لگا- ذرا سی ہوا بھی چلتی تو بھاگ کر دروازے پر جا کھڑا ہوتا- یوں دن بھی بھاگتے دوڑتے گزر گیا،عصر کے بعد وہ نیک اختر واپس آئی تو چہرہ بجھا ہوا تھا اور آنکھیں سرخ۔۔میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔۔ نصیبِ دشمناں ۔۔ کیا بخار ہو گیا؟
وہ بولی۔۔ بخار نہیں ، انکار ہوا ہے ، اور وہ بھی سخت بزّتی کے ساتھ۔۔
میں خاموش ہو کر ارمانوں کی ٹوٹی کرچیاں چننے لگا- انسان بھی عجب چیز ہے، خواہ مخواہ جھوٹی امیدیں باندھ لیتا ہے، بھلا رشتہ بھی کوئی بیری پہ لگا پھل ہے کہ جو چاہے اچک لے۔

میں نے سر کھجاتے ہوئے یوں ہی پوچھ لیا۔۔آخر انکار کی کوئی توجیع بھی تو کی ہو گی ؟ یقیناً جہیز وغیرہ کا خوف دامن گیر ہو گا۔
بولی۔۔ فرماتے ہیں ہماری بیٹی کوئی برص کی مریض نہیں ، نہ ہی گنجی ہے اور نہ ہی اس کے سر پہ سینگ اگ آئے ہیں جو ایک شادی شدہ بوڑھے مولوی سے بیاہ دیں۔
میں نے کہا:اگر زور “مولوی”پر تھا تو یقیناً گنہگار ہوئے ہیں- باقی بڑھاپے کی تو محض تہمت ہے ، اور شادی شدہ ہونا کوئی عیب نہیں۔
وہ بولی: کہتے ہیں تمہارے مولوی کو آخر ہوا کیا ہے جو ایک منکوحہ کے ہوتے ہوئے دوسری کے پیچھے بھاگتا ہے۔۔۔خوفِ خدا بھی کوئی چیز ہے۔
میں نے کہا: خوفِ خُدا تو انہیں کرنا چاہیے- اگر جمعہ کے جمعہ مسجد آ کر میرے خطبات سن لیتے تو یقیناً ایسی کڑوی بات نہ کرتے- خیر ہے بھول جاؤ ایسے جہلاء ہر ملک و قوم میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور یہی مِلّت کے زوال کا باعث ہیں۔

خیر وقت یونہی گزرتا گیا لیکن دل کی خلش کم نہ ہوئی۔۔۔سوچا لطفِ زندگی اگر ہے تو عقدِ ثانی میں ورنہ گُڑ بھی روز کھایا جائے تو پیاز لگنے لگتا ہے۔۔ سو ہر روز مسجد سے یہ قصد کر کے نکلتا کہ کچھ بھی ہو اگلے آدینہ تک ضرور نکاح کر لوں گا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہر بار ارادہ پوسٹ پونڈ ہو جاتا-

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔
چوتھی قسط کا لنک!
https://mukaalma.com/article/ZAFARGEE/3952

Facebook Comments

ظفرجی
جب تحریر پڑھ کر آپ کی ایک آنکھ روئے اور دوسری ھنسے تو سمجھ لیں یہ ظفرجی کی تحریر ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply